ہم جنس پرستی کے موضوع پر ندا اسحاق کے آرٹیکل کا تنقیدی جائزہ /ستونت کور

ندا اسحاق نے  اپنے مضمون “بیالوجی ہم-جنس پرستی کے متعلق کیا کہتی ہے؟میں   ہم جنس پرستی یا Homosexuality سے متعلق   چند باتیں تحریر کی ہیں جن کا خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے :

٭ہم جنس پرستی کا رحجان کیونکہ دیگر سپیشیز جیسے کہ جانوروں میں بھی دیکھا گیا ہے چنانچہ ہم جنس پرستی ایک ” فطری عمل ” ہے۔
٭ ارتقائی بیالوجی کے مطابق انسان( اور دیگر سپیشیز) کا ہر عضو ارتقائی مراحل سے گزرا ہے اور وقت کے ساتھ اس کا استعمال بدلتا رہا ہے۔
٭ مرد میں زنانہ ہارمونز اور خواتین میں مردانہ ہارمونز کی موجودگی۔
٭ کسی بھی فیلنگ( بشمول ہم جنس پرستی) کو اگنور یا مطعون کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ اسے محسوس اور قبول کیا جائے۔
٭ ہم جنس پرستی انسان کے DNA میں موجود نہیں تاہم ” سائنسدانوں ” کے نزدیک یہ کوئی مرض نہیں ہے۔
۔۔ ۔۔۔۔۔
تو آئیے ان نقاط کا تھوڑی تفصیل میں جائزہ لیتے ہیں :
فطری عمل! ہم جنس پرستی کی حمایت میں واحد ٹھوس دلیل یہی دی جاتی ہے کہ بہت سے جانور جیسے پینگوئن، شیر، ہاتھی ، ڈولفن، گدھ وغیرہ میں ہم جنس پرستی کا رحجان دیکھنے کو ملتا ہے۔۔۔ چنانچہ یہ ایک عین فطری رحجان ہے۔
لیکن۔۔اینیمل کنگڈم میں تو ہمیں اور بھی بہت کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔  سوال  یہ کہ ہے کہ کیا ہم اس سب کو بھی ” فطری ” قرار دیتے ہوئے نارملائز کر سکتے ہیں؟
مثلاً۔۔۔۔
٭ پرائنگ مینٹس، بلیک ویڈو مکڑی، بچھو اور سانپ کی بعض اقسام میں مادہ سیکس کے بعد اپنے نر کو مار کر کھا جاتی ہے۔
اب کیا اس رحجان کو ہم ” عین فطری ” قرار دے کر اختیار کر سکتے ہیں ۔؟

٭ جب شیر بوڑھا یا کمزور ہو جائے تو کوئی جوان شیر اس سے جھگڑ کر اسے کنبے سے مار بھگاتا ہے، اس کی ماداؤں پر اپنا حق جما لیتا ہے اور اس کے بچوں کو مار ڈالتا ہے۔
اب کیا اس رحجان کو ہم ” عین فطری ” قرار دے کر اختیار کر سکتے ہیں  ۔؟

٭ تسمانین ڈیول نامی آسٹریلوی جانور پہلے اپنی مادہ کو مار مار کے ادھ موا کر دیتا ہے پھر اسے گھسیٹ کر لے جاتا ہے بریڈنگ کے لیے۔
اب کیا اس رحجان کو ہم ” عین فطری ” قرار دے کر اختیار کر سکتے ہیں ۔ ؟

٭ بہت سے جانوروں کے اندر انٹر-سپیشیز سیکس کا رحجان دیکھا گیا ہے۔ یعنی ایک سپیشیس کے جانور کا دوسری سپیشیس کے جانور سے تعلق جیسے بھیڑیے اور کایوٹی، لدھڑ اور سِیل ، بندر اور ہرن۔

امید ہے اس بنا پر انسان کا کسی اور جانور کے ساتھ یہی روابط اختیار کرنے کو عین فطری نہیں قرار دیا جائے گا۔

٭ اور نیکرو فیلیاء۔ ۔ یعنی ایک زندہ جاندار کا ایک مردہ جاندار یعنی لاش کے ساتھ تعلق قائم کرنا  اور یہ رحجان بھی مونیٹر چھپکلی، کینگرو اور ٹرکی   سمیت کئی پرندوں میں دیکھا گیا ہے۔
اس طرح تو پھر یہ عمل بھی ” عین فطری ” قرار پائے گا ۔

٭ اور فورسڈ سیکس یعنی ر  یپ تو جانوروں کے ان گنت سپیشیز میں وجود رکھتا ہے۔
امید ہے اب ر  یپ کو ایک عین فطری عمل نہیں قرار دے دیا جائے گا۔

دیکھیے ، کسی جانور کو کچھ کرتا دیکھ کر یہ تصور کر لینا کہ یہ ایک فطری بات ہے ” لہذا قابل عمل ہے ” یہ انتہائی غیر سنجیدہ اور غیر سائنسی اپروچ ہے۔۔
میں نے ر  یپ کی مثال دے کر سمجھایا کہ جو چیز جانوروں کے لیے ایک معمول  کی بات ہے انسان کے لیے ایک بھیانک اور انسانیت سوز جرم ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا پوائنٹ۔
انہوں نے لکھا کہ ” ہر عضو وقت کے ساتھ ارتقائی عمل سے گزرا اور گزرتے وقت کے ساتھ اسکا استعمال بدلتا گیا ۔ انسان کی انگلیاں درخت کو چڑھنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں لیکن آج کا انسان اسے پیانو اور گٹار بجانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ٹھیک یونہی سیکس فطرت نے افزائش نسل (procreation)کے لیے ڈیزائن کیا تھا لیکن آج انسان اسے رشتے بنانےاور پلیژر کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ”
جواب :
یہ تو تین چار باتیں مکس ہو گئیں۔
1- وقت کے ساتھ اعضاء کے استعمال کی تبدیلی؟
٭ ٹھیک ہے۔۔۔ آج سے ایک لاکھ سال قبل ہمارے اجداد اپنے ہاتھ لکڑیاں، پتھر یا جو اوزار اس وقت دستیاب تھے انہیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنے معمولات کرتے تھے اور آج ہم ٹہنی ، پتھر کے بجائے جدید اوزار جیسے ویلڈنگ مشین، ہیئر ڈرائیر، موبائل فون وغیرہ تھام کر اپنے معمولات سر انجام دیتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ٹیکنالوجی بدل گئی لیکن ہاتھ کا فنکشن وہی رہا۔ ۔ نہ تو ان لاکھوں برسوں میں ہمارے ہاتھ کا فنکشن تبدیل ہو کر سونگھنے یا چکھنے میں بدل گیا اور نہ ہی ہم نے کچھ پکڑنے کے لیے کسی اور عضو کا استعمال کرنا شروع کردیا ، مطلب ہم پاؤں سے کچھ نہیں پکڑتے ہاتھ کا ہی استعمال کرتے ہیں۔
لیکن اس بات کا ہم جنس پرستی سے تو کوئی تعلق نہیں بنتا۔

٭ پھر بات آگئی جنس کی تو انہوں نے خود لکھا کہ ” فطرت نے ہمیں جنس اپنی نسل بڑھانے کے لیے دی اور آگے چل کر ہم نے اسے انجوائے منٹ کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔  ”
اوّل – فطرت نے ہمیں جنس نسل کشی کے لیے دی ۔ اس جملے کو چار پانچ مرتبہ دہرا لیں۔۔۔ دہرا لیا؟ ۔۔۔ تو اس کا مطلب ہے سیکس کا بنیادی فنکشن افزائش نسل تھا؟
تو افزائش نسل تو ممکن ہی تب ہے کہ جب پریگننسی کا عمل ہو پائے  اور پریگننسی تب ہی ممکن ہے کہ جب تعلق قائم کرنے والوں میں سے ایک فریق میل ہو اور ایک فیمیل۔
لہذا ان کی اپنی سٹیٹمنٹ کے مطابق ” ہم جنس پرستی ایک قطعاً غیر فطری رحجان ہے ۔ ”

دوم!  انہوں نے کہا کہ ” آگے چل کر ہم نے سیکس کو انجوائے منٹ کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔  ”
مطلب۔ ۔ ؟ انسان نے کچھ عرصہ یعنی چند ہزار یا چند لاکھ سال تک صرف افزائش نسل کے لیے سیکس کیا اور آگے چل کر اس میں ” آرگیزم ” ڈیویلپ ہوگیا؟
یہاں تو اب سائنس نے بھی ہاتھ کھڑے کر دیے ہوں گے۔ ۔ کیونکہ بحیثیت سپیشیز شروع سے ہی انسان آرگیزم کی صلاحیت سے لیس ہے ۔ اگر کوئی ایسی تحقیق ہے کہ انسان نے موخر زمانے میں جا کر آرگیزم ڈیویلپ کیا تو میں کمنٹس میں جاننا چاہوں گی۔
گویا شروع سے ہی سیکس کے یہ دونوں فنکشن وجود رکھتے تھے یعنی افزائش نسل اور آرگیزم۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہم جنس پرستی ارتقائی عمل ہے؟
تو اس کا رَد تو انہوں نے خود ہی اپنی تحریر میں کر دیا ۔ انہوں نے لکھا کہ :
ایم-آئی-ٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی کی سینئر ماہرِ جینیات انڈریا گینا اور انکی ٹیم نے تقریباً پانچ لاکھ لوگوں کا DNA ٹیسٹ کیا کہ شاید ہم-جنس پرستی کے حوالے سے کسی خاص “gay gene” کی کھوج لگائی جاسکے لیکن اس ریسرچ میں نہ ہی کوئی “gay gene “ سامنے   آیا اور نہ ہی “straight gene۔
گویا بقول ان کے ارتقاء نے انسان میں کوئی ” ہم جنس پرست جینز” نہیں ڈیویلپ کیں۔
مطلب ہم جنسی پرستی کو ” ارتقائی عمل ” قرار دیا جانا ” ناممکن ” ہے۔
لیکن۔۔۔ ساتھ ہی لکھا کہ انسان میں کوئی ” Straight Gene ” بھی نہیں!
مطلب انسان کو سٹریٹ ثابت کرنے کے لیے ایک جین کی کھوج ضروری تھی؟
یعنی ہم کہیں کہ ” کوے کے جسم میں ہمیں کوئی سرخ پگمنٹ نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی کالا پگمنٹ۔  ”

بھئی کوا ہے ہی سیاہ۔ ۔ صدیوں زمانوں سے سیاہ ہے۔  اب کوے پر انسان کہے کہ ” اس میں گو کہ کوئی گلابی جین نہیں مگر ساتھ ہی کوئی کالی جین بھی تو نہیں ہے  لہذا نواز اصلاً نہ تو گلابی ہے نہ ہی سیاہ “.
مطلب یہ سٹیٹمنٹ تو سائنس کے 100 مربع کلومیٹر کے قریب سے بھی نہیں گزرتی۔۔

جانوروں میں ہم جنس پرستی ارتقائی نہیں بلکہ ایک اضطراری فعل ہے۔
مینڈک اور غوک کے جنسی رحجان کے بارے میں مَیں نے ایک آرٹیکل لکھا تھا کہ وہ راستے میں آنے والی ہر چیز کو ہی مادہ سمجھ لیتے ہیں۔  یہ آرٹیکل پڑھنے پر آپ کو اندازہ ہو جائےگا کہ جانوروں میں کہ عمل صریح ایک اضطراری فعل ہے نہ کہ ارتقائی :

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہارمونز۔۔۔ آگے لکھتی ہیں کہ :
اسٹروجن (جو کہ زنانہ ہارمون ہے) مردوں میں بھی ایک خاص مقدار میں پایا جاتا ہے جبکہ ٹیسٹوسٹیرون (جو کہ مردانہ ہارمون ہے) اتنی ہی خاص مقدار میں خواتین میں پایا جاتا ہے۔
جواب :
تو اس کا ہم جنس پرستی سے کیا تعلق ہے؟
یہ تو ایک نارمیلٹی ہے۔
مطلب یہ تو بیلنسڈ ہارمونز ہیں۔
کیا یہاں ہارمونل انبیلنس کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے کہ مرد میں ٹیسٹوسٹرون یا عورت میں  اس کے عدم توازن کا ہم جنس پرستی سے کوئی لینا دینا ہے؟
کسی بھی ہارمون کی بات کر لیں۔  مثلاً کورٹیسول ۔ مرد و خواتین دونوں میں یہ ہارمون پیدا ہوتا ہے ۔  کیا یہ “کسی طرح سے” ہم جنس پرستی کا جواز ہوگا؟
” مرد کے جسم میں بھی قدرت نے دو عدد آنکھیں فٹ کی ہیں۔  عورت کے جسم میں بھی قدرت نے دو عدد آنکھیں نصب کی ہیں ۔ پس ثابت ہوا کہ ہم جنس پرستی ایک درست عمل ہے۔ ”
یعنی کنکشن کہیں سے جڑ نہیں پا رہا ۔
ایسٹروجن، ٹیسٹوسٹیرون اور پروگسٹیرون مرد و خواتین دونوں میں پائے جاتے ہیں،لیکن۔۔۔۔
مرد و خواتین میں ان ہارمونز کی پروڈکشن کے مقامات بھی مختلف ہیں۔۔۔ ان کی بلڈ کنسنٹریشن بھی مختلف  اور جسم کے آرگنز کے ساتھ ان کا انٹریکشن بھی مختلف ہے مرد اور خواتین میں۔
اب جیسے مرد میں ٹیسٹوسٹرون کی پروڈکشن کا مقام ٹیسٹیز ہے جبکہ عورت میں اووریز سمیت چند مقامات پر اس ہارمون کی پروڈکشن ہوتی ہے۔
کچھ یہی کیفیت اسٹروجن کی ہے۔۔۔ اور اسی طرح دیگر !!
تو یہ تو ایک نارملٹی ہے۔
ہاں اگر ہارمونل انبیلنس کی بات کی جا رہی ہو جیسے مرد میں اگر ٹیسٹوسٹرون کی پروڈکشن کم ہورہی ہو  تو اس کے بال گرنے لگتے ہیں، جنسی صلاحیت گھٹ جاتی ہے اور مسلز گھٹنے لگتے ہیں۔
یعنی اگر ایک مرد ٹیسٹوسٹرون کی کمی کا شکار ہے اور اپنی مردانگی کھو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے پراپر ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔ ۔ نا  کہ ہم جنس پرستی کی حمایت میں لیکچرز کی۔ ۔ ہارمونل انبیلنس انسان کی زندگی تباہ کر سکتا ہے۔  یہ ایک مرض ہے جسے سنجیدہ لینا چاہیے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آخری پوائنٹ۔۔  ” کسی بھی فیلنگ کو اگنور کرنا یا دبانے سے بہتر ہے کہ اس پر ریسرچ کی جائے اسے محسوس کیا جائے یا سمجھا جائے۔”
جواب :
” ذاتی خواہش، رحجان یا فیلنگ ” کی بنا پر کسی فعل کو نارملائز نہیں کیا جاسکتا۔

یہ جتنے بھی ” سیریل کلرز” ہیں ان کے انٹرویوز سنے یا پڑھے جائیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ان میں سے 99% وہ ہیں کہ جن کے مطابق ” کسی کو قتل کرنا میرے دل کی آواز تھی یا ایک منفرد فیلنگ تھی کہ ہمیں کسی کا خون کر کے سکون ملتا تھا۔ ”
یہ کونسی سائنس ہے یار؟
بندہ کہے میں نشہ کرتا ہوں، ڈرگز کا استعمال کرتا ہوں تو مجھے بڑی تسکین آمیز فیلنگز آتی ہیں۔ ۔ چنانچہ نشہ کی مخالفت کرنے کے بجائے نشہ کرنے والوں کی ضروریات اور رحجان کو سمجھنا چاہیے۔
اس طرح تو دنیا میں ہر جرم ہر غلیظ حرکت ہر برائی ہی جواز پانے لگے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری بقاء کا راز :
٭ دنیا میں کچھ جانور ایسے ہیں جو تنہا رہتے ہیں جیسے باگھ، جیگوار، تیندوا وغیرہ۔ ۔
٭ کچھ جانور ہیں جو جوڑے کی شکل میں رہتے ہیں جیسے راج ہنس، پفن، لو برڈز، کایوٹی وغیرہ۔
٭ کچھ جانور ہیں جو خاندان کی شکل میں رہتے ہیں جیسے شیر، لگڑ بگھے، میرکیٹس، جنگلی کتے و دیگر۔
٭ کچھ جانور ہیں جو کالونی کی شکل میں رہتے ہیں جیسے چیونٹیاچیونٹیاں، دیمک، شہد کی مکھی۔
٭ کچھ جانور ہیں جو جھُنڈ کی شکل میں رہتے ہیں جیسے زیبرا، ولڈبیسٹ، رینڈئیررینڈئیر ، ہرن وغیرہ۔
اور ہم انسان۔۔۔۔ کرہ ارض پر اپنے اولین وقت سے اب تک ” خاندان ” کی شکل میں رہتے آئے ہیں۔۔۔ پتھر کے دور سے اب تک انسان خاندان کے بغیر سروائیو نہیں کر سکتا۔۔۔۔خاندان ہماری بقاء ہے۔۔۔ انسان ایک معاشرتی سپیشیس ہے۔
اور خاندان کی تشکیل ، بقاء اور افزائش ممکن ہی تب ہے کہ جب ہم ایک Straight زندگی گزاریں یعنی مرد کا تعلق عورت کے ساتھ اور عورت کا تعلق مرد کے ساتھ۔۔۔۔ کیا ہم جنس پرستی کے زریعے افزائش نسل ممکن ہے؟
یا ایک خاندان کے سب افراد اگر ہم جنس پرستی کی جانب مائل ہو جائیں تو وہ خاندان آنے والے وقت میں اپنا وجود برقرار رکھ پائے گا۔۔۔؟
تو انسان کی بقاء خاندان اور خاندان کا وجود مرد و عورت سے ہے۔۔۔ نہ کہ مرد و مرد یا عورت و عورت سے!

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ ‘سائنس کی دنیا گروپ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply