• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایک مفروضہ: ہمالیہ کی اونچائی اور سمندر کی وسعتوں نے برصغیر کو کم ہمتی عطا کی ہے /سلیم زمان خان

ایک مفروضہ: ہمالیہ کی اونچائی اور سمندر کی وسعتوں نے برصغیر کو کم ہمتی عطا کی ہے /سلیم زمان خان

برصغیر پر جو مختلف اقوام نے یلغار کی ، اس کے سب سے عمدہ شواہد تاریخ میں سکندر اعظم کے حملے سے ملتے ہیں۔اس کے بعد چاہے کوئی بھی قوم بطور جنگجو اِن میدانوں میں اُتری جس کے ایک جانب ہمالیہ اور دوسری جانب یخ بستہ اقوام اور تیسری جانب سمندر رہا ۔ برصغیر صرف پاکستان ،بھارت اور بنگلہ دیش کا نام نہیں، یہ ان بڑے خطوں کی طفیلی ریاستوں تک بھی پھیلا ہوا ہے، لیکن اس تمام خطے میں ایک قدر مشترک جو گزشتہ ڈھائی ہزار سال کی تاریخ سے ثابت ہے وہ یہ کہ یہاں جو بھی فاتح داخل ہوا فوجی یلغار نے اس پورے میدان کا نقشہ تبدیل کیا۔  کبھی یونان، کبھی رومن ،کبھی فارس، کبھی عرب ،کبھی تاتاری،کبھی افغان ، کبھی گورے سب کے سب اس سونے کی چڑیا کو نوچتے رہے۔  برصغیر پر اتنے حملہ آور آتے جاتے رہے کہ برصغیر کی زمین کی مثال قدرت اللہ شہاب کے افسانے” یا خدا” کی دلشاد کی طرح ہو گیا۔  جسے ہر کوئی لوٹتا اور آخر اس کی مدافعت اس حد تک کم ہو گئی کہ اگر کوئی دلشاد کو گھور کر بھی دیکھتا کرو وہ اپنا جسم ڈھیلا چھوڑ دیتی کہ جلد از جلد گھورنے والا اپنا مدعا مکمل کرے   اور نوچے جانے کے اس عمل سے جان چھوٹے۔  اور آخر اسے پکوڑے بیچنے پڑے   ( اس ناول کو نوجوان نسل کو ضرور پڑھنا چاہیے تاکہ آزادی اور مسلمان مملکت کی اہمیت کا اندازہ ہو سکے)۔

میرا مدعا برصغیر کی تشبیہ دلشاد کے کریکٹر سے دینا تھی  کہ اہلیان برصغیر کو کہنے کو تو ہمالیہ جیسا اونچا پہاڑ پشت پر بطور نگہبان میسر تھا، دوسری طرف سمندر کی وسعتوں نے گھیرا ڈالا ہوا ہے  لیکن میری دانست میں ہمالیہ کی اونچائی اور فلک بوس ہیبت اور سمندر کی وسعتوں نے اہلیان برصغیر کی کم ہمتی اور خوف میں ہی اضافہ کیا کیونکہ ہمالہ کی گود میں انہیں پناہ نہیں ملی بلکہ فاتحین انہیں مارتے مارتے ہمالہ کے دامن تک گھسیٹ کر لے گئے اور سمندر سے ہر طرح کا فاتح سمندری ہوا کی طرح برصغیر میں اپنی وسعت کے مطابق داخل ہوا اور جہاں تک ان آندھیوں کا زور تھا وہاں تک برصغیر کی عوام انہیں روک نہ پائی۔چاہے وہ سکندری، عربی، ولندیزی یا انگریزی ہوائیں تھیں سمندر نے نقصان ہی دیا۔۔ ان ہزاروں سالوں نے برصغیر میں دو طبقے پیدا کیے، ایک وہ جو کرائے کے فوجی اور قاتل تھے، جن کا پیشہ ہر فاتح کے ساتھ مل کر لوٹ مار اور نفع کمانا تھا  اور دوسرے وہ جنہوں نے مار کھانی تھی ۔ ان بیرونی فاتحین نے یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ رکھی تھی کہ نسل در نسل اس علاقے میں کرائے کے فوجی اور جنگجو قبائل آباد ہیں جو سرحدوں سے داخل ہونے والے ہر فاتح کو خدمات پیش کرتے ہیں ۔ لہذا اس برصغیر میں کبھی بھی کوئی پُر امن حکومت قائم نہیں ہو سکی جس میں جنگجو سرداروں کا ہاتھ نہ ہو   اور تمام ریاستیں ہمیشہ برسرپیکار رہیں اور سازش، دھوکہ اور منافقت پر مبنی چھوٹی چھوٹی اجارہ داریاں قائم ہوتی رہیں۔ اس خطہ میں سازش اور پیٹھ میں چھرا گھونپنا کوٹلیہ چانکیہ کی سیاست کا ایک گر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس برصغیر نے شیر شاہ سوری، محمود غزنوی ،چنگیز خان ،اور کم سن محمد بن قاسم کا ہم پلہ کوئی ہیرو پیدا نہیں کیا۔  مسلمان یہاں اپنے ہیرو مستعار عرب یا افغانستان سے لے کر مونچھوں کو تا ؤدیتے ہیں   جبکہ ہندو اقوام اور دیگر زمانہ قبل از تاریخ کے دیوتاؤں کو سورما قرار دیتے ہیں۔ چند علاقائی ہیروز جن میں ڈاکو اور آخری دور کے آزادی کے چند اکا دکا سپاہی ہیں جن کا نام بہت اچھالا جاتا ہے۔ جبکہ بین الاقوامی سطح کا کوئی سپاہی اس قوم سے مجھے نہیں یاد پڑتا کہ نکلا ہو ۔ البتہ زمانہ قدیم میں بڑے بڑے ہندو سادھو ، پھر مشہور زمانہ بدھ بھکشو ۔اور آخر میں مسلمان اولیاء کرام بڑے نامور رہے ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر وہ بھی تمام برصغیر میں تبت ،چین یا افغانستان سے ہی داخل ہوئے۔

یہی وجہ ہے کہ سرد جنگ کے اختتامی مقابلہ کے لئے جو گراؤنڈ چنا گیا وہ برصغیر کی سرحد پر افغان سر زمین تھی ،کیونکہ امریکہ اور اس کے حواریوں کو یہ علم تھا کہ کرائے کے قاتل ،کرائے کے فوجی اور کرائے پر مختلف اخلاقیات کی خرید وفروخت کرنے والوں کی بھرمار برصغیر سے بآسانی میسر ہو گی  اور دنیا نے دیکھا کہ افغانستان کے گراؤنڈ پر جنگ انہوں نے لڑی جنہیں یہاں لایا گیا۔  اس سے ثابت ہوتا ہے کہ برصغیر کی تاریخ میں کوئی جمہوری مملکت کا قیام ممکن ہی نہیں اور نہ ہی یہ مزاج برصغیر کا ہے ۔ آپ ہندوستان کی جمہوریت کی مثال دیں گے، جہاں حکومت سے لیکر کاروبار تک ہر چیز کے پیچھے فوج کی اہم ایجنسیوں کا عمل دخل ہے۔۔ کیونکہ چاہے سری لنکا ہو ،پاکستان ہو ،ہندوستان ہو سب کے مزاج میں صدیوں کی تاریخ میں آمریت سرائیت کر چکی ہے۔  یہاں نہ عوام کو جمہوریت کا لطف آتا ہے اور نہ ہی آمروں کو سیاست ،تجارت میں عمل دخل کے بغیر چین آتا ہے۔  یہ سب چندر گپت موریا کے وقت سے ایسا ہی ہے جسے اب ڈھائی ہزار سال ہو چکے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بنگلہ دیش بہت تیزی سے ترقی کر رہا تھا ۔ جسے آزاد بھی کرائے کے قاتلوں نے کرایا تھا  اور آخر 50 سال بعد وہاں بھی ” میرے عزیز ہم وطنو ” کی اعلانیہ صدا گونجی۔۔ یہ 5 اگست 2024 کو ایک نئی شروعات ہوئی ہے۔  میں بنگالیوں کو صرف اتنا کہوں گا  “ویلکم ٹو کلب مائے برادرز” ۔  اس کے بعد شاید ترقی بنگالیوں کا خواب رہ جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply