خونی فوجی بغاوتیں اور دو فوجی آمرانہ حکومتیں بنگلہ دیش کی باون سالہ تاریخ کا ایک المیہ باب ہے۔ بنگلہ دیش کے پہلے صدر اور بانی یعنی فادر آف دی نیشن شیخ مجیب الرحمن، انکی اہلیہ اور دیگر اہل خانہ کو اگست ۱۹۷۵ میں فوجی بغاوت کے دوران قتل کر دیا گیا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کی بیرون ملک مقیم بیٹیاں شیخ حسینہ اور شیخ ریحانہ خونی حملہ آوروں سے محفوظ رہیں۔ شیخ حسینہ بعد ازاں بنگلہ دیش کی چار بار وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے قتل کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیاء الرحمن نومبر ۱۹۷۵ کو اقتدار پر قابض ہو گئے۔ انہیں دوران صدارت فوجی افسروں کے ایک گروہ نے مئی ۱۹۸۱ میں قتل کر دیا۔ ایک اور آرمی چیف جنرل حسین محمد ارشاد نے مارچ ۱۹۸۲ کو ملک میں مارشل لاء نافذ کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ۱۹۹۰ تک صدر بن کر اقتدار اعلیٰ کے مالک بنے رہے۔ ۱۹۹۰ میں شیخ حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء کی زیر قیادت جمہوریت بحالی تحریک کے نتیجہ میں جنرل حسین محمد ارشاد کو صدارت سے مستعفیٰ ہونا پڑا۔ بعد ازاں جنرل ضیاء الرحمٰن کی بیوہ اوربنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ بنگلہ دیش کی دو بار وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے انتخابات میں چار بار کامیابی حاصل کی اور شیخ حسینہ واجد بیس سال تک بنگلہ دیش کی وزیر اعظم رہیں ۔ جنہیں حالیہ طلبہ تحریک کے نتیجہ میں نہ صرف وزارت عظمیٰ سے مستعفیٰ ہونا پڑا بلکہ عوامی غیض و غضب سے بچنے کے لئے ملک سے راہ فرار اختیار کرکے انڈیا میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔
سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف طلبہ تحریک نے بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی سول آمرانہ حکومت کے خلاف عوامی بغاوت کی شکل اختیار کر لی تھی۔ بہیمانہ ریاستی تشدد کی وجہ سے چار سو سے زیادہ ہلاکتوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ معاشی جمود، بے روزگاری، مہنگائی اور شخصی آمرانہ طرز حکومت سے تنگ آئے عوام نے احتجاجی طلبہ تحریک میں بھر پور شرکت اختیار کرکے ملک پر حکومت کی عملداری ختم کر دی۔ تحریک میں شریک بنگالی نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ۱۹۷۱ کی عوامی بغاوت کے بعد اتنی بڑی عوامی بغاوت کی لہر دیکھی ہےجس نے ہمیں شیخ حسینہ واجد کی آمریت سے نجات دلائی ہے۔
بنگلہ دیش کے آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے اپنے ٹی وی خطاب میں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ جلد ایک عبوری حکومت قائم کر دی جائے گی۔ بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کا باعث بننے والی طلبہ تحریک کے راہنما ناہید اسلم اور انکے ساتھیوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ بنگلہ دیش کے عوام اور طلبہ فوج کی نامزدکردہ عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے صدارتی نطام کی صورت میں عبوری حکومت کو بھی قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ انہوں نے کہا ہے کہ طلبہ ایک نئے اور عوامی بنگلہ دیش کے قیام کے لئے ہر قسم کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔طالب علم راہنماوں نے ملک میں لوٹ مار، تشدد اور فرقہ وارانہ حملوں کی پرزور الفاظ میں مذمت کی۔ طلبہ تحریک کے راہنماؤں نے نوبل انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس کا نام بطور سربراہ عبوری حکومت پیش کیا تھا۔
بنگلہ دیش کے صدر شہاب الدین نے ۶۔ اگست کی شام طلبہ تحریک کے تیرہ راہنما ؤں اور تینوں مسلح افواج کے سربراہوں سے مشاورت کے بعد پروفیسر محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ نامزد کر دیا ہے۔ قبل ازیں بنگلہ دیش کے صدر شہاب الدین نے سیاسی جماعتوں، طلبہ تحریک اور سول سوسائٹی کے نمائندوں اور مسلح افواج کے سربراہان سے ملاقات کے بعد پارلیمان تحلیل کرنے، جلد عبوری حکومت تشکیل دینے اور نئے انتخابات کرائے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر نے بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء، گرفتار طلبہ اور دیگر سیاسی اسیران کی رہائی کا حکم بھی جاری کر دیا ہے۔ یاد رہے کہ سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی نے بنگلہ دیش کے صدر محمد شہاب الدین سے جلد عبوری حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ مطالبہ میں کہا گیا ہےکہ عبوری حکومت تین ماہ کے اندر ملک میں انتخابات کرا ئے اور اقتدار منتخب نمائیدوں کو منتقل کرے۔
شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت میں عسکری اسٹبلشمنٹ کی حکومتی اور سیاسی معاملات میں مداخلت کے آثار بظاہر نظر نہیں آتے تھے۔ جون ۲۰۲۴ میں ایک وفادار جنرل وقار الزمان کو آرمی چیف بنا کر وہ خود کو زیادہ محفوظ اور مضبوط محسوس کر رہی تھیں۔ جولائی ۲۰۲۴میں شروع ہونے والی طلبہ تحریک کو ریاستی تشدد سے کچلنے کے تمام حربے ناکام ہو گئے تھے۔ سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں بہیمانہ تشدد سے امن و امان کی صورت بے قابو ہو چکی تھی۔ حکومت کے خلاف مسلسل عوامی احتجاج نے ملک میں آئین و قانون کی عملداری ختم کر دی تھی اور سکیورٹی ادارے عوامی قوت کے سامنے بے بس ہوتے نظر آئے۔ ایسے حالات میں کمزور جمہوریت سے گزرتے ترقی پذیر ممالک میں عسکری قیادت کی مداخلت اور کردار کھل کر سامنے آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش اس وقت ایسے ہی حالات سے گزر رہا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے آمرانہ طرز حکمرانی نے سیاسی مخالفین کا جینا محال کر دیا تھا۔ سیاسی مخالفین کو جیلوں میں ڈالنے کا راستہ اپنا رکھا تھا۔ شیخ حسینہ واجد نے عملاً ایک جماعتی آمریت قائم کر رکھی تھی۔ جس سے جمہوریت اور جمہوری عمل کمزور ہوتا رہا۔ آمرانہ طرز حکمرانی اور عوامی مسائل سے آنکھیں چرانے کے نتیجہ میں ابھرنے والی احتجاجی عوامی تحریک کے سیلاب میں شیخ حسینہ واجد کی یک جماعتی آمریت غرق ہوتی گئی۔ ان حالات میں آرمی چیف جنرل وقارالزمان نے وفاداری کا لبادہ ہٹا کر شیخ حسینہ واجد کو پنتالیس منٹ کے اندر وزارت عظمیٰ سے مستعفیٰ ہونے کا الٹی میٹم دیا تھا۔
بعض مبصرین بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کا دورانیہ طویل ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ جس میں عسکری اسٹبلشمنٹ کا کردار نمایاں رہنے کا امکان ہے۔ عبوری حکومت کی قوت عوام نہیں ہیں بلکہ عسکری اسٹبلشمنٹ کی حمائت ہے۔ یاد رہے کہ ابھی تک عبوری حکومت کے سربراہ پروفیسر محمد یونس نے انتخابات کے جلد انعقاد کا اعلان نہیں کیا ہے۔
کیا طلبہ تحریک کے راہنما اور سیاسی جماعتیں عبوری حکومت اور اسکی پشت پناہ عسکری اسٹبلشمنٹ پر دباؤ ڈال کر جلد انتخابات کے انعقاد اور جمہوری منتخب حکومت کے قیام کا راستہ ہموار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یا پاکستان کے موقع پرست سیاستدانوں کے نقش قدم پر چل کرعسکری اسٹبلشمنٹ کے دُم چھلہ بن کر اقتدار کی بندر بانٹ میں شامل ہو کر طویل عرصہ کی غیرجمہوری عبوری حکومت کا حصہ بن جائیں گے۔ غیر معینہ عرصہ کی عبوری حکومت کے نتیجہ میں سیاسی اور ریاستی معاملات پر عسکری اسٹبلشمنٹ کے اثرات بڑھنے کے قوی امکانات ہیں۔ جبکہ عسکری اسٹبلشمنٹ کو حکومتی و سیاسی معاملات سے دور رکھنے کا واحد راستہ جلد از جلد انتخابات کا انعقاد اور منتخب حکومت کا قیام ہے۔
بنگلہ دیشی آرمی چیف وقارالزمان کا وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو پنتالیس منٹ کے اندر مستعفیٰ ہونے کا الٹی میٹم دینا اور ٹی وی پر وزیر اعظم کے استعفیٰ کا اعلان کرنا، حکومتی اور سیاسی معاملات میں عسکری اسٹبلشمنٹ کی کھلی مداخلت کے نئے دور کا آغاز ہے۔ اس سےبنگلہ دیش میں ایک نئے ہائی برڈنظام کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ یہ سابق وزیر اعظم حسینہ واجد کے خلاف کامیاب طلبہ اور عوام کی جمہوری تحریک کو بہت بڑا غیر جمہوری دھچکا ثابت ہو گا۔ سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم تو ختم ہو جائے گا ۔ مگر بنگلہ دیشی عوام پارلیمانی جمہوری و سول بالادستی اورآئین و قانون کی حکمرانی سے محروم ہو جائیں گے۔ عسکری اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی میں آدھا تیتر آدھا بٹیر ہائی برڈ سسٹم ملک و عوام پر مسلط ہونے کا راستہ ہموار ہو جائے گا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں