پاکستان دل میں بستا ہے/ندیم اکرم جسپال

ہم پاکستان سے نکالے گئے ہیں،یہ کہاں ہم میں سے نکلتا ہے؟
2012 کی ایک صبح مشرقی لندن کی ایک فوڈ فیکٹری میں پہنچا تو جاتے ہی اُس موٹے آئرش شیف پال نے مجھے گھوری ڈالی۔دیکھا ہے تیرے ملک میں کیا ہوا ہے؟بڑے نفرت انگیز لہجے میں اس نے مجھے کہا۔
کیا ہوا ہے؟
تم دہشت گرد پالتے ہو،تمہارے گھر سے د ہشت گر د ملا ہے جِسے امریکہ نے قتل کیا ہے۔
وہ اُسامہ لادن۔۔۔
تب تک یہ خبر مجھ تک نہیں پہنچی تھی،پہنچ بھی جاتی تو میں اس گورے کو کیا جواب دے سکتا تھا؟ذلت آمیز خاموشی۔
اس روز ساری شفٹ کے دوران ہر بندہ مجھے غور کے دیکھتا رہا،تحقیر آمیز نظروں سے چھپنے کی بھی کوئی ترکیب نظر نہیں آرہی تھی۔ستم یہ تھا کہ اس پوری کمپنی میں اکیلا میں پاکستانی تھا۔ اور یہ نظریں، طعنے اور نفرت اکیلے برداشت کرنا تھی۔وہ سارا دن ایسے ہی گُزرا،وہ لوگ جو پچھلے چھ ماہ میں میرے سیدھے نام سےبھی واقف نہ تھے وہ سارا دن چیزا لیتے رہے۔ہر بات گھوم پھر کے لادن پہ جاتی رہی،ہر بات پہ میری شناخت میری تذلیل کرواتی رہی۔

سارا دن کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے کہا ہو کہ پاکستان سے دہشت گرد ملا ہے، یا تمہاری ریاست نے اسامہ کی پشت پناہی کی ہے،بلکہ ہر ایک کے  الفاظ کم و بیش یہی ہوتے کہ “تم د  ہشت گرد پالتے ہو،تمہارے گھر سے لادن ملا ہے”۔اُن سب کے لیے پاکستان کوئی ریاست نہیں،میں ہی پاکستان تھا اور میں ہی ساری تحقیر اور نفرت کا حقدار تھا۔

پھر کئی سال بیتے تو ایک روز لندن شہر کی جگہ شہر ریاض تھا۔پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ تھا۔پاکستان پہلی دفعہ بھارت سے ورلڈ کپ میں میچ جیتا اور وہ بھی دس وکٹوں سے۔اب کی بار پاؤں زمین پہ نہیں آ رہے تھے۔گاڑی نکالی،پانچ لونڈے گاڑی میں ہو لیے،شیشے کھول دئیے،پنجابی ڈھول فُل آواز میں چالو کردیا اور شہر کے اس طرف منہ کر لیا جہاں اپنی دیسی کمیونٹی بستی تھی۔سعودی عرب میں شیشے کھول کے اتنی آواز میں میوزک کی اجازت نہیں،مگر اس روز ہم کہاں ڈرنے والے تھے۔ہر سگنل پہ ہر آتے جاتے سے پوچھ رہے تھے میچ دیکھا ہے؟چس آئی؟آتے جاتے گندمی رنگ والوں کو چھیڑ رہے تھے،کیسا دیا؟موقع موقع۔۔

ڈھول بند ہوتا تو پھر رپیٹ پہ چالو ہوجاتا۔ہم آدھی رات تک بلاوجہ ریاض کی سڑکیں ناپتے رہے۔

آج پھر وہی لندن ہے،وہی میں ہوں اور کہیں سے یہ خدا کا بندہ ارشد ندیم میڈل جیت گیا ہے۔میں کسی کام سے باہر تھا،فیسبک کھولی تو ہر طرف ہریالی تھی،ایک ہی خبر کا چرچہ ہے کہ سونے جیسے آدمی نے سونے کا تمغہ جیتا ہے۔آج پھر میرا دل چاہ رہا ہے کہ ہر آتے جاتے کو بتاؤں کہ میں پاکستانی ہوں۔

ہیلو!میں پاکستانی ہوں،وہ ارشد ندیم کے ملک سے۔ہاں ہاں وہی،جو گولڈ میڈل جیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

گھر بیٹھے تمہیں کیا خبر،جب سبز جھنڈا بلند ہوتا تو کتنوں کی آنکھیں جذبات میں بھیگ جاتی ہیں،کتنوں کے سر فخر سے اونچے ہوجاتے ہیں اور کتنوں کے سینے چوڑے ہو جاتے ہیں۔گھر سے نکالے گئے میرے ورگے ایک کروڑ کو یہ جیت مبارک ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply