• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • تیری اختر شماریاں نہ گئیں(ڈاکٹر اختر شمار کی یاد میں)….حامد یزدانی

تیری اختر شماریاں نہ گئیں(ڈاکٹر اختر شمار کی یاد میں)….حامد یزدانی

اگست کا مہینہ جہاں پاکستان کے قیام کی خوشیاں یاد دلاتا ہے وہاں ہر گزرتے برس کے ساتھ کسی نہ کسی نئے رنج کے اضافے کا باعث بھی بنتا ہے۔ ادبی دنیا ہی پر نگاہ کریں تو کیا کیا ہستیاں اس ماہ میں ہم سے بچھڑ گئیں۔ قراۃ العین حیدر، علی سردار جعفری، رئیس فروغ، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، احمد فراز، شہزاد احمد اور اردو ادب کے اور بھی کتنے ہی محسن دنیا سے رخصت ہوئے۔ میں اپنے قریبی تخلیق کار احباب کی قطار پر  پلٹ کر دیکھوں تو ڈاکٹر جاوید انور، آغا نوید، وسیم گوہر، غضنفر علی ندیم، ناہید شاہد، ارشاد حسین، عمران نقوی اور کئی دوسرے مہربان چہرے دکھائی نہیں دیتے۔ اور دیرینہ دوست، باکمال شاعر و ادیب اور استاد ڈاکٹر اختر شمار کو تو ابھی دو  برس ہوئے ہیں اس دنیا کا عارضی ٹھکانہ چھوڑ کر اپنی مستقل آرام گاہ کو سدھارے۔ اگست ہی کا مہینہ تھا۔ اور ابھی گذشتہ دنوں حلقہ اربابِ ذوق لاہور نے ان کی یاد میں خصوصی تقریب بھی منعقد کی۔
دو برس قبل جب اچانک ان کے انتقال کی خبر پہنچی تو دل بہت دکھی ہوا۔ ساتھ ہی تخلیق کار دوست راجا نیر صاحب کا پیغام بھی موصول ہوا کہ وہ اختر شمار بھائی کے انتقال پر تعزیت نامے جمع کررہے ہیں اور یہ کہ ایک دوست کے لیے بھی بھی چند سطور لکھنا ہیں۔ میں  نے فوری طور پر جو مختصر تحریر انھیں روانہ کی وہی آج آپ سے شئیر کررہا ہوں ، اس دعا کے ساتھ کہ ربِ کریم ہمارے دوست کے درجات بلند کرے۔ آمین۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسّی کی دہائی کے اوائل کا ذکر ہے۔شام ڈھلے جب پاک ٹی ہاؤس بند ہوجاتا تو ہم سب دوست پرانی انارکلی کا رُخ کرتے۔ وہاں کے چائے خانوں کو آباد کرنے کے بعد مال گردی کا آغاز ہوتا۔دن بِیت جاتا تھا، رات ختم ہوجاتی تھی مگر وقت تھا کہ ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ رت جگے مقدر جو ٹھہرے۔ایسی ہی ایک ’’چہل قدمی‘‘ ملاقات میں رت جگے اور شاعر اور اختر شماری کے تعلق پر بات ہونے لگی۔ عباس تابش کہنے لگا: ’’ یار، تم لوگوں کی باتیں سُن کر مجھے اپنا ملتان والا دوست اختر شمار یاد آگیا۔۔۔’تیری اختر شماریاں نہ گئیں‘۔
یہ اختر شمار بھائی سے میرا غائبانہ تعارف تھا اور پھر وہ ہم مصرعہ کے ساتھ ہماری ہر شبینہ محفل میں شامل ہونے لگے۔ چند ماہ گزرے ہوں گے کہ اختر شمار صاحب کی لاہور آمد کی اطلاع ملی۔ وہ اپنے ساتھ اپنی اردو ہائیکوز کا ایک تازہ مجموعہ لے کر آئے تھے جس کی تعارفی تقریب حلقہ اربابِ غالب کے تحت پرنس ریستوران میں رکھی گئی۔ جناب خالد احمد کی صدارت میں منعقدہ یہ تقریب بہت پھرپور اور کامیاب رہی۔ اس کی نظامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ ایک مضمون پڑھنے کی ذمہ داری بھی مجھے سونپی گئی تھی۔ مضمون صاحب مجموعہ کو بھی پسند آیا اور صدرِ اجلاس کو بھی۔ یہ مضمون جہاں ادبی مضمون نگاری میں میرا نقطہ آغاز ثابت ہوا بلکہ اختر شمار بھائی سے دوستی کے سفر کا پہلا پڑاؤبھی قرار پایا۔
یوں تو بھائی اختر شمار سے تعلقِ خاطر کی کئی وجوہات اور کئی پہلو تھے مگر شاعری میں ایک استعارہ بھی ہماری مشترکہ محبت کی صورت کِھلا کرتا ہے اور وہ استعارہ ہے ’’خواب‘‘۔ اس بات کی طرف مسکراتے ہوئے انھوں نے اس وقت اشارہ بھی کیا تھا جب میرا پہلا شعری مجموعہ ’’ابھی اک خواب رہتا ہے ‘‘ شائع ہوا تھا۔
دیکھیے، خواب پر ان کا یہ شعر کیسا خوب صورت آہنگ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں:
خواب میں ہاتھ ملا کر وہ چلا جاتا ہے
اور پھر ایک دھنک ہاتھ میں رہ جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی دوستی کا سفر ان کی آخری سانس تک اسی خلوص اور بے لوث جذبے سے جاری و ساری رہا جس جذبے سے وہ شروع ہوا تھا۔ اس تقریب کے بعد وہ ملتان واپس چلے گئے مگر پھر مستقل طور پر یہیں آبسے۔لاہور کا جادو اِسی طرح سر چڑھ کر بولتا ہے اور اس کے سحر سے نکلنا ممکن نہیں۔ ملتان سے ان کے شاعر دوست اطہر ناسک بھی ان کے ساتھ آئے تھے۔ تقریبات میں انہیں اکٹھے آتے ہوئے دیکھا جاتا۔ پھر انہوں  نے ادبی اخبار ’’بجنگ آمد‘‘ نکالا۔مشاعرے پڑھے۔حلقہ کے انتخابات میں فعال انداز میں حصہ لیا۔ اسی دوران پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کرلی اور ڈاکٹر اختر شمار ہوگئے۔ مقامی طور پر پڑھانے کے بعد وہ اردو کی خدمت کے لیے کئی برس مصر میں بھی گزار آئے اور متعدد قابل قدر شعری اور نثری تصانیف سے اردو ادب کے دامن کو مالا مال کیا۔
میسنجر یا واٹس ایپ پر اپنی تخلیقات اور انٹرویوز باقاعدگی سے شئر کرتے تھے جن سے لطف اندوز ہوکر میں انہیں ہربار چند تحسینی جملے لکھتا اور وہ کمال محبت سے جوابِ شکریہ تحریر کرتے اور یہ سلسلہ یونہی چل رہا تھا۔ اطہر ناسک بیمار ہوئے تو اختر شمار بھائی نے مجھے ان کا فون نمبر بھیجا کہ میں ان سے بات کروں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو۔ ان کی دوستی اٹوٹ اور غیر مشروط تھی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے گزشتہ برس یہی یعنی اگست کا مہینہ تھا۔ میں نے اختر شمار بھائی کو وطن کے اپنی ایک نظم بھیجی جس پر انہوں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا اور لکھا کہ اگرچہ ان دنوں وہ کسی اخبار کے ادبی صفحے کا انچارج نہیں تاہم  اس نظم کو شائع ضرور کروائیں گے۔ انہوں نے وہ نظم خود ہی ایک اخبار کے خصوصی ایڈیشن میں بھیجی اور اشاعت کے بعد  مجھے اس اخبار کا لنک بھی بھیجا۔ ایسے محبت کرنے والے دوست کو کون فراموش کرسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے تعلق میں کبھی اس حقیقت کو دخل انداز نہیں ہونے دیا کہ وہ پاکستان میں ہیں اور میں دنیا کے آخری اور برفیلے کونے میں آباد ہوں اور یہ کہ ہمارے درمیان ایک طویل مکانی فاصلہ ہے۔ ان کے احساس کی گرم جوشی نے ہماری دوستی کے خلوص آگیں الاؤ کو کبھی سرد نہیں پڑنے دیا۔ اور دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ بات ان کے سبھی دوست کہتے ہیں اور کہیں گے۔کیونکہ ان کے پاس محبت کا خزانہ تھا ہی بے پایاں جو زندگی بھر ختم نہ ہوا۔وہ پُر شور آندھیوں کے مقابل بھی دھیمے دھیمے انداز میں بولتے تھے اور اپنی زبان کی تاثیر اور موقف کی سچائی کے بل بوتے پر سرخرو ٹھہرتے تھے۔
ڈاکٹر اختر شمار صاحب کے یوں اچانک چلے جانے سے ہم یقیناً ایک مخلص دوست اور زبردست لکھاری سے محروم ہوگئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا:
لحد میں سوتے ہی ہر اک مسافت ختم ہوتی ہے
تھکن کا سلسلہ آخر کو اس بستر تک آتا ہے
جب کہ والد صاحب یزدانی جالندھری اس مرحلے کے بارے میں فرماتے ہیں:
سانس کے قافلے کا رُک جانا
ابتدا اک نئے سفر کی ہےبھائی اختر شمار تو اپنے نئے سفر پر روانہ ہوگئے اور ہمارے سامنے ان کی یادوں کی کرنوں سے چمکتا ہوا وہی راستہ کُھلا پڑا ہے جس پر رت جگے مسافرکے کان میں سرگوشیاں کرتے رہتے ہیں:
تیری اختر شماریاں نہ گئیں۔

حُسنِ اتفاق کہ ’’اخترشماریاں” ہی ان کے کلیات کا نام بھی ٹھہرا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تیری اختر شماریاں نہ گئیں(ڈاکٹر اختر شمار کی یاد میں)….حامد یزدانی

Leave a Reply