اگرچہ مولانا عبد الرحمن کی ’’مراۃ الشعر‘‘ ۱۹۲۶ء میں منظر عام پر آئی تھی ، مگر اس میں ’’ہماری شاعری (از مسعود حسن رضوی ادیب‘‘) کی مانند نئی شاعری کے خلاف باقاعدہ مقدمہ تیار کرنے کی کوشش نظر نہیں آتی۔ البتہ ایک نکتہ ایسا ہے جو اس کتاب کے مرکزی تھیسس کو ہماری اس بحث سے راست جوڑتا ہے۔
یہ کتاب مصنف کے عربی شعریات سے متعلق خطبات پر مشتمل ہے جو حیدر آباد دکن میں ۱۹۲۵ء میں دیے گئے۔
بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اردو ادب میں وہ نسل نہ صرف سامنے آچکی تھی ،بلکہ وہ ادب بھی تخلیق کررہی تھی جو عربی فارسی کے بجائے مغربی زبانوں اور خصوصاً انگریزی کی طرف دیکھتی تھی۔(مسعود حسن رضوی ادیب کی مخاطب بھی یہی نسل ہے) مولانا عبدالرحمن اسی نسل کے سامنے لیکچر دے رہے تھے، اور ان کے سامنے عربی شعریات پر بحث کی موزرونیت باور کرانے کے لیے ،وہ یہ نکتہ پیش کرتے ہیں کہ اردو شاعری کی اساس عربی شاعری پر ہے۔ پہلے ان کی رائے دیکھیے:
“۔۔۔چوں کہ موجودہ فارسی کی شاعری جس کی عمرکسی طرح بارہ سو برس سے زیادہ نہیں ،عربی شاعری کا دودھ پی کر پلی اور پروان چڑھی ہے، اور اردو کا شعر اگرچہ فارسی اور ہندی سے پیدا ہوالیکن صورت شکل میں ہندی سے زیادہ فارسی پر گیا ہے۔ اور اس رشتہ کی وجہ سے ان تینوں زبانوں کی شاعری کے نمایاں خط وخال بہت مشابہ واقع ہوئے ہیں،اس لیے اگر میں صرف عربی شعر کی تعریف کرنے اور اس کی حقیقت دکھانے پر اکتفا کروں اور فارسی اردو کے شعر کو بربنائے مشابہت اسی پر قیاس کر لوں تو کچھ بے جانہ ہوگا”۔
صاف لفظوں میں اردوشاعری کی جڑ ،اصل ، بنیاد عربی شاعری ہے۔یہ بات عیاں ہے کہ یہاں اردو شاعری کے تہذیبی نسب نامے (Genealogy)کی تشکیل کی کوشش کی گئی ہے،تاکہ جدید تعلیم یافتہ گروہ صرف اسی کو ’اپنی شاعری ‘ تصور نہ کرے جو انگریزی اثرات سے شروع ہوئی اور جس کی ولولہ انگیز حمایت حالی کے مقدمے میں ملتی ہے۔
تاہم یہاں چندباتیں توجہ طلب ہیں، جن کا جواب کتاب میں موجود نہیں۔ عربی تصور شعر، فارسی میں آتے ہوئے کس قدر بدل گیا؟ فارسی کے وسیلے (mediation)سے اردو میں آتے ہوئے کس درجہ تبدیل ہوا؟ جب شاعری کا سیدھا سادہ ترجمہ کرتے ہوئے ، اصل متن کچھ سے کچھ ہوجاتا ہے؛ اصل زبان کا متن ، ہدفی زبان کی رسمیات اور علاماتی نظام کے تابع ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ اصل متن کو مترجمہ متن میں سے اس کی اصلی شکل میں بحال کرنا محال ہوجاتا ہے؛ جب ایک زبان کا لفظ دوسری زبان میں آنے کے بعد اس دوسری زبان کا لفظ بن جاتاہے، بیگُم ، بیگَم ، سٹیشن ،اسٹیشن، میّت، مَیّت بن جاتا ہے، عربی کا مذکر کتاب ، اردو میں مئونث بن جاتا ہے توایک زبان کے شعری تصورات ،دوسری زبان کی متخیلہ میں سے گزرنے کے بعد بہت کچھ بدل جاتے ہیں،اس لیے بھی کہ متخیلہ ایک ایسی قوت ہے جوہے ہی مواد کو پگھلانے والی،اسے بے شکل کرکے نئی شکل میں پیش کرنے والی۔
چناں چہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک زبان کی شاعری کی شعریات ، دوسری زبان کی شعری روایت میں منتقل ہونے کے بعد اپنی بنیادی ،قدیمی، اصلی حالت کو برقرار رکھ سکے؟
سوال یہ کہ کیا یہ باتیں اس زمانے کے علما کی نظر سے اوجھل تھیں؟ایک حد تک۔ مثلاً مولانا عبدالرحمن کہتے ہیں کہ معنی آفرینی و خیال بندی فارسی شاعری کی خصوصیات ہیں جو عربی میں موجود نہیں،مگر فارسی کے اثر سے اردو میں آئی ہیں،لیکن مولانا یہ واضح نہیں کرتے کہ فارسی شاعری ،عربی شاعری کا دودھ پینے کے باوجود ایک نئی شعریات جنم دینے میں کیوں کامیاب ہوئی؟
اس سوال کا تعلق ’شعریات‘ کی تشکیل کے تخلیقی اسباب اور تاریخ دونوں سے ہے۔ مولانا کا سروکار صرف تاریخ سے معلوم ہوتا ہے۔ وہ اس بات پر زور دیتے محسوس ہوتے ہیں کہ اردو شاعری کی تاریخ کلاسیکی عربی سے شروع ہوتی ہے۔وہ کلاسیکی سنسکرت کو اس میں شامل نہیں کرتے (جس کی اوّل نشان دہی امداد امام اثر نے کاشف الحقائق میں کی اور آزادی کے بعد ہندوستانی مسلم نقادوں نے )۔
در اصل مولانااردو زبان اورکلاسیکی شاعری کے مسلم تشخص کو منزہ رکھنے کے حق میں ہیں۔اسی بنا پر وہ صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ عربی ،فارسی اور اردو کی قدیم شاعری کو مغربی پوئٹری کے پیمانوں سے نہیں ناپا جاسکتا۔ ‘‘جب تک مشرق و مغرب ایک نہ ہوجائیں ،ان کی اصطلاحات اور مصداق اصطلاحات کو بھی ایک ترازو میں نہیں تولا جاسکتا‘‘۔
اصطلاحات کے ثقافتی الاصل ہونے پر بعد میں حسن عسکری نے خاص طور پر زور دیا،جو ہماری نظر میں خود ’جدید رویہ ‘ ہے۔ اس پر کچھ بحث آگے کی جائے گی ۔یہاں ہم صرف دوباتیں عرض کرنا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ تنقید مشرق کی ہو یا مغرب کی ،وہ صرف پیمانے یا معیارات مہیا نہیں کرتی، تفہیم ، تعبیر اور تجزیے کے ’اصول ‘بھی پیش کرتی ہے۔ ’پیمانہ ‘ صرف جمالیاتی مرتبے اور درجے کا علم دے سکتا ہے جس پر ثقافت کا اثر ہوتا ہے؛ یعنی کسی علم ، کسی فن اور ان سے وابستہ لوگوں کے مراتب ثقافتی پیمانے سے طے کیے جاسکتے ہیں۔ جب کہ تنقید کے اصول ادب پارے کی نفسیاتی ،عمرانی ،تاریخی گرہیں کھولنے میں مدد دیتے ہیں۔یہاں تنقید کے اصول اور نظریے میں فرق نظر میں رہنا چاہیے ۔ دوسری یہ بات کہ مولانا یہاں مشرق کے جس تصور کو سامنے رکھتے ہیں ،وہ اسلامی مشرق ہے،اس میں دیگر مشرقی تہذیبیں شامل تصور نہیں کی گئیں۔مولانا حالی ،سرسید، نذیر احمد قوم کا وحدانی تصور پیش کررہے تھے ،اورمولانا عبدالرحمٰن اور دوسرے ’مشرقی نقادتہذیب کا ’وحدانی تصور‘ تشکیل دے رہے تھے۔
مسلک جدید یعنی مغربی اثرات کے ضمن میں ایک اور بات بھی مولانا نے حیرت انگیز کہی ہے کہ ’’اگر آئندہ زمانہ شعر میں وزن و قافیہ کا التزام چھوڑ دے اور عام طور پر ناموزوں ،غیر مقفیٰ،رنگین خیالی نثر پربھی شعر کا اطلاق ہونے لگے تو میرے نزدیک شعر کی اس تعریف میںبھی کوئی حرج نہ ہوگا۱۲‘‘۔یہی بات حالی نے مقدمے میں کہی اور آگے چل کر نثری نظم کی صورت سچ ثابت ہوئی۔
اصل یہ ہے کہ ایک طرف نو آبادیاتی عہد کے سب لکھنے والوں کے یہاں دو جذبی (ambivalence)میلان ملتا ہے،اور اس میں قدیم و جدید مسلک کے علمبرداروں میں فرق نہیں؛دوسری طرف قدیم شاعری کی حامی جماعت کو ایک ایسے لنگر کی تلاش تھی جو مستحکم و محفوظ ہونے کے ساتھ ساتھ،ان کا اپناہو، اصلی ہو، غیر مشتبہ ہواور جسے نو آبادیاتی ثقافتی طوفانی حالت کے مقابل اپنے پائوں مضبوطی سے جمانے کے لیے استعمال میں لایا جاسکے۔
مسلمانوں کو عربی(اور فارسی) اور ہندوئوں کو سنسکرت یہ لنگر فراہم کرتی تھی۔
عربی (و فارسی ) اور سنسکرت کا قریب قریب وہی تصور پیش نظر رکھا گیا جو اہل یورپ یونانی و لاطینی کا پیش نظر رکھتے تھے اور فخر کرتے تھے۔یونانی ولاطینی زبانوں کو اہل یورپ اپنی کلاسیکی، آبائی تہذیبی زبانیں قراردیتے تھے۔عہد وسطیٰ کے ہندوستانی مسلمان عربی کو مذہب، فارسی کو علم ،شاعری اور سرکار دربار کی زبان سمجھتے تھے؛نیز فارسی اشراف طبقات کی زبان بھی تھی۔
اسی طرح ہندو سنسکرت کو اپنے مذہب اور علم کی زبان خیال کرتے تھے۔ قدیم زبانوں کے لیے کلاسیکی کی شناخت ایک نئی شناخت تھی جو ورنیکلر زبانوں کے مقابلے میں ظاہر ہوتی تھی اور جن میں جدید رجحانات ظاہر ہورہے تھے۔واضح رہے کہ یورپ میں یونانی ولاطینی زبانوں کو جب کلاسیکی زبانیں کہا جاتا تھا تو اپنی مقامی زبانوں یعنی انگریزی ،جرمن، فرنچ، اطالوی کو ورنیکلر زبانیں کہا جاتا تھا۔
ہندوستان میں کلاسیکی وورنیکلر زبانوں کا فرق انگریزوں کی وساطت سے آیا ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اردو میں پہلے قدیم وجدید اور بعد میں کلاسیکی وجدید کے نام سے جو کش مکش شروع ہوئی، اس میں قدیم وکلاسیکی نقطہ ء نظر کی حامل جماعت عربی وفارسی کو اپنی اساس قرار دیتی ہے ، ماضی کی طرف مسلسل دیکھتی ہے،ماضی کا تصور ایک محفوظ لنگر کے طور پر کرتی ہے ،جب کہ جدید نقطہ ء نظر کے علمبردار ورنیکلر زبان ، انگریزی اور زمانہ ء حال سے اپنا تعلق قائم کرتے ہیں۔ اوّل الذکر زمانہ ء حال کے سلسلے میں ،جب کہ ثانی الذکر ماضی کے ضمن میں متذبذب تھے۔
(اپنی کتاب “ جدیدیت اور نو آبادیات “ مطبوعہ اوکسفرڈ، ۲۰۲۱ سے اقتباس )
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں