خیالاتِ پریشاں (نہ نثر اور نہ ہی نظم)-سیّد عبدالوحید فانی

فلک کے دامن میں اک بزم سجی ہے

نور کے ہالے میں لپٹی، یہ محفل ستاروں کی ہے
وہ ستارے جو کبھی عشق کے سمندر میں
خود کو ڈوبو کر بجھا دینا چاہتے تھے
لیکن وہ اب بھی اسی شان و شکوہ کے ساتھ
چمک رہے ہیں
اور یوں نامراد ٹھہرے!

آج وہ سب ستارے محفل سجائے رکھے ہیں
جہاں وہ اپنے اپنے
عشق کی کہانی یارانِ محفل کے ساتھ
بانٹ رہے ہیں
یادوں کی کہکشاں میں
ماضی کے خوابوں میں
بُنا ہوا دکھا رہے ہیں
کوہکن کی طرح
تیشے سے خود اپنے سر پیٹ رہے ہیں
مگر یہاں تو خون کے بجائے شرارے نکل رہے ہیں
یہ تو غم و اندوہ و یاس و نامرادی و ندامت کے بجائے
کوئی خوشی کا موقع دکھائی دے رہا ہے
دیوالی دکھائی دے رہی ہے
وائے ندامت!
نامرادی کے بھی اتنے دلکش رنگ ہوتے ہیں!

انہی شراروں کے بیچ محفل کا آغاز ہوا
ایک ستارے نے کہا کہ
اس نے محبوب کے در و دیوار پر لکیر کھینچی ہے
لکیر؟
مگر کون سی لکیر؟ کیسی لکیر؟
ہاں یاد آیا!
وہی، جو دبلی، پتلی، سیدھی سی ہوتی ہے
کوئی اسے سیاہ پنسل کی نوک سے کھینچتا ہے
تو کوئی قلم کی سیاہی سے
جبکہ اسے زندہ و جاوداں رکھنے والا پتھر سے!
لیکن یہ لکیر کچھ مختلف ہے
نہیں، نہیں، ہر گز نہیں!
یہ خون سے نہیں کھینچی گئی
بھلا ستارے میں بھی کوئی خون دوڑتا ہے؟
خون تو رگوں میں دوڑتا ہے
رگیں زمین پر بسنے والوں میں ہوتی ہیں
اور زمین پر بسنے والے جنم لیتے ہیں
جنم لینے والے تو۔۔۔ (بس چھوڑیے!)
ستارے کہاں جنم لیتے ہیں؟
وہ تو زمین پر بھی نہیں بستے
وہ تو بنتے ہیں، جلتے ہیں اور پھر بجھ جاتے ہیں
یعنی جلنا زندگی اور آرام سے بجھ جانا موت!
یہ لکیر اس نے نگاہوں کی تمازت سے کھینچی
ہر رات وہ محبوب کے در و دیوار کے عین سامنے
چمکتا تھا، دمکتا تھا
مگر اسے محبوب کا التفات حاصل نہ ہوسکا
محبوب تو دروازہ بند کر کے
معلوم نہیں کن خوابوں میں سیر کر رہا تھا
یا شاید وہ خواب میں ستارے ہی کو جھانک رہا تھا
اس سے باتیں کر رہا تھا
لیکن مسلسل دروازہ بند دیکھ کر
صبح ہونے سے پہلے پہلے
وہ ستارہ غائب ہوگیا
اور اگلی رات وہ فلک کے وسط کے بجائے عقب میں چمکنے لگا
محبوب کو بُھلا کر وہ بجھا نہیں
وہ تو آب و تاب کے ساتھ مزید چمکنے لگا

دوسرے ستارے نے گلا تازہ کیا جیسے وہ کوئی سُر اٹھانے والا ہو
اس نے کہا کہ
وہ آسمان کے دریچے سے زمین کو جھانکتا رہتا تھا
زمین نہیں، زمین کے مٹی کو
مٹی کو بھی نہیں، بلکہ مٹی میں کھلے رنگ برنگے پھولوں کو
پھولوں پر تھمے شبنم کے قطروں کو
اس نے اپنی روشنی سے ان پھولوں کے لبوں پر
مسکراہٹ پھیلا دی
اور خود آتشیں جوش کو نگاہوں میں برقرار رکھا
اور جلتا گیا، جلتا ہی گیا!

اے فلک کے فرشتو!
آج، محبت کے علمبردار
آسمان کی جھیلوں میں
عشق کا پُل باندھتے رہے ہیں
یہاں ستارہ ایک پیمان ہے
جو عشق کے نام پر
آسمان کی وسعتوں میں بکھر گیا

یہ بزمِ فلک،
محبت کی دنیا کا راز ہے
جہاں ہر ستارہ،
خوابوں کی شمعیں جلاتا ہے
جہاں ہر نظر،
آسمان کی راہوں میں
محبت کا چراغ لے کر
آگے بڑھتی ہے

محبت میں دیوانے ستارے
اس بزم میں،
ہر لمحہ ایک نئی کہانی سناتے ہیں
یہاں ہر موجود،
آسمان کی گہرائیوں میں
اپنے وجود کا راز تلاش کرتا ہے
یہاں ہر ستارہ
محبت کے ان پیچیدہ سلسلۂ علائم و استعارے میں
اپنے وجود کی معنویت
تلاش کرنے کی سعی میں
سرگرداں ہے

یہاں
فلک کی وسعتوں میں
محبت کی داستانیں
کسی پرانے قلمی نسخے کی مانند
ہر صفحہ پر
ایک نئی تصویر
ایک نیا خیال
رقم کر رہی ہیں
ہر ستارہ
محبت کی اس بزم میں
اپنے وجود کی معنویت
ڈھونڈنے کی سعی میں
محو ہے!

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں!
ہر ستارہ
محبت کی اس بزم میں
اپنے وجود کی معنویت
ڈھونڈنے کی سعی میں
محو ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply