اولمپکس کی سائنس/ندا اسحاق

ارشد ندیم نے جو مثال قائم کی ہے وہ لاجواب ہے، اب ان کی اس جیت کو جس طرح سے منایا جائے گا، جو اہمیت اور مواقع انہیں ملیں گے اس سے پاکستانی بچوں اور نوجوانوں میں اولمپکس کو لے کر آگاہی آئے گی اور بچے ارشد ندیم کی طرح گولڈ میڈل لانے کا خواب دیکھیں گے۔ ارشد ندیم نے اس قدر بہترین مثال قائم کی ہے کہ میرا اپنا بیٹا جو گیمنگ یوٹیوبر بننا چاہتا ہے، ارشد ندیم کو دیکھ کر اولمپکس میں دلچسپی دکھا رہا ہے اور یقیناً ارشد بہت سے بچوں کے لیے متاثر کن شخصیت کے طور پر سامنے آئیں گے۔
لیکن یہاں اولمپکس کی سائنس جاننا بہت ضروری ہے کیونکہ میرے بیٹے کی طرح محض متاثر ہونے سے آپ اچھا اسپورٹ نہیں کھیل سکتے، بلکہ اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ”صلاحیت“ (ٹیلنٹ) بچوں میں ”جنیاتی“ (جینیٹکس) طور پر موجود ہو۔ اسپرنٹ ریس میں ہمیشہ وہی جیتے گا جس کے ڈی-این-اے میں ”افریقی جین“ ہوگا، کوئی چائنیز کتنی بھی پریکٹس کرلے اس کے پاس وہ جنیات ہی نہیں جو اس ریس کو جیتنے کے لیے چاہیے۔ محض پریکٹس اور اچھا کوچ ہونے سے آپ کے لیے جیتنا ممکن نہیں، جب کسی بچے میں فطری صلاحیت موجود ہو تو اس پر محنت کرکے، اچھا کوچ، اچھی سہولیات سے چار چاند لگائے جاسکتے ہیں۔ اگر آپ کے بچے میں فطری صلاحیت ہے تو اسکا فائدہ اٹھائیں اور محض زبردستی اسے کتابوں میں مصروف رکھنے کی بجائے اسکا سہارا بن کر اسکی صلاحیت کو پالش کریں۔

میں ایسے کئی لوگوں کو جانتی ہوں جن کے پاس (ان کے برتھ چارٹ میں بھی) گانے کی صلاحیت ہے انکی آواز اور شخصیت بہت اچھی ہے، وہ شوبز میں اچھا کرسکتے تھے، انکی شہرت اور پیسہ اسی شعبہ سے آنا تھا لیکن انہیں انجینئر بنا دیا گیا، نہ وہ اچھے انجینئر ہیں اور نہ ہی خوش۔ ایسے ہی ایک نوجوان جس کو جمناسٹک سے عشق ہے اور ان میں جنیاتی صلاحیت موجود ہے لیکن وہ بزنس کررہے ہیں، جمناسٹک میں وہ شاید اولمپکس لیول پر جاسکتے تھے لیکن بزنس میں وہ قدرے بہتر سے زیادہ کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ ان دونوں کیس میں والدین کو شعور اور آگاہی ہی نہیں کہ اولمپکس بھی ہوتا ہے یا گائک بن کے بھی پیسہ بنایا جاسکتا ہے یا کچھ بچوں میں قابلِ تعریف جسمانی صلاحیتیں ہوتی ہیں جن کو پالش کرکے بچہ نہ صرف کامیاب ہوسکتا ہے بلکہ اسکی فطری صلاحیتوں کا استعمال اسے خوشی اور اطمینان بھی بخشتا ہے(کسی حد تک)۔ جنیات (صلاحیت) کا ہونا بہت ضروری ہے، صرف موٹیویشن، محنت اور تربیت سے بات نہیں بنتی!

سوشل میڈیا کے ذریعے اور ارشد ندیم کی قائم کردہ مثال سے والدین میں آگاہی آئے گی اور وہ اپنے بچوں کی پڑھائی (آئی-کیو) سے ہٹ کر صلاحیتوں کو بھی دیکھ پائیں گے، ہر بچہ پڑھائی میں جوہر دکھانے یا آئی-کیو ٹیسٹ پاس کرنے کے لیے نہیں بنا ہوتا، کچھ بچے بس پرچہ پاس کرلیں تو بھی بڑی بات ہوتی ہے کیونکہ ان کی صلاحیت اچھا آئی-کیو ہے ہی نہیں۔ جب میرے بیٹے نے کہا کہ اسے گیمنگ یوٹیوبر بننا ہے، یہ سن کر مجھے ہرگز خوشی نہیں ہوئی لیکن میں نے اس کے اس فیصلے پر اسکا ساتھ دیا کیونکہ ضروری نہیں کہ مجھے پڑھائی یا کتابوں سے دلچسپی ہے تو میرے بیٹے کو بھی ہو، بچے ماں باپ سے منفرد بھی ہوسکتے ہیں۔

بچوں کی انفرادی شخصیت کو سمجھنا اور قبول کرنا ضروری ہوتا ہے، مجھے بھی بہت تکلیف ہوئی جب مجھے اس بات کو قبول کرنا پڑا کہ میرا بچہ سائنس پڑھنے کی بجائے گیم کھیلنے میں دلچسپی رکھتا ہے (کیونکہ میں بھی اسی معاشرے کی ہوں) لیکن یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے اس بات کو سمجھنے کا موقع ملا کہ ہمارے بچے ہماری توسیع نہیں ہیں، وہ ایک منفرد انسان ہیں جن کے نظریات ہمارے نظریات سے الگ ہوسکتے ہیں، ”ہم ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق نہ کرنے پر متفق ہوسکتے ہیں“۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیشک ارشد ندیم نے اولمپکس کے ٹرینڈ کو پاکستان میں متعارف کروا کر بچوں کو ایک نئی راہ دکھائی ہے اور وہ بھی اسپورٹس کے ذریعے جو کہ ایک صحت مندانہ سرگرمی ہے، جس میں جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی پہلو شامل ہیں، کیونکہ کھیل محض جسمانی نہیں بلکہ نفسیاتی صحت کا بھی تقاضا کرتا ہے۔

Facebook Comments

ندا اسحاق
سائیکو تھیراپسٹ ،مصنفہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply