آغا گل سے میرا تعلق ان کے ناول ”بابو“ پڑھنے کی بنیاد پر بنا۔ اس کتاب کا تاثر اتنا مضبوط اور پختہ تھا کہ اس کی وجہ سے میں نے ان کی تمام تخلیقات سلسلہ وار پڑھنے کا ایک مصمم ارادہ کیا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی ان کا ایک افسانہ ہے جو ان کے افسانوی مجموعہ ”گوانکو“ میں موجود ہے۔ یہ کتاب پہلی مرتبہ مکتبۂ الحمراء لاہور سے 2005 ء میں شائع ہوئی۔
نند کشور وکرم نے آغا گل کو بجا طور پر ”منفرد سٹائل“ کا افسانہ نگار قرار دیا ہے۔ کیونکہ ان کے افسانے پڑھتے وقت آپ کو باقی افسانہ نگاروں سے بالکل ایک منفرد احساس ملتا ہے، جو غیر شعوری طور پر انسان کے لاشعور کو ایک دھیمی ہوا کے جھونکے کی طرح سے چھو لیتا ہے۔ اس کے علاوہ، تقریباً ان کے ہر افسانے میں علاقائیت کا عنصر پایا جاتا ہے، یعنی پلاٹ، کردار اور مکالمے سب علاقائی حدود کے اندر ترتیب دیے گئے ہیں، یہی امتیازی خصوصیت ان کے افسانوں کی پہچان ہے۔ اس خصوصیت کے بالکل متوازی آغا گل کے افسانوں میں طنز و مزاح کا ایک خاص پہلو بھی دیکھنے کو ملتا ہے، جو قاری کو خوب ہنسانے کے ساتھ ساتھ سنجیدگی کا پہلو بھی ہاتھ سے چھوڑنے نہیں دیتا اور گہرے سوچ میں ڈال دیتا ہے۔ شاید اسی تناظر میں شمس الرحمن فاروقی صاحب نے انھیں ”سرد مزاح کا خالق“ کا خطاب دیا تھا۔
”گوانکو“ میں موجود تمام افسانے اس قابل ہیں کہ ان پر الگ الگ تحریر لکھی جائے، لیکن یہاں پر میں صرف ”ڈریکولا“ کا ہی جائزہ لوں گا۔
آغا گل کا افسانہ ”ڈریکولا“ ایک منفرد اور غیر روایتی کہانی ہے، جو اپنے پلاٹ، کرداروں، ماحول اور علامتی زبان کے ذریعے قارئین کو مختلف سماجی، نفسیاتی اور فطری پہلوؤں کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اس افسانے میں مختلف تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے جو اردو افسانے کے معیارات کے مطابق قابلِ ذکر ہیں۔
افسانے کا پلاٹ ایک پوسٹ ماسٹر کی عجیب و غریب تجربات کے گرد گھومتا ہے جو ایک پرانے اور پراسرار ریسٹ ہاؤس میں قیام پذیر ہوتا ہے۔ کہانی کا پلاٹ سادہ ہے لیکن اس میں مافوق الفطرت عناصر شامل کیے گئے ہیں، جو کہانی کو دلچسپ اور معمہ خیز بناتے ہیں۔ پلاٹ میں ڈرامائی تسلسل ہے جو قارئین کو شروع سے آخر تک متوجہ رکھتا ہے۔ ”ڈریکولا“ کی موجودگی اور اس کے ساتھ پیش آنے والے واقعات نے کہانی میں تجسس اور خوف کا عنصر پیدا کیا ہے۔
افسانے کے مرکزی کردار یعنی پوسٹ ماسٹر کی شخصیت کا نفسیاتی جائزہ لیا جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک حساس اور قدرے خوفزدہ انسان ہے جو غیر معمولی واقعات کے سامنے بے بسی محسوس کرتا ہے۔ اس کا اردلی، ڈپٹی پوسٹ ماسٹر اور چوکیدار بھی کہانی کے اہم کردار ہیں، جو مختلف رویوں اور طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کرداروں کے ذریعے مصنف نے معاشرتی اور ادارتی مسائل پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
آغا گل نے افسانے میں ماحول کی عکاسی بڑی خوبی سے کی ہے۔ ریسٹ ہاؤس کا پراسرار ماحول، رات کی عجیب و غریب آوازیں، اور ریسٹ ہاؤس کا قبرستان کی زمین پر تعمیر ہونے کے حوالے کہانی میں خوف اور پراسراریت کا عنصر بڑھاتے ہیں۔ ان تمام جزئیات کو بڑی مہارت سے بیان کیا گیا ہے، جو قاری کو کہانی کے اندر جذب کر لیتے ہیں۔
آغا گل نے اس افسانے میں سادہ اور عام فہم زبان استعمال کی ہے جو کہانی کے بیانیے کو موثر بناتی ہے۔ بعض جگہوں پر طنزیہ اور مزاحیہ انداز بھی نظر آتا ہے جو کہانی کی سنجیدگی کو کم کرنے کے بجائے اس کے تاثر کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ ”ڈریکولا“ جیسے علامتی کردار کا استعمال کر کے مصنف نے قاری کی توجہ حقیقت، ظاہری فطرت اور مافوق الفطرت کے درمیان موجود باریک لکیر پر مرکوز کی ہے۔
یہ افسانہ پڑھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسا کہ میں کوئی horror comedy فلم کا سکرپٹ پڑھ رہا ہوں۔ ”ڈریکولا“ بظاہر ایک خوفناک کہانی معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کے اندرونی معنی اور موضوعات کو سمجھا جائے تو یہ کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ مثلاً انسان کا اندرونی خوف، ادارتی بدانتظامی، اور معاشرتی رویوں کی طرف اشارے ملتے ہیں۔ یہ کہانی کسی حد تک مزاحیہ ہے، لیکن اس کے ذریعے انسان کے اندر چھپے ہوئے خوف اور غیر یقینی حالات سے نمٹنے کی کوششوں کو ظاہر کیا گیا ہے۔
افسانے میں ”ڈریکولا“ جیسے کردار کا شامل کرنا مافوق الفطرت عناصر کی نمائندگی کرتا ہے، جو کہانی کے مرکزی خیال کو تقویت دیتا ہے۔ اس مافوق الفطرت کردار کو حقیقت کی دھند میں لپیٹ کر پیش کیا گیا ہے، جس سے قاری کہانی کے اختتام تک کشمکش میں مبتلا رہتا ہے۔
اختتام پر جب ”ڈریکولا“ کی حقیقت سامنے آجاتی ہے، تو کہانی کا معمہ حل ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ کیا سب کچھ حقیقتاً ویسا ہی تھا جیسا دکھایا گیا یا یہ صرف کردار کے دماغ کی پیداوار تھی۔ یہ کھلا اختتام کہانی کو ایک گہرائی فراہم کرتا ہے جو قاری کے ذہن میں ایک سوال چھوڑ دیتا ہے۔
مجموعی طور پر، آغا گل کا افسانہ ”ڈریکولا“ اردو افسانے کی روایت میں ایک قابلِ ذکر اضافہ ہے۔ اس میں طنز و مزاح، خوف، تنقید اور علامت کے مختلف پہلو ایک ساتھ پروئے گئے ہیں، جو اسے ایک یادگار اور منفرد کہانی بناتے ہیں۔ افسانے میں استعمال کی گئی تکنیک، زبان اور اسلوب قاری کو مصنف کی تخلیقی صلاحیتوں کا قائل کرتے ہیں۔
معلوم نہیں کیوں؟ یہ افسانہ پڑھتے وقت مجھے قدرت اللہ شہاب کی لکھی ہوئی خود نوشت ”شہاب نامہ“ کے ایک حصے ( ”ڈپٹی کمشنر کی ڈائری“ ) میں موجود ایک کہانی یاد آئی جو بالکل اسی نوعیت کی تھی۔ لیکن فرق یہ ہے کہ ”ڈریکولا“ ایک افسانہ ہے اور ”بملا کماری کی بے چین“ روح حقیقی واقعہ ہے۔
آخر میں یہ جاننے کے لیے کہ کیا پوسٹ ماسٹر ڈریکولا کو مار دیتا ہے یا وہ خود ہی ڈریکولا کا شکار بن جاتا ہے؟ آخر کیا واقعی کوئی ڈریکولا ریسٹ ہاؤس میں موجود تھا یا نہیں؟ آپ کو یہ افسانہ پورا پڑھنا ہو گا۔ کیونکہ یہ آپ کو کچھ ہی منٹوں کے لیے سوشل میڈیا سے دور رکھے گا۔ اور اگر آپ کو یہ افسانہ پڑھتے ہوئے زیادہ ڈر لگے اور میری طرح اپنی ہنسی بھی نہیں روک سکے تو آپ یہ افسانہ دوبارہ پڑھے کیونکہ یہ بار بار پڑھنے کا قابل ہے۔
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں