ٹرین ٹو کوئٹہ- ایک مسافر کی داستان(6)-ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

*الہجرہ ریزیڈنشل سکول و کالج ،

زیارت سے واپسی پر اس شہر میں ہمارا آخری پڑاؤ الہجرہ کالج تھا۔
اس ادارے سے میرا پہلا تعارف ”رضوان بگٹی“ ،ہے جو ایک سیاح اور بائیکر ہونے کے ساتھ ساتھ اس ادارے کا فارغ التحصیل بھی ہے اور آج کل ملتان میں اعلیٰ تعلیم کے لیئے مقیم ہے۔
رضوان نے جب مجھ سے ادارے کے سہ ماہی مجلے ”الخالدون” کے لیئے بلوچستان کا سفرنامہ مانگا تو مجھے اس ادارے کے بارے میں جاننے کا تجسس ہوا اور جب وہ میگزین چھپ کے میرے ہاتھ میں آیا تو میں دنگ رہ گیا۔ انتہائی خوبصورت طباعت، کمپوزنگ اور اس میں بلوچ نوجوانوں کے زبردست مضامین۔
اس مجلے کا ایڈیٹر الیاس کاکڑ ہے جس سے رابطہ کیا تو ادارے کے بارے میں اور معلومات حاصل ہوئیں۔ پشین کے علاقے خانوزئی سے تعلق رکھنے والا الیاس، آج کے دور کا پڑھا لکھا اور باشعور نوجوان ہے جو بلوچ روایات کی مشعل تھامے وفاقی دارالحکومت میں اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ اس کو جب ادارے کے دورے کا بتایا تو بہت خوش ہوا۔

اب اس شاندار ادارے کا تعارف کروا دیتا ہوں۔
الہجرہ ریزیڈنشل سکول اینڈ کالج، جناح کیمپس زیارت، صوبے کا وہ واحد غیر سرکاری ادارہ ہے جو کم وسائل والے گھرانوں کے بچوں کو دو دہائیوں سے ٹیلنٹ سکالرشپ پر تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہا ہے۔
یہی نہیں قیام و طعام، کتب، اسٹیشنری، یونیفارم اور طبی امداد جیسی سہولیات بھینادارہ مفت فراہم کرتا ہے جس کا خرچ مختلف مخیر حضرات کی جانب سے ڈونیشن کی مد میں دیا جاتا ہے۔
یقیناً یہ ادارہ بلوچستان کے طلباء کے لیئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ ہرسال یہاں نئے بیچ میں بلوچستان کے تمام اضلاع سے دو دو بچوں کو داخلہ دیا جاتا ہے یوں یہ پورے صوبے کا نمائندہ ادارہ بھی کہلانے کا حقدار ہے۔

ہوتی ہے یہاں تدبیرِ وطن
بنتی ہے یہاں تقدیرِ وطن
الھجرہ ہے دمسازِ وطن
اعزازِ وطن توقیرِ وطن

شاندارعمارت، وسیع برآمدے، سرسبز لان، لائبریری و ہاسٹل کی سہولت، خوشگوار اور اردگرد پہاڑ۔۔۔۔۔ بھائی اس جگہ کس کا پڑھنے کو دل نا چاہے گا۔۔۔۔؟؟؟

کالج کے چار مختلف بلاکس کے نام قائد اعظم محمد علی جناحؒ ،ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ، حکییم محمد سعید شہیدؒ اور ڈاکٹر عبدالقدیر خانؒ کے ناموں پر رکھے گئے ہیں۔ ماننا پڑے گا، کیا کمال شخصیات چنی ہیں۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ گزشتہ سال الہجرہ نے پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھنے والے متوسط گھرانوں کے طالب علموں کے لیئے ڈیرہ غازی خان میں ایک نیا کیمپس کھولا ہے جہاں جنوبی اضلاع سے دو دو اور سندھ کے ہر ضلع سے ایک بچے کو داخلہ دیا جائے گا۔ یقیناً یہ اقدام قابل تحسین ہے۔
الہجرہ میں ہماری ملاقات فیض بھائی کے دوست مولا بخش عرف اجاگر ساجد سے ہوئی جو وہاں بطور معلم اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیں وہاں کے لائبریرین سے ملوایا جن کی معیت میں ہم نے یہ ادارہ دیکھا۔
ادارے کی لائبریری کو میں نے اپنی کتاب شاہنامہ تحفتہً پیش کی۔ اسی لائبریری میں الخالدون کے وہ شمارے بھی رکھے تھے جن میں میرا مُولا و جھل مگسی کا سفرنامہ چھپا تھا۔ لائبریرین سے وہ شمارے لے کر جب میں نے دوستوں کو دکھائے تو وہ حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔ یہ میرے لیئے بھی ایک اعزاز تھا کہ دور دراز کے اس ادارے میں ناچیز کو بھی پڑھا جاتا ہو گا۔

الہجرہ کے طلباء سے میں نے ان کے مستقبل اور نظریات پر بھی بات کی۔ بیشتر ڈاکٹر، آفیسر اور آئی ٹی ایکسپرٹ بننا چاہتے تھے۔ کیچ، تربت اور آواران سے لے کر ژوب، بارکھان اور قلات سے تعلق رکھنے والے تمام لڑکوں کی آنکھوں میں اپنی دھرتی کے لیئے کچھ کرنے کی بھوک تھی۔ یہ سب بہت کچھ جاننا چاہتے تھے۔
اپنے ملک سے محبت اور بلوچستان کے معاشی حالات بدلنے کی جستجو ان کی باتوں سے جھلکتی تھی۔ ان سب سے بات کر کے میرا سیروں خون بڑھ گیا اور مجھے بلوچستان کی دھرتی پر فخر محسوس ہوا۔
ایک اور بات، یہ بچے دیگر صوبوں اور ممالک کے بارے میں جاننے کی شدید خواہش رکھتے تھے سو میں نے ان کو سیاحت کا مشورہ دیا اور اپنی کتاب کا بھی بتایا۔
الہجرہ سے نکلتے ہی ہم نے زیارت کو الوداع کہا اور کوئٹہ کی جانب رخ کر لیا۔
لیکن، راستے میں پڑنے والے بوستان جنکشن کو میں کیسے چھوڑ سکتا تھا، آخر ریل سے بچپن کا عشق تھا جسے نبھانا ضروری تھا۔

*بوستان جنکشن،
جہاں پنجاب و سندھ کے زیادہ تر سٹیشن پُر ہجوم اور یکساں مناظر کے حامل ہوتے ہیں وہیں بلوچستان کے اسٹیشن چھوٹے، خاموش اور قدرتی مناظر کے بیچ گھرے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک ”بوستان“ ہے جو میرا پسندیدہ اسٹیشن ہے۔

بوستان کا نام کاکڑ قبیلے کے ایک سردار اور افغان جنگِ آزادی کے ہیرو، بوستان کے نام سے موسوم ہے۔ بوستان کوئٹہ کو ژوب، ہرنائی اور چمن سے ملانے والی مختلف ریلوے لائنوں پر ایک دور میں اہم جنکشن ہوا کرتا تھا لیکن ریلوے کی تباہی کے ساتھ ساتھ بوستان بھی اجڑتا گیا اور اب یہاں برف پوش پہاڑوں کے بیچ ریل کے چند ڈبے کھڑے نظر آتے ہیں۔ بوستان کو ژوب سے ملانے والی تنگ پٹڑی ایک دور میں برصغیر کی سب سے لمبی تنگ پٹڑی تھی جس پر گیارہ اسٹیشن بنائے گئے تھے۔ انہی میں سے ایک ”کان مہترزئی” کو پاکستان کے سب سے بلند ریلوے اسٹیشن کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

ایک دور میں خوب آباد رہنے والا بوستان اب ایک ویران اسٹیشن ہے (اگرچہ کوئٹہ سے چمن جانے والی چمن پیسنجر یہاں سے گزرتی ہے) جہاں لال پہاڑوں کے بیچ بوسیدہ لاٸنوں پہ کھڑے ریل کے چند ڈبے اس انتظار میں ہیں کہ کسی مخلص وزیر کے ایک حکم پر کوئی انجن آئے گا اور انہیں کھینچ کہ ملک کے طول و عرض میں لیتا جائے گا۔
مگر حیف اس چھوٹے سے شہر کی قسمت۔۔۔۔

اسٹیشن کی چھوٹی سی عمارت کے ایک طرف لڑکیوں کا سکول ہے، سامنے بوستان کا ریلوے اسپتال جبکہ عقب میں کچھ سر سبز کھیت ہیں۔
واپسی پہ لنچ کم ڈنر ہم نے الدبئی ریسٹورنٹ سے کیا۔ شہر سے کچھ دور کچلاک کے پاس یہ روایتی ہوٹل اگرچہ کوئٹہ سے کچھ دور ہے لیکن ذاٸقہ اور سروس لاجواب ہے۔ دال، چاول، قیمہ سے لے کر روش، سجی اور بار بی کیو تک سب ملے گا۔ ان کا روش اور بار بی کیو لاجواب تھا۔ زیارت جانے والے دوست خصوصی طور پہ جاٸیں کہ یہ راستے میں پڑتا ہے۔

کوئٹہ پہنچے تو انوار بھائی کی شدید خواہش پر ہم نے پھر سے سرینا کا رخ کیا اور فیض بھائی کے ہمراہ میٹھے سے لطف اندوز ہوئے۔ فیض بھائی کو کل کے وعدے پر الوداع کہا اور ہم پہنچے میزان چوک جہاں کوئٹہ کی تمام بڑی مارکیٹیں کا سنگم ہوتا ہے۔ یہاں آپ کو ہر قسم کا سامان مل جائے گا جیسے کوئٹہ کی خاص نوروزی چپل، دانے دار کھلی چائے، خوشبودار گرم مصاحے، ہر قسم کا ڈرائی فروٹ، کمبلیں، رضائیاں، بیگ، جوتے، کورین ویلوٹ، ایرانی چاکلیٹس، چینی و ایرانی برتن اور وہ بھی نہایت مناسب داموں۔
اماں جی کی بنائی گئی لسٹ نکال کے میں نے کچھ شاپنگ اسی رات کر لی بقیہ کل پہ رکھ چھوڑی۔ ہوٹل کا رخ کیا اور تازہ دم ہو کے سو گئے۔
اگلا دن ہمارا کوئٹہ میں دوسرا اور آخری دن تھا کہ یہ ایک مختصر دورہ تھا سو اس دن کو بھرپور طریقے سے پلان کیا گیا۔
کوئٹہ کیفے سے دیسی ناشتے کی شروعات کی (جو کل کی نسبت بہت زیادہ لذیذ نا تھا) اور ہم دونوں بازاروں میں گھس گئے۔
کل کی کثر جو پوری کرنی تھی۔
اماں کی لسٹ کے مطابق خوشبودار گرم مصالحہ ڈھونڈا جو قدرے مناسب داموں مل گیا۔ پھر کپڑے اور میوے خرید کے میں ایک دوست سے ملاقات کرنے نکل کھڑا ہوا جبکہ انوار بھائی نے کمر سیدھی کرنے کے لیئے ہوٹل کا رخ کیا۔
ملاقات کے بعد میں ہوٹل پہنچا اور ہم دونوں تازہ دم ہو کے جامعہ بلوچستان جا پہنچے جہاں فیض بھائی نے ہمارا استقبال کیا۔

*جامعہ بلوچستان؛
کوئٹہ کی سریاب روڈ پہ واقع یونیورسٹی آف بلوچستان، صوبے کی سب سے بڑی سرکاری جامعہ ہے جس کا قیام اکتوبر 1970 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ غالباً پاکستان کی ایسی واحد یونیورسٹی جس کے اندر سے ٹرین گزرتی ہے۔
سردیوں کے کچھ دنوں میں یہ جگہ برف کی چادر اوڑھ لیتی ہے۔
ایکڑوں پر پھیلی جامعہ بلوچستان، سائنس و آرٹس کے لگ بھگ چھپن شعبوں میں اعلیٰ تعلیم فراہم کر رہی ہے جن میں طبیعات، کیمسٹری، بیالوجی، حساب، شماریات، تاریخ، سائیکالوجی، اسلامیات، جنرلزم، علوم ارضیات، قانون، بائیوکیمسٹری، مینجمنٹ سائنسز، زبان و ادب، تاریخ، آثار قدیمہ، مطالعہ پاکستان، مطالعہ بلوچستان، معدنیات، بائیو ٹیکنالوجی، فارا سائنسز سمیت دیگرعلوم شامل ہیں۔ جامعہ کے سب کیمپس کوئٹہ سٹی ،مستونگ، خاران، پشین اور قلعہ سیف اللہ میں قائم کیئے گئے ہیں۔

مختلف معاشی بحرانوں میں گھری یہ یونیورسٹی، بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی طلبا تنظیموں کی سیاست کا گڑھ مانی جاتی ہے۔ یہاں کے لان میں ہر تنظیم کا ایک علیحدہ سرکل دیکھا جدھر طلبا اپنے مشوروں، بیٹھکوں اور احتجاج کے لیئے اکٹھے ہوتے ہیں۔
سب سے اہم بات کے بلوچستان بھر کے قبائلی سماج سے تعلق رکھنے والی بچیاں یہاں زیرِ تعلیم ہیں اور جو ایک خوش آئند بات ہے۔ اس یونیورسٹی کا ماحول بالکل بھی گھٹن زدہ نہیں محسوس ہوا۔ افسوس کی بات یہ کے اتنی بڑی جامعہ کے لیئے ایک بک شاپ اور چار کینٹینز جو بالکل ناکافی ہیں۔
جامعہ کا دورہ کر کے ہم نے کل والے بابا جی کو بلوایا اور حنہ جھیل کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply