مقدس خاندان نامی چرچ کی حیرتوں سے نکلتے ہی ہماری اگلی منزل قریب ہی موجود گاؤڈی کے ہی تعمیر کئے ہوئے دو مزید گھر کازامیلا اور کازاباٹلو تھے ۔ اگر آپ کو مختلف ڈیزائین کے گھر متاثر کرتے ہیں اور آپ جدید طرز تعمیر میں گاؤڈی کی فنکارانہ صلاحیتوں کو دیکھنا چاہتے ہیں تو ان گھروں کو بھی اپنی لسٹ میں ڈال لیں ان دونوں گھروں کی ڈیزایننگ ، اور رنگوں کا امتزاج دیکھ کر آپ کے منہ سے بے اختیار واہ نکل آئے گا ۔ اور آپ اس کے آرکیٹیکٹ یعنی گاؤڈی کو خراج تحسین پیش کئے بغیر نہیں رہ سکیں گے ۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ آپ ان کا نظارہ باہر سے تو کر سکتے ہیں لیکن اس کے اندر جانے کے لئے آپ کو ٹکٹ لینا پڑے گی جو کافی مہنگی ہے ۔ ہماری اگلی منزل پارک گوئیل تھا اس پارک میں بھی گاؤڈی کا آرٹ اور فن تعمیر ہمارا منتظر تھا ۔
گوگل ایپ بہت کام کی چیز ہیں کیونکہ اب آپ کو کہیں رک کر کسی سے پتہ نہیں پوچھنا پڑتا بلکہ انہی کی پیروی کر کے دنیا گھو م سکتے ہیں ۔ ورنہ پہلے تو لوگ کہتے تھے زلف تیری کا کنجل دیکھ کر راہی راہ بھول جاتے ہیں اور راہ بھولنا اتنا منحوس خیال کیا جاتا تھا کہ ہم دادی اما ں کو کہتے کہ دادی جی کوئی کہانی سنائیں تو وہ کہتیں نہ پتر کہانی شام کو سناؤں گی اگر دن کو کہانی سنائیں تو راہی راہ بھول جاتے ہیں ۔ پرانے لوگ کتنے اچھے تھے انہیں لوگوں کا کتنا خیال تھا کہ شالا کوئی پردیسی نہ تھیوے اور شالا کوئی رستہ نہ بھٹک جائے ۔ پرانے وقتوں میں سب سے بڑی نیکی یہی خیال کی جاتی تھی کہ اگر کوئی آپ سے رستہ پوچھے تو آپ اسے رستہ بتا دیں لیکن اب گوگل ایپس نے ہم سے نیکی کرنے کا یہ موقع چھین لیا ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ جدید ایپس اتنے زیادہ بھروسہ مند نہیں ہیں کبھی کبھی شارٹ کٹ بتانے کے چکر میں یہ ہمیں راہ بھلا بھی دیتے ہیں ۔ ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ ہوا ۔ ہم نے اس ایپ سے پارک گوئیل کا رستہ پوچھا تو اس نے شارٹ کٹ بتایا جو بعد میں عذاب ثابت ہوا
گوگل ایپ کی مان کر ہم جس میٹرو اسٹیشن پر اترے وہاں ہم نے دو تین دفعہ دوبارہ گوگل باجی سے پوچھا کیونکہ ہم لگا یہ ہمیں بہت جلدی لے آئی ہیں لیکن وہ یہی بتایئے کہ بس دس منٹ کی پیدل واک ہے اور آپ پہنچ گئے ۔ حیرت ہمیں اس وقت ہوئی جب پارک کی طرف جانے والوں کا کوئی رش نہیں تھا اور ایک انجان سے پہاڑیوں پر چڑھتی سڑک ہمارامنہ چڑارہی تھی سڑک اتنی اونچائی کی طرح لے جارہی تھی کہ اس سڑک کےاندر باقاعد ہ برقی سیڑھیاں نصب ۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ کچھ برقی سیڑھیاں یعنی ایکسلیٹر کام نہیں کر رہے تھے اور ہمیں سیڑھیاں باقاعدہ چڑھنی پڑ رہی تھیں ۔ کچھ برقی سیڑھیاں آٹو میٹک تھیں یعنی اگر کوئی دوسری طرف سےپہلے آگیا تو وہ اس سمت سے نیچے کی سمت چلنا شروع ہو جاتی تھی ۔ وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بار بار یہی خیال آرہا تھا کہ ہم پارک کی سیر کو نہیں جارہے بلکہ ماتا وشنودیوی کے مندر میں حاضری کو جارہے ہیں خیر پار ک کے گیٹ تک پہنچے تو گرمی اور سیڑھیوں کی چڑھائی کے باعث حشر ہوگیاتھا
پہاڑی کے آخری سرے پر پہنچے تو کچھ اٹالین نوجوان لڑکیاں اور لڑکے واپس آرہے تھے ۔ وہ بہت غصے میں تھے ہمیں روک کر پوچھا اگر ٹکٹ ہے تو اوپر جاؤ ورنہ کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ہم نے پوچھا کیا ہوا تو وہ غصے میں جنھجلا کر کہنے لگے کہ خواہ مخواہ اتنی چڑھائی چڑھ کر اوپر پہنچے ہیں تو انہوں نے اندر ہی نہیں جانے دیا کہ اگر پہلے سے بکنگ نہیں ہے تو نہیں جا سکتے ۔ مجھے گاؤڈی کے ان بھگتوں پر ترس آیا ۔ بے چاروں کی تپسیا بھسم ہوگئی ۔درشن نہیں ہوئے ۔ اب انہیں کل آنا پڑ ے گا وہ بھی اگر پہلے سے بکنگ کروا سکے تو ۔ آپ ہسپانویوں کو سلام پیش کریں کہ پارک گوئیل اتنا بڑا ہے کہ جتنے مرضی ہیں لوگ آجائیں گنجائش بہت زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود آپ کو دن کا ایک سلاٹ بک کرنا پڑتا ہے ایسا نہیں ہے کہ آپ جب چاہیں منہ اٹھا کر چلے جائیں ۔ یہ گھنٹے اتنے جلدی بک ہوجاتے ہیں کہ اسی دن کا وقت ملنا نا ممکن ہے آپ کو ایک دو دن پہلے بکنگ کرانی پڑتی ہے ۔ ہم نے برطانیہ سے نکلنے سے پہلے ہی بکنگ کرالی تھی ۔ اس پارک کی انٹر ی فیس دس یورو ہے ۔ ہمیں تین گھنٹے پہلے ای میل آگئی تھی کہ اگر آپ مقررہ وقت کے آدھے گھنٹے میں پارک نہیں پہنچے تو آپ کو اندر نہیں جانے دیا جائے گا ۔ وہاں پہنچ کر اندازہ ہو ا کہ گوگل ایپس ہمیں جلدی پہنچانے کے چکر میں پہاڑی کی اونچائی والی سائیڈ پر لے آیا تھا ۔ اس کا مین داخلہ تو پہاڑ کی نچلی طرف تھا ۔ اس دن گوگل ایپ کو گالی دینے کا خیال آیا لیکن پھر نہیں دی کہ ابھی اس سے اور ابھی بہت سے کام تھے ویسے بھی اچھا ہی کیا اتنی بہترین ورزش کر ادی
پارک گوئیل بارسلونا کی ایک پرانی پہاڑی تھی جسے گوئیل اور گاؤڈی نے اپنے ہاتھوں کے جادو سے قیمتی کر دیا ہے ۔ جیسے کوئی جوہر پتھروں کو گوہر کر دیتا ہے ۔ گاؤڈی نے بھی اپنی تعمیرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا بنا دیا ہے کہ لوگ رقم خرچ کر کے اس کی سیر کو آتے ہیں جیسا کہ میں نے لکھا تھا کہ گاوڈی کی ہر تخلیق میں نیچر یعنی فطرت نظر آتی ہے ۔ درخت ، پتے ، پتھر اور روحانیت اس کے ہرماڈل میں واضح ہے ۔ اسی طرح اسی پارک کی پگڈنڈیوں کو اس نے پتھروں کی مدد سے ایسا بنایا ہے کہ دورسے دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ قدرتی ہیں اور یہ پتھر نہیں ہیں بلکہ صنوبر کے درختوں کے تنے ہیں ۔ ان پگڈنڈیوں کے نیچے پتھروں کی ہی بنی ہوئی راہداریاں جن کو سہارا دینے والے ستون پھر درختوں کے تنوں ، شاخوں اور پتوں کی طرز پر تعمیر کئے گئے ہیں ۔
پارک کا مرکزاس کے درمیان میں بنا وہ چبوترہ جس سے سارا بارسلونا شہر نظر آتا ہے ۔کئی ستونوں پر کھڑے اس چوبترے پر سینکڑوں لوگ کھڑے ہوسکتے ہیں بلکہ دوڑ سکتے ہیں یہ خود اپنی وسعت میں ایک پارک سے کم نہیں ہے ۔ اس چوبترے کے گرد گاؤڈی نے سانپ کی شکل کی بل کھاتی منڈیر بنائی ہے جو ایک بنچ کی صورت میں ہے سینکڑوں لوگ اس بنچ پر بیٹھ کر کر تصویر بنوا سکتے ہیں اور آرام کر سکتے ہیں ۔ اس بنچ پر کانچ اور سرامیکس کی ،نیلے ، پیلے ، سفید اور شربتی ٹکڑے اور کرچیاں ایسی جڑی ہوئی ہیں کہ آپ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے اس بنچ کی ٹیک ایسی تعمیر کی گئی اس میں عین کمر کے مقام کیلئے ایسا بارڈ ر بنایا گیا ہے کہ جدید ترین صوفہ بھی آپ کی کمر کو اتنی آرام نہیں پہنچا سکتا جیسی ڈیزائننگ اس بنچ کی ٹیک کرتی ہے ۔ مین دروازے کے باہر ایک بہت بڑی چھپکلی اور ایک سانپ کا ڈیزائین انہیں کانچ کی کرچیوں سے بنایا گیا ہے جو آپ کی توجہ کھینچتا ہے ۔ اگر آپ بارسلونا جائیں تو اس پارک کی سیر کو ضرور جائیں ۔ یہ محض پارک نہیں ہے بلکہ اس کے اندر گاؤڈی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے
آپ نے بارسلونا دیکھا اور آپ گاؤڈی کے نام سے واقف نہیں ہوئے ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا ۔ بارسلونا کو انتونی گاؤڈی نے اپنی گودی میں ایسے لیا ہوا ہے کہ سیاح ٹھیک ایک صدی پہلے دنیا سے چلے جانے والے ماہر تعمیر سے متعارف ہوئے بغیر اس شہر سے نکل ہی نہیں سکتا ۔ دنیا کا وہ کون سا شہر ہوگا جس کی 9 عمارتیں یونیسکو کےورلڈ ہیرٹیج سنٹر میں آتی ہوں اور ان میں سے بھی 7 ایک ہی شخص کا شاہکار ہوں ۔ یقینا ً وہ گاوڈی ہے۔گاؤڈی کو درختوں ، پتوں ، سانپوں اور چھکلیوں سمیت قدرت کے ان نظاروں سے محبت کیوں تھی اس کی وجہ اس کا بچپن تھا ۔ اس کے بچپن سے ہی اسے گٹھیا کی بیماری ہوگئی تھی ۔ جس کے باعث اسے بارسلونا سے باہر بھیج دیا گیا تاکہ وہ تازہ آب و ہوا میں پل سکے ۔ ہر وقت باہر رہنا ہر وقت سر سبز درختوں ، پہاڑوں اور قدرت کے نظاروں کے اتنا قریب رہنا اس کے فن کے نکھار کا سبب بنا اور اس نے قدرت کے ان نظاروں کو اپنی تخلیق میں منتقل کر دیا ۔
آج کا سبق یہ ہے کہ صرف خدا ہی جانتا ہے کہ آپ کے لئے اچھا کیا ہے اگر خدا نے آپ کو کوئی معذوری دی ہے ۔ آپ کوکوئی پریشانی دی ہے تو آپ خدا سے شکایت نہ شروع کر دیں کیونکہ آپ کے لئے کیا اچھا ہے یہ آپ نہیں جانتے یہ صرف آپ کا خالق ہی جانتا ہے ۔ اگر خدا گاؤڈ ی کو بچپن سے ہی یہ جوڑوں کے درد کی بیماری نہ دیتا تو آج دنیا کو اتنے عظیم آرکیٹیکٹ کا کام دیکھنے کا موقع نہ ملتا۔
جاری ہے ۔
Related
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں