بنگلہ دیش, سیاسی بحران یا شناخت کا بحران/عبدالسلام

میرے نزدیک بنیادی مسئلہ بنگلہ اور مسلم شناخت کے درمیان اہم آہنگی پیدا کرنے کا رہا ہے۔ بنگلہ ایک قوم پرست اجتماعیت ہے۔ یعنی بنگلہ قوم اپنی بنگلہ شناخت کو لے کر کافی حساس ہے۔ یہ حساسیت خاص طور پر اس وقت زیادہ بڑھ جاتی ہے جب بنگلہ شناخت کو طعنے اور حقارت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ میرے نزدیک بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی کی اصل وجہ یہی بنی کہ مغربی پاکستان کی قیادت اس حساسیت کو سمجھنے میں پوری طرح ناکام رہی ہے۔ بلکہ آج بھی عام پاکستانیوں میں بنگال سے متعلق حقارت کا جذبہ پایا جاتا ہے اور کبھی کبھی اس کا اظہار بھی ہوتا ہے۔
لیکن بات اتنی سادہ بھی نہیں ہے۔ بنگال کے مسلمان اپنی اسلامی شناخت بھی رکھتے ہیں اور ایسا بالکل نہیں ہے کہ یہ اپنی اسلامی شناخت کو کسی بھی طرح قربان کرنے یا نظر انداز کرنے کے لئے تیار ہیں۔ کم از کم عام بنگلہ مسلمان کا ایسا رجحان قطعی نہیں ہے۔
حسینہ واجد نے بنگلہ شناخت کو مرکزی حیثیت دے کر ایک طرح سے مطلق العنانی قائم کی، فوج اور عدلیہ میں ایسے لوگوں کو اوپر آنے دیا جو ان کے ہم خیال تھے۔ اس کے نتیجے میں اقتدار کے ستونوں میں زبردست ہم آہنگی پیدا ہوگئی۔ اس کے دو نتائج نکلے، اس ہم آہنگی کی وجہ سے طاقتور حلقوں میں اختلافات کم ہوئے اور معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوئی۔ بنگلہ دیش نے اعلی تعلیم اور اپنی اقتصادیات میں زبردست ترقی کی۔ دوسری طرف جو لوگ بنگلہ قومیت کے ساتھ اپنی اسلامی شناخت کے بارے میں بھی حساس تھے انہیں دیوار سے لگادیا گیا، جماعت اسلامی کے وہ لوگ جنہوں نے اکہتر میں علیحدگی کی جنگ میں پاکستان کو متحد رکھنے کی کوشش کی تھی ان پر الزامات لگا کر انہیں ناکافی ثبوت کے باجود پھانسیاں دی گئیں۔ اس پورے عمل میں عدلیہ اور فوج نے حسینی واجد کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس مطلق العنانی کے دور میں عام بنگلہ دیشیوں کے بچے تعلیم یافتہ ہو کر جاب مارکٹ میں آئے تو انہیں نے بنگلہ دیش کا الگ ہی رنگ دیکھا۔ جماعت اسلام پر پابندی تھی، خالدہ ضیاء کی پارٹی بی این پی کی قیادت جیل میں تھی اور ان کے کارکنوں پر لاکھوں کے حساب سے مقدمے ڈالے ہوئے تھے۔ اور الیکشن کا نام پر بس ایک رسم بنی ہوئی تھی جس میں عوام کے لئے کوئی حقیقی چوائس نہیں تھی۔ خیال رہے کہ یہ بنگلہ دیش کی نئی تعلیم یافتہ نسل وہی تھی جو ان والدین کی اولاد تھی جو اپنی اسلامی شناخت کو لے کر بھی حساس تھی۔
بنگلہ قومیت کی ایک خصوصیت پاکستان سے دشمنی اور انڈیا سے ہم آہنگی بھی رہی ہے۔ حسینہ واجد نے مودی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی قائم کر کے بنگلہ دیش کو معاشی طور پر کافی فوائد پہنچائے۔ لیکن ایک عام بنگلہ دیشی پھر چاہے وہ دینی ذہن رکھتا ہو یا بنگلہ قومیت پرستی سے متاثر ہو وہ بھارت کو سخت ناپسند کرتا ہے۔ بی جے پی حکومت کی ایک اہم ترین خصوصیت یہ رہی ہے کہ وہ پورے ہندوستان میں یہ خوف پھیلاتی رہی ہے کہ بنگلہ دیش کے مسلمان سرحد پار کر کے ہندوستان میں آ کر مسلمانوں کی آبادی بڑھاتے ہیں۔ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بنگلہ دیشیوں کو گھس پیٹھیے اور دیمک قرار دیا تھا جو بھارت کے وسائل کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ تعصب پھیلا کر انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے کیا گیا تھا لیکن یہ ممکن نہیں تھا کہ بنگلہ دیش کے عوام اس سے متاثر نہ ہوتے ہوں۔
دوسری طرف مودی حکوت بنگلہ دیش کے ساتھ اچھے تعلقات کی بھی خواہاں رہی ہے۔ یہ تضاد بنگلہ دیش کے عوام کو صاف طور پر نظر آرہا تھا۔ اور حسنہ واجد اس معاملے میں مودی سرکار سے کسی قسم کا احتجاج درج کرانے میں ناکام رہی۔ اس لئے عوامی سطح پر یہ تاثر بھی موجود تھا کہ پاکستان کی دشمنی میں ہندوستان کے سامنے جھکا جا رہا ہے۔
سرکاری نوکریوں میں کوٹہ بھی یہی بنگلہ قومیت پرستی سے منسلک مسئلہ ہے۔ اور اس معاملے میں حسینہ واجد کی یہ خواہش بھی رہی تھی کہ اپنے پسندیدہ قومیت پرست لوگوں کو اعلی عہدے پر رکھ کر اپنی مرضی سے کام کرایا جائے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حسینہ واجد نے بنگلہ قومیت کو استعمال کر کے اپنی مطلق العنانی قائم کی اور عوامی فرسٹریشن کے اتارنے کے تمام راستے ختم کر دیے۔ ملک میں آپوزیشن نام کی کسی چیز کو رہنے نہیں دیا۔ عدلیہ کے فیصلے حسینہ واجد کی مرضی سے ہی آنے لگے۔ عوامی سطح پر فکری تنوع کے تمام راستے بند کردیے گئے۔ اس سب کے باجود حسینہ واجد یہ سمجھنے میں ناکام رہی کہ عوام کے دلوں میں کیا چل رہا ہے۔ انہوں نے احتجاج کرنے والوں کو رضار کاروں کی اولاد قرار دیا جبکہ “رضاکار” بنگلہ دیش میں ایک بدترین گالی ہے۔ لیکن احتجاج کرنے والوں نے اسی خطاب کو نارمیلائز کردیا جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حسینہ واجد اپنی طاقت کے نشے میں عوام کے موڈ کو پہچاننے میں ناکام رہی۔ پھر اتنا ہی نہیں فوج اور پولس کے ذریعے سیکڑوں طلباء کو قتل کردیا گیا اور انہیں احساس تک نہ ہوا کہ معاملہ کتنا سنگین رخ اختیار کر رہا ہے۔ نتیجتاً انہیں بنگلہ دیش سے فرار ہونا پڑا۔
اس وقت بنگلہ دیش کی فوج اور عدلیہ حسینہ واجد کی ہی نمائدہ ہے اور ان کی تمام زیادتیوں میں شریک ہے۔ اب دیکھنا ہے حالات کیا کروٹ لیتے ہیں۔ عدلیہ اور فوج کے جن لوگوں نے زیادتیاں کی ہیں کیا ان کو بھی سزا ملے گی؟
نوٹ: میرے تجزیے کی بنیادیں کیا ہیں؟ ایک انڈین مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں حالات کا تجزیہ اپنے طریقے سے کرتا ہوں۔ ایسا اتفاق ہوا تھا کہ اپنی کمپنی کی طرف 2022 میں مجھے ڈھاکہ جانے کا موقعہ اور اس دوران میں نے کچھ لوگوں سے بات کر کے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ ان کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ باقی باتیں عوام سورس حاصل شدہ مواد سے ہی اخذ کیا ہے۔ یہ ایک ذاتی تجزیہ ہے اور اس سے اختلاف کرنے کی پوری گنجائش ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply