کرسچناں والا کم
ہمارے دفتر کا آفس بوائے رفاقت رفیق جو تقریباً10سال سے ہمارے ساتھ کام کررہا ہے۔ ٗبیک وقت ہمارے دفتر کا آفس بوائے،آؤٹ ڈور کلرک، اکاؤنٹنٹ، سرویئر اور جزوقتی اسٹیٹ ایجنٹ بھی ہے۔لہٰذا اتنے سارے کام کرنے کے بعد دفتر کی صفائی ستھرائی اورجھاڑپونچھ میں اکثر کوتاہی کرتاہے۔لہٰذا میرے اور اس کے درمیان اکثر میں میں ہوتی رہتی ہے ۔ میں میں اس لیے کہ تو تو میں میں ٗمیں دونوں فریقوں کا بولنا شرط ہے۔جبکہ اس معاملے میں صرف میں بولتا ہوں اور رفاقت صاحب سنتے ہیں نہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آتے ہیں اور نہ میں۔
10سال میں 100وارننگ دینے کے باوجود نہ میں اسے نوکری سے نکال سکا ہوں، اور نہ وہ اپنی روش تبدیل کرسکا ہے۔ اس کا حل رفاقت نے یہ نکالا ہے ،کہ ہر دو چار مہینے بعد جب میری طرف سے دفتر کی گندگی کی شکایت ذرا زور پکڑ جاتی ہے ،تو رفاقت کوئی نہ کوئی صفائی والا بندہ یہ کہہ کر رکھ لیتا ہے، کہ ٹھیک ہے، اس کو پیسے میں اپنی تنخواہ میں سے دے دیا کروں گا۔یہ صبح آکر صفائی کرلیا کرے گا۔یہ علیحدہ بات ہے ،کہ بعد میں وہ اس کے پیسے بھی مجھ سے ہی دلواتا ہے۔یہ مزے کی بات ہے کہ یہ صفائی والے عموماً مہینے دو مہینے بعد چھوڑ جاتے ہیں کیونکہ رفاقت صاحب رات کو چاہے بارہ بجے تک دفتر کے کاموں میں مصروف رہے، لیکن صبح انھوں نے ساڑھے دس گیارہ سے پہلے دفتر میں نہیں آنا ہوتا۔لہٰذا اکثر اوقات صفائی والوں سے ان کے اوقات میچ نہیں کرتے۔لہٰذا ہر چار ٗچھ مہینے کے بعد یہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔آج کل رفاقت نے پھر ایک نیا لڑکا رکھا ہوا ہے، مجھے دو تین دفعہ مسلسل صبح جلدی دفتر پہنچنے کا اتفاق ہوا تو میں نے اس اٹھارہ ٗانیس سال کے نوجوان بچے کو کنٹونمنٹ بورڈ کی صفائی کے عملے کی نارنجی رنگ کی وردی میں ملبوس پایا۔ یہ نوجوان خاصا سیاہ اور مکمل دھرتی واسیوں جیسے نین نقش والا اور پھرتیلا ساہے۔ایک دن میں نے اس سے پوچھا بیٹا آپ کا نام کیا ہے ،تو یہ لڑکا بولا صاحب جی، وقار حسین۔میں نے پوچھا، مسلمان ہو؟ کہنے لگا جی صاحب ٗمیں نے کہا آپ لوگوں کی ذات کیا ہے کہنے لگا صاحب’’اسی ہانس آہ‘‘۔(ہم ہانس ہیں)میں نے پوچھا کہاں کے رہنے والے ہو کہنے لگا اوکاڑہ کے ۔مجھے اس کا لہجہ اور رنگ ڈھنگ سانسیوں یا گگڑوں جیسا لگا۔ میں نے اُس سے پوچھا تمہارے گھر والے بھی ادھر رہتے ہیں یا اکیلے ہی مزدوری کرنے آئے ہوئے ہو۔کہنے لگا نہیں سر میرے گھر والے بھی ساتھ رہتے ہیں۔میرا ماما تو میرے ساتھ ہی کام کرتا ہے۔میں نے کہا کل میں جلدی آؤں گا۔مجھے اپنے ماموں سے ملوانا ۔
دوسرے دن وہ اپنے ماموں کو لے کر آگیا۔ ماموں بھی اس کی طرح کالے رنگ کا لمبا چوڑا مقامی (بھیل یا دراوڑ) نین نقش والا ڈھلتی عمر کاشخص تھا۔شب و روز کی محنت و مشقت اس کے چہرے سے ٹپکتی تھی۔آتے ہی سلام دعا کے بعد کہنے لگا صاحب مجھے وقار نے بتایا تھا کہ صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔میں نے کہا ایسے ہی بس میں نے سوچا آپ سے سلام و دعا کرلوں۔میں نے پوچھا آپ کا نام کیا ہے؟کہنے لگا سر محمد یوسف ہانس۔میں نے پھر وہی سوال دہرایا جو پہلے اس کے بھانجے وقار ُحسین سے پوچھا تھا۔میں نے جھجکتے جھجکتے پوچھا کب سے مسلمان ہوئے۔ کہنے لگا صاحب ہم شروع سے ہی مسلمان ہیں۔جبکہ اس کی آنکھیں اور اس کا لہجہ اس کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔صاف پتہ لگ رہا تھا کہ بیچارہ اسی بدنصیب قبیلے کا فرد ہے جو اسلام قبول کرنے کے باوجو دبھی مصلی کہلاتے ہیں اور وہاں گاؤں دیہات میں حقارت سے ُمصلّی اور یہاں شہر میں روزگار کی تلاش میں آنے کے بعد بھنگی کہلاتے ہیں۔میں نے پوچھا یہ کام کب سے کررہے ہو؟اور وہاں اوکاڑہ میں بھی یہی کام کرتے تھے یا کچھ اور اس کا اگلا جواب میرے معاشرے کے مائنڈ سیٹ کا عکس تھا۔کہنے لگا صاحب نہیں ہم تو جٹ زمیندار ہیں بس یہاں مجبوراً کر سچنوں والا کام کررہے ہیں۔یعنی اپنی ساری محرومیوں ٗپستیوں اور ذلتوں کے باوجود وہ اس بات پر پکا تھا کہ یہ صفائی کا کام ہے تو صرف مسیحیوں کے لیے لیکن مجبوراً کرنا مجھے پڑرہا ہے۔اور دھرتی کا یہ ٹھکرایا ہوا بیٹا بھی دھرتی سے جڑے ہوئے پیشے ہی میں پناہ ڈھونڈ رہا تھاکہ ’’ہاں تے اسی جٹ زمیندار بس ایتھے کرسچناں والا کم کرنے آں‘‘۔(ہیں تو ہم جاٹ زمیندار بس یہاں مسیحیوں والا کام کررہے ہیں)میرے ذہن میں یہ تھا کہ وہ مان جائے گا کہ ہم سانسی ہیں اور ابھی کچھ سال پہلے مسلمان ہوئے ہیں اور شاید مجھے دھرتی واسیوں کی ذلتوں کے سفر کی کہانی کا کوئی سرا مل جائے لیکن وہ بضد تھا کہ نہیں ہم شروع سے مسلمان اور جٹ زمیندار ہیں۔بس یہاں صفائی کاکام کرنے پر مجبور ہیں۔
اس بیچارے کو تو شاید یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس طرح کے پیشے کبھی بھی کوئی خوشی سے قبول نہیں کرتا یہ تو غاصب اور ظالم حکمران طبقہ زبردستی مجبوروں کے نصیبوں میں لکھ دیتا ہے اور اب تو جنوبی پنجاب سے مخدوموں، پیروں، وڈیروں اور نوابوں کے ستائے ہوئے مسلمان بھائی بھی اپنے آبائی دیسوں کو چھوڑ کر کراچی اور اس طرح کے دیگر بڑے شہروں میں آنے والے عام مٹی کے بیٹے بھی اس پیشے سے منسلک ہو گئے ہیں اور جنگ کے ستائے ہوئے افغانی بھی اس پیشے سے منسلک ہیں۔ لیکن یہ بات حیران کن ہے کہ اس پیشے سے نسبت کی چھاپ مسیحی دھرتی واسیوں پر ہی ہے۔ حالانکہ مسیحی بھی کوئی شوق اور بڑے ذوق سے اس پیشے کو نہیں اپناتے بلکہ ان دھرتی کے بیٹوں کو یہ مجبوریاں بھی وراثت میں تاریخ کے جبر کے طفیل ہی ملی ہیں۔جس طرح دلی میں1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمان روسا،نوابین، حکمران حتیٰ کہ شاہی گھرانے کے چشم و چراغ ریڑھے کھینچنے تک مجبور ہوگئے کیونکہ غاصب جب جس سے اس کی زمین چھینتا ہے تو سب سے زیادہ جبر اور ظلم بھی اِسی کے ساتھ کرتا ہے تاکہ اس کی عزتِ نفس مار دی جائے اور اس کو ذہنی طور پر مفلوج کردیاجائے تاکہ یہ روٹی کے ایک ٹکڑے کے لیے کوئی بھی کام کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انگریز نے دلی کا تخت مسلمانوں سے چھینا تھا لہٰذا دلی کے درودیوار نے وہاں مسلمان حکمرانوں کے بچوں کو ذلیل و رسوا ہوتے دیکھا۔اسی طرح آریائیوں نے جب مقامی لوگوں کو دیس نکالا دیا تو پھر جنگِ آزادی ہارنے کے بعد یہ فاتحوں کے ہاتھوں اس طرح مجبور اور لاچار ہوئے کہ آج یہ آپس میں بھی ایک دوسرے کو نیچ پیشہ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔
تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں