ارتقاء اور مذہب۔ تنازع یا موافقت(8-آخری قسط)-عبدالسلام

۱۵۔ مذہب اور ارتقاء، قضیہ کیا ہے۔
پچھلے ابواب میں دی گئی تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ جب ہم مذہب اور ارتقاء کے قضیے پر بحث کریں تو ہم پر یہ واضح ہو کہ ہمارے سامنے کونسا نظریہ ہے اور اس کی علمی بنیادیں کیا ہیں۔ یہاں پر واضح ہو کہ مجھے اس بات کا کوئی شوق نہیں ہے کہ میں مذہب اور سائنس میں کسی تنازع کو ثابت کروں۔ بلکہ ایک روایتی مذہبی شخص ہونے کے ساتھ سائنس سے لگاؤ ہونے کے اعتبار سے میری شدید خواہش ہے کہ مذہب اور سائنس میں ہم آہنگی ہو۔ لیکن یہاں پر مجھے نہ چاہتے ہوئے کچھ ناخشگوار باتیں واضح کرنا پڑیگی۔ مکرر عرض ہے کہ اس تحریر کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ نظریہ ارتقاء کا رد کرنا چاہتے ہیں یا نظریہ ارتقاء کو اسلام کے موافق ثابت کرنے چاہتے ہیں ان پر یہ واضح ہو کہ ایسا کرنے کے لئے انہیں کن چیلنجز کا سامنا ہے۔
ہماری مذہب کی سمجھ کے مطابق نظریہ ارتقاء ، مذاہب اور خاص طور پر اسلام سے ان معاملات میں متصادم نظر آتا ہے ۔ اس کو ایک بنیادی فہرست کے طور پر دیکھا جائے، ضروری نہیں ہے کہ میں نے جن چیزوں کو بطور تصادم پیش کیا ہو وہ واقعی میں تصادم ہی ہو۔ ہر ایک کو آزادی ہے کہ وہ اس میں کہاں پر موافقت دیکھتا ہے اور کہاں تصادم۔
۱۔ تخلیق یعنی زندگی کا وجود وہ بنیادی نکتہ ہے جس کی پیچیدگی کے پیش نظر مذہب اس کو خصوصی طور پر ایک خالق سے منسوب کرتا ہے جس نے اپنی تدبیر، منصوبہ بندی اور ڈیزائن سے زندگی کو وجود بخشا۔ اگرچہ نظریہ ارتقاء براہ راست کسی خالق کی نفی نہیں کرتا لیکن یہ زندگی کے وجود کو قوانین فطرت کے حوالے کر کے یا تو خالق کے رول کو رد کردیتا ہے یا پھر غیر فعال کر دیتا ہے۔ ویسے یہ قضیہ تقریبا پوری سائنس پر لاگو ہوتا ہے۔ اس کو واچ میکر ماڈل کہتے ہیں۔ عام طور پر اس نظریے کو مذہب سے متصادم نہیں سمجھا جاتا، لیکن جب تخلیق کے عمل پر بھی یہی ماڈل لاگو کیا جائے تو مسئلہ ایک دوسری صورت اختیار کر لیتا ہے۔
۲۔ نظریہ ارتقاء کے مطابق جانداروں میں پایا جانے والے تمام کا تمام تنوع حوادث زمانہ، اتفاقات، تجرباتی غلطیوں (Trial and error method) سے بھرا ہوا ہے۔ ارتقاء ایک بے رحم، بے ہنگم اوراخلاقیات سے عاری پراسس ہے۔ تخلیق کی یہ تشریح ایک مدبر خالق کے تصور سے متصادم ہے۔
۳۔ نظریہ ارتقاء جانداروں کی تمام جسمانی خصوصیات اور ذہنی رویوں کی تشریح اتفاقات اور بقاء کی جدوجہد سے جوڑ دیتا ہے۔ اس نظریے کے تحت، جمالیات، اخلاقیات، اور یہاں تک کہ مذہب بھی بقا کی جدوجہد کے رویے کا نتیجہ قرار پاتے ہیں۔ یعنی نظریہ ارتقاء میں اس نظریے کی گنجائش موجود ہے کہ انسانوں میں “مذہب” اور “خدا” جیسے تصورات اس لیے موجود ہیں کہ ان تصورات نے آپسی تعاملات اور جانثاری کے جذبات کو فروغ دیا، جس کے نتیجے میں بقا کی جنگ میں ایسے جذبات والے افراد زیادہ کامیاب ہوئے۔ یوال نوح حراری نے اپنی تصانیف میں اسی بات کو زیادہ واضح کیا ہے۔
حراری کے مطابق، انسانوں کے پیچیدہ سماجی ڈھانچے اور ثقافتی ارتقاء نے ہمیں دیگر جانداروں سے ممتاز کیا ہے۔ مذہب اور خدا جیسے تصورات نے انسانی معاشروں میں یکجہتی، تعاون اور مشترکہ اہداف کو فروغ دیا، جس سے بڑے گروہوں میں تعاون ممکن ہوا۔ ان تصورات نے اخلاقی ضابطے اور معاشرتی قوانین وضع کرنے میں مدد دی، جو اجتماعی بقا کے لیے ضروری تھے۔ مذہب نے انسانوں کو ایک مشترکہ شناخت دی اور انہیں بڑے پیمانے پر تعاون کرنے کے قابل بنایا۔ یہ اجتماعی شعور انسانوں کو قدرتی ماحول میں بقا کے لئے زیادہ مؤثر بناتا ہے۔ مذہبی عقائد اور رسومات نے افراد کو ایک مشترکہ مقصد کے تحت متحد کیا، جس سے پیچیدہ معاشرتی ڈھانچے اور تہذیبوں کا ارتقاء ممکن ہوا۔
اگر آپ اس تناظر میں انسانوں کی حقیقت کے بارے میں سوچیں تو یہاں پر “اشرف المخلوقات” کے تاثر پر بھی شدید زد پڑتی ہے۔
۴۔ اکثر مذاہب کے مطابق انسان کو خدا نے خصوصی طور پر پیدا کیا۔ ابراہیمی مذاہب میں آدم اور حوا کی تخلیق سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ اسلام کے مطابق آدم و حوا کو بغیر کسی ماں باپ کے پیدا کیا گیا۔ لیکن یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم نظریہ ارتقاء میں کسی ایسے واقعے کو فٹ کر پائیں جس میں دو انسان بغیر ماں باپ کے پیدا ہوئے ہوں۔ یہاں پر ایک اضافی نکتہ یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہی ماں باپ کی اولاد بغیر کسی جینیاتی تنوع کے اپنی نسل بڑھائے تو جینیاتی بیماریوں کا امکان اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ نسل کی بقا ممکن ہی نہ ہو۔ جینیاتی تنوع (genetic diversity) جانداروں کی بقا کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ تنوع بیماریوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت فراہم کرتا ہے۔ اوپر بیان کردہ نکات میں کچھ کھینچ تان کر موافقت پیدا کی جا سکتی ہے، لیکن چوتھا پوائنٹ ایسا ہے جہاں پر کسی بھی قسم کی موافقت ممکن نظر نہیں آتی۔
موافقت کا کوئی امکان؟
ہماری عقائد کی تدوین بعد کی صدیوں میں ہوئی خاص طور پر جب عالم اسلام کو دوسرے علوم خاص طور پر یونانی فلسفہ سے واسطہ پڑا۔ اس سے پہلے عام مسلمانوں کو عقائد کے لیے کسی قسم کی تشریح کی ضرورت نہیں تھی۔ عقائد کی تدوین کی ضرورت اس لئے پڑی کیونکہ بیرونی علوم سے واسطہ پڑنے کے بعد کچھ ایسے سوالات پیدا ہوئے تھے جن کے کوئی متفقہ جوابات موجود نہیں تھے۔ اس کے لیے کچھ علماء نے ان سوالوں کے ایسے جوابات دینے کی کوشش کی جو منطقی بھی ہوں اور اسلامی نصوص سے موافقت بھی رکھتے ہوں۔ لیکن یہ عمل ایک دم سے بھی نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اس سلسلے میں کافی کشمکش بھی ہوئی تھی بعد میں جاکر کچھ عقائد پر مجموعی اتفاق پایا گیا اگرچہ تفصیلات میں ابھی بھی کافی اختلافات موجود ہیں۔ یہاں پر قابل غور بات ہے کہ عقائد کی تدوین کچھ مخصوص صورت حال کے ردعمل میں ہوئی تھی۔ اس لیے اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس تدوین پر اس وقت کے چیلنجز اثر انداز ہوئے ہوں۔ ایسے میں یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ ہم پہلے والے دور کے تدوین شدہ عقائد کو اسلام کی دائمی تشریح کے طور پر کیوں مانیں؟ کیا موجودہ جیلنجز کے پیش نظر ان عقائد پر نظر ثانی نہیں کی جاسکتی؟
فلسفے کے متعارف ہونے کے عمل کے دوران، اسلام ایک عقائد کی کشمکش کے عمل سے گزر چکا ہے۔ تو کیا موجودہ دور میں یہی کشمکش مثبت انداز میں دوبارہ برپا نہیں کی جاسکتی؟ ہمارے پاس ایسا کون سا طے شدہ اصول ہے جس کی بنیاد پر ہم یہ کہیں کہ جو چیز ایک بار ہوچکی ہے وہ دوبارہ نہیں ہوسکتی؟ اہل سنت کا ایک معروف اصول ہے کہ پہلی تین نسلوں میں دین کی جو سمجھ پیدا ہوئی وہ حرف آخر ہے۔ اس کے لیے معروف حدیث پیش کی جاتی ہے: “خيرُكم قرنيْ، ثم الذين يلونَهم، ثم الذين يلونَهم ُ” (ترجمہ: م میں سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے لوگ ہیں،پھروہ جو ان کے قریب ہوں،پھر وہ جوان کے قریب ہوں)۔ لیکن اس حدیث کا جو مطلب اخذ کیا گیا ہے کیا وہ حرف آخر ہے؟ اس حدیث کے الفاظ میں کہیں پر بھی عقائد کی تدریج پر بندش نظر نہیں آتی۔ یہاں پر خاص طور پر یہ بات قابل غور ہے کہ عقائد کے باب میں موجودہ چیلنجز پہلے والے چیلنجز سے بالکل مختلف ہیں۔
اگر کوئی شخص طئے شدہ عقائد جو کہ امام احمد بن حنبل، اشعری، ماتریدی، ابن تیمیہ، غزالی وغیرہ سے ماخوذ ہیں انہیں کو حرف آخر سمجھتا ہے اور ان سے آگے سوچنے کی گنجائش نہیں رکھتا تو پھر مجھے نہیں لگتا کہ یہاں ہر موافقت کی کوئی گنجائش ہے۔ نظر ثانی کا مطلب بہر حال یہ نہیں کہ ہم اپنے بنیادی عقائد کو تبدیل کر دیں، بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم ان کی ایسی تشریح کریں جو جدید علوم سے ہم آہنگ ہو اور موجودہ دور کے مسائل کا حل فراہم کر سکے۔ اس کے لیے ہمیں علماء، مفکرین اور سائنسدانوں کے درمیان ایک علمی اور فکری مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے عقائد کو نئے انداز میں سمجھ سکیں اور انہیں دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق پیش کر سکیں۔
تخلیق آدم و حوا، معجزانہ تخلیق (Special creation)
چونکہ میں نے تصادم کو اتنا کچھ واضح کیا ہے اس لئے موافقت کے سلسلے کی ایک تجویز بھی دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ ارتقاء کا رد کرنے بجائے ہم یہ مانیں کہ صرف آدم و حوا کو اللہ نے اپنے حکم سے معجزانہ طور پر پیدا کیا ہے۔ جب آدم کو پیدا کیا گیا تو اللہ نے ان پراپنی روح سے پھونکا۔ یہاں پر واضح ہو کہ روح سے مراد “زندگی” یا وہ چیز نہیں ہے جسے انگریزی میں soul کہتے ہیں ۔ بلکہ قرآن میں جہاں پر روح کا لفظ استعمال ہوا ہے یا تو وہاں پر جبرئیل مراد ہیں یا پھر وحی مراد ہے اور خیال رہے کہ جبریل علیہ السلام وحی نازل کرنے والے فرشتے ہیں۔ اس اعتبار سے دونوں معنوں میں ایک اشتراک پایا جاتا ہے۔ اس لئے روح سے پھونکے سے مراد وحی کے ذریعے ان میں اخلاقی شعور پیدا کرنا ہے۔ پھر آدم و حوا سے جو اولادیں پیدا ہوئیں انہوں نے دوسرے انسانوں سے جو کہ ارتقاء سے پیدا شدہ تھے لیکن اولاد آدم میں سے نہیں تھے شادی کی اور ان سے اپنی نسلیں بڑھائی۔ اس تشریح کے مختلف ورژن ہوسکتے ہیں۔ اس تشریح کا ایک “ممکنہ” مطلب یہ نکلتا ہے کہ مشرق وسطی کے اکثر انسان اولاد آدم سے ہیں اور دوسرے انسان اگرچہ مکمل انسان ہیں لیکن وہ اولاد آدم میں سے نہیں ہیں۔ یعنی یہاں پر بنی آدم اور انسان دونوں یکساں اور متبادل الفاظ نہیں ہیں۔ واضح ہو کہ یہ تجویز سائنس سے مطابقت نہیں رکھتی۔ لیکن چونکہ ہم مسلمان کچھ معاملات کو جنہیں معجزہ کہا جاتا ہے سائنس کے دائرے کے باہر مانتے ہیں اس لیے کم از کم ہمارے عقائد کے اعتبار سے یہ موافقت کی ایک صورت ہو سکتی ہے۔ خیال رہے کہ یہ میری تجویز نہیں ہے، بلکہ میں نے متعدد لوگوں سے پڑھ کر انہیں ملا کر پیش کیا ہے۔ یہ صرف ایک ممکنہ تجویز ہے اور اس کو میرے عقیدے کے طور پر نہ سمجھا جائے۔ یہ تجویز ایک علمی مباحثے کا حصہ ہے اور اسے ایک ممکنہ حل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اس پر غور و فکر کرنا اور مختلف زاویوں سے اس کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ اس بات پر بھی غور کیا جاسکتا ہے کہ اس کے کونسے مختلف ورژن ہیں جو کہ قرآن و مستند احادیث سے مطابقت رکھتے ہوں۔
آخری بات
موجودہ دور میں اسلامی عقائد کا دفاع زیادہ تر سوشیل میڈیا پر نظر آتا ہے۔ اس سلسلے میں فیس بک پر بحث ہو رہی ہوتی ہے یا پھر کچھ معروف اسلامی شخصیات کی یوٹیوب ویڈیوز دیکھی جا سکتی ہیں۔ جہاں تک مدارس کی بات ہے، وہاں علمی مکالمے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی، البتہ فتویٰ یا آر پار والے فیصلے وہاں سے آسکتے ہیں۔ عام طور پر سوشیل میڈیا پر جو لوگ اسلام کے دفاع کے لئے میدان میں ہیں ان میں کسی قسم کی صلاحیت کی کوئی شرط نہیں ہوتی، نہ ہی اسلامی علوم میں مہارت کے اعتبار سے اور نہ ہی عصری علوم کی سمجھ کے اعتبار سے۔ بہت سارے ایسے ہیں جو اوپری اور سطحی معلومات سے ایک بڑے نظریے کو چیلنج کرنے کے لئے اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتے ہیں۔ ان کے طرزِ دلائل سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جس چیز کو نہیں سمجھتے اس کے وجود سے ہی انکاری ہیں۔ جہاں پر ان کی سمجھ بوجھ کام نہیں کرتی، وہاں روشنی جلانے کے بجائے ہر اندھیرے پر حملہ آور ہونا ہی ان کے لئے کامیابی ہے۔ اگر کہیں کوئی چیلنج کی سنگینی کو سمجھانے کی کوشش کرے تو ان پر طعنے کسنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سوشیل میڈیا کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جو سمجھدار لوگ ہیں اور ایسا رویہ نہیں رکھتے، وہ کم نظر آتے ہیں کیونکہ وہ کسی علمی جواب کے انتظار میں ہوتے ہیں اور بے تکی بحث سے اپنے آپ کو دور رکھتے ہیں۔ جو بغیر قابلیت کے ہر مسئلے پر اپنا فیصلہ سنانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے، وہ زیادہ نمایاں ہوجاتے ہیں۔ اپنے کسی اندرونی خوف کی وجہ سے کسی کو دشمن سمجھ کر ان کا “منہ بند” کرنا ہی ان کا مطمح نظر ہوتا ہے۔ نتیجتاً ہمیں ایک ایسی صورت حال نظر آتی ہے کہ جہاں پر اسلام کا دفاع کرنے والے علمی اعتبار سے غبی اور اخلاقی اعتبار سے طعنے باز نظر آتے ہیں۔ یقیناً ان میں کچھ بہت ہی قابل لوگ بھی ہیں جو علمی طور پر اپنا نکتہ نظر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن چونکہ ایسے مکالموں میں بھی یہی ناقابل اعتبار طبقہ اپنا کردار نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس لئے علمی بحث کہیں دب جاتی ہے۔ اس چیلنج کا سامنا کرتے ہوئے یہ نہیں لگنا چاہئے کہ ہم ایک ہاری ہوئی بازی کھیل رہے ہیں اور یہ چیز ہمارے اخلاقی اور علمی رویوں سے نمایاں ہونی چاہئے۔ اس تحریر کا مقصد مسئلے سنگینی کو واضح کرنا تھا تاکہ قارئین یہ سمجھ سکیں کہ یہ کتنا سنگین چیلنج ہے اور اوپر اوپر سے دیے گئے دلائل یا طعنے بازیوں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہونے والا۔
موجودہ صورت حال کے پیش نظر ہمارے پاس دو انتخاب ہیں۔ ایک یہ کہ ہم مذہب اور ارتقاء کے درمیان مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کا کوئی حل نکالیں۔ دوسرا حل یہ ہے کہ ہم نظریہ ارتقاء کو گہرائی سے سمجھ کر اس کا مضبوط علمی رد کریں۔ میں نے اس تحریر میں وہ کچھ نکات بیان کیے ہیں جو نظریہ ارتقاء کے رد میں دیے جاتے ہیں اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان کا کیا جواب دیا جاتا ہے۔ جو بھی حل ہو، یہ دونوں کام علمی نوعیت کے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply