کیا “آپ” کسی کی تاریکی کی وجہ ہیں؟-محمد وقاص(سائیکالوجسٹ )

ایک لڑکا مرجھائے چہرے کے ساتھ میرے پاس آیا اور بتایا کہ وہ سی ایس ایس کا خواب دیکھتا ہے،لیکن ابھی یونیورسٹی میں اس کے بہت کم مارکس آئے ہیں۔ اس کے گھر والوں نے بھی اسے برا بھلا کہا اور دوستوں نے بھی اس کا مذاق اڑایا۔ اس بات کو اس نے دل پہ لے لیا اور مایوس ہو گیا۔ اب اس کا سی ایس ایس والا خواب بھی چکنا چور ہو رہا تھا۔ وہ مجھ سے پوچھنے آیا تھا کہ کیا وہ تعلیم چھوڑ کر کوئی اور کام شروع کر دے یا اسی میں لگا رہے۔؟

یہ بات میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ لوگوں کو ان کے بڑے خواب کے راستے میں چھوٹے چھوٹے مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان چھوٹے مصائب یا مشکلوں سے انسان کی سپیڈ کم ہو جاتی ہے یا چھوٹی موٹی ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن معاشرہ ایسے موقع پر آگے نہیں بڑھنے دیتا۔ مختلف طرح کے دلائل سے ان کو چھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان مایوس ہو جاتا ہے۔ اس کو اپنی صلاحیتوں پر بھی شک ہونے لگتا ہے۔ وہ خواب جو کئی سالوں سے دیکھے ہوتے ہیں وہ چکنا چور ہوتے نظر آنے لگتے ہیں۔

میرے لیے اس سے دردناک صورتحال نہیں ہو سکتی کہ کسی کا بڑا خواب ہو اور کسی کی دوسرے کی باتوں کی وجہ سے وہ خواب ٹوٹ جائے۔ اوپر سے سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ اگر کسی نے بڑے خواب یا گول رکھے ہیں تو اس سے بات کیسے کرنی ہے۔ لوگ وربل اور نان وربل طریقے سے ایسے خوابوں کو ناممکن ثابت کرنے کے اشارے دیتے ہیں۔ جس کا بدترین نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شخص آگے بڑھنا ہی روک دیتا ہے۔ کسی ایسے مایوس نوجوان کو دیکھ کر میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اس کے اندر قابلیت ہے لیکن پھر بھی یہ آگے نہیں بڑھ رہا۔
مارک ٹوئن نے کہا تھا
“There is no sadder sight than a young pessimist”
“ایک مایوس نوجوان کو دیکھنے سے اداس ترین نظارہ کوئی نہیں ہے۔”

وہ نوجوان جس کے جسم میں برق رواں ہو سکتی ہے وہیں مایوسی میں برق ختم ہو جاتی ہے۔ اقبال کے شاہین جس کی نظر کوہ و بیاباں پر ہونی چاہیے اس کی نظر مایوسی کے اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں اس نوجوان کا قصور نہیں ہوتا بلکہ ایک مایوس معاشرہ اس کو اس ڈگر پر لے جاتا ہے۔ وہ نوجوان جو سمندر سے ہیرے نکال سکتا ہے وہی ایک نہر کے کنارے مایوس بیٹھا نظر آئے گا۔ اس کی صرف اور صرف وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر جوش اور شدت ختم کر دی گئی ہے اور اس میں ہم سب شامل ہیں۔
مائیکرو لیول پر ہمارے جو بھی ایکشن ہو رہے ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی پر مثبت یا منفی پہلو سے اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ اب یا تو آپ کسی پر مثبت طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں یا منفی انداز سے۔ درمیان کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
کسی کے بڑے خواب پر ہنسنا یا ایک مضحکہ خیز مسکراہٹ لانا اس کو منفی طور پر اثر انداز کرنے کے برابر ہے۔
نیورو لنگوسٹک پروگرامنگ (NLP) میں ایک مفروضہ استعمال ہوتا ہے۔
“You are always communicating”
آپ ہر وقت دوسرے کے ساتھ کمیونیکیٹ کر رہے ہوتے ہیں۔”
اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر آپ خاموش بھی ہیں تب بھی دوسروں کو ایک میسج دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ ایک لمبا ٹاپک ہے اس پر پھر کبھی لکھا جائے گا۔ لیکن اگر کوئی آپ کو اپنے بڑے بڑے خواب دکھا رہا ہے۔ اس کی آنکھوں میں روشنی اور امید ہے ، تو آپ سن کر خاموش ہو جاتے ہیں تو آپ اس کو ایک پیغام دے رہے ہیں کہ مجھے آپ کے گول سے کوئی غرض نہیں ہے۔ اور شاید مجھے آپ کے گول ناممکن نظر آ رہے ہیں۔ اس کے بجائے اگر آپ صرف اسے یہ کہہ دیں “ہاں بہت اچھی سوچ ہے۔ بہت بڑے گول ہیں، اس پر ضرور لگے رہیں۔”
تو خاموشی والے کیس اور اس کیس میں زمین آسمان کا فرق ہوگا۔ اس کی انرجی ڈبل ہو جائے گی۔

ہمیں یہی کوشش کرنی چاہیے کہ دوسروں کو آگے بڑھنے میں مدد کریں۔ اگر ہم مدد نہیں کر سکتے تو ہمیں معاشرے کے بگاڑ اور تنزلی کا بھی گلہ نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ خود ایسی چیزیں سیکھنی چاہئیں  جس سے ہم خود تبدیلی پیدا کر سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چیلنج
آج اور کل کوئی ایسا مایوس نوجوان ڈھونڈیں جو تاریکی کے اندھیرے میں ہو۔ پہلے اس کو تھوڑی دیر سنیں اور پھر اس کے اندر امید پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ کام کرنے سے آپ اپنے اندر گہرا سکون محسوس کریں گے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply