یہ جھوٹ ہے کہ ” آرٹ فلمیں سب کیلئے نہیں ہوتیں”
یہ بلاشبہ سب کیلئے ہوتی ہیں البتہ سب کی سمجھ میں نہیں آتیں۔اور اگر آتی بھی ہیں تو ایک ہی طرح سے نہیں آتیں۔
آرٹ کی یہی خوبصورتی ہے کہ ہر فن پارا اس فن سے دلچسپی رکھنے والے ذہنوں پر ایک الگ ہی طرح سے اور الگ ہی نوعیت سے اثر انداز ہوتا ہے۔
اس آرٹ میں نجانے کونسی ایسی سائنس پوشیدہ ہے کہ فنونِ لطیفہ لطافتوں کو سمجھنے،جذب کرنے اور سراہنے والے ذہنوں کو الگ الگ طرح سے ہی ہِٹ کرتا ہے۔ ایک ایسی زبان جو لفظوں سے بالاتر ہو وہ ہر کسی کو الگ الگ طرح سے ہی سمجھ میں آتی ہے۔
جس قدر آپ باریکیوں پر غور کرنے،انھیں سمجھنے ، سلجھانے اور پھر اپنے اندر جذب کرنے کے قابل ہونگے اسی قدر آپ اس فن پارے سے جڑتے جائیں گے۔
یہاں پر میں ایک بات مینشن کرنا چاہونگا کہ آرٹ کی سمجھ انفارمیشنز اور کونیکشنز کے بنا ممکن ہی نہیں۔ فطرت کی پکار اسکی کمیاں اور کوتاہیاں بھی آرٹ کی ایک فارم ہیں۔جو انسان کی مکمل سائنس کو سمجھاتی ہیں۔
کہا جاتا ہے
غذائی قلت سٹارویشن کی وجہ بن جاتی ہے
پانی کی کمی ڈی ہائیڈریشن کا سبب بنتی ہے
اور فطری ڈیزائر پوری نہ ہو تو ڈپریشن جنم لیتا ہے۔۔۔۔
ڈپریشن یعنی دیوانہ پن۔۔ !
اور یہ دیوانہ پن اکثر اوقات طرح طرح کی فینٹیسیز کو جنم دیتا ہے ۔۔کبھی کبھی الوژن کو بھی ۔۔۔سائیکالوجی کی لینگویج میں اسے شیزوفرینیا کا نام دیا جاتا ہے۔ ۔شیزوفرینیا ایک ایسی دماغی حالت ہے جس میں انسان کو وہ سب دکھائی اور سنائی دینے لگتا ہے جو حقیقت میں نہیں ہوتا۔ اور وہ شیزوفرینیا کے پیشنٹ کیلئے بالکل اتنا ہی حقیقی ہوتا ہے جتنا ایک عام انسان کیلئے ایک حقیقی واقعہ۔ ۔
اسی شیزوفرینیا کو ڈسکس کرنے کیلئے آج میں ڈیٹیل ری ویو کرنے جا رہا ہوں باریکیوں سے گھری ہوئی ایک مووی “کملی” کا۔ جسے بنانے میں سرمد کھوسٹ کو پورے چھ سال لگ گئے۔
مووی میں لیڈ رول کر رہی ہیں صبا قمر ایز حنا
انکے بالمقابل ہیں حمزہ خواجہ ایز املتاس
مووی میں دو اور کریکٹرز بھی ہیں جو بہت اہم ہیں ثانیہ سعید ایز سکینہ
اور نمرہ بوچھا ایز زینت۔۔
سب سے پہلے میں آپکو مووی کی شارٹ سی سٹوری سنا دیتا ہوں۔اسکے بعد اس پہ بات کرتے ہیں کہ مووی میں کون سا سین کس وجہ سے دکھایا گیا ۔
کملی کہانی ہے ایک لڑکی حنا کی جو شادی شدہ ہے اور جوان بھی لیکن اسکا شوہر شادی کے محض دو ماہ بعد ہی کمائی کی غرض سے بحرین چلا جاتا ہے اور کسی ایکسیڈینٹ کی وجہ سے راستے میں ہی اسکی ڈیتھ ہو جاتی ہے لیکن حنا آج تک اس بات سے لاعلم ہے کہ اسکا شوہر مر چکا ہے ۔وہ اپنی ایک نابینا نند کیساتھ رہ رہی ہوتی ہے جو جانتی ہے کہ اسکا بھائی اس دنیا میں نہیں۔اور آٹھ سال پہلے ہی مر چکا ہے لیکن اس نے اپنی بھابھی کو اس بات سے لاعلم رکھا ہوا ہے ۔
گاؤں میں ایک اور ادھیڑ عمر کپل دکھایا گیا ہے۔۔
جو ملک صاحب اور ملکانی کا ہے۔
ملک صاحب کا کردار ادا کر رہے ہیں عمیر رانا جو اپنی بیوی کی ڈھلتی ہوئی جوانی کے باعث نوجوان لڑکیوں میں خاص کشش محسوس کرتے ہیں۔
اور ملکانی کا رول پلے کر رہی ہیں نمرہ بوچھا۔ ۔جن کا نام ہے زینت باجی۔۔ جو ذہنی طور پر کافی ڈسٹرب ہیں اور اپنے کھوئے ہوئے شباب کو ملک صاحب کی لاپرواہی کی وجہ سمجھتی ہیں ۔
وہ گاؤں کی کچھ لڑکیوں کو طرح طرح کے پہناوے پہنا کر مختلف پوز میں پینٹ کرتی رہتی ہیں ۔انہی لڑکیوں میں ایک لڑکی حنا ہے۔ ۔جو ہمیشہ زینت باجی کی پینٹنگز میں نمایاں رکھی جاتی ہیں۔۔۔چونکہ زینت باجی کو حنا کی آنکھوں میں وہی اشتہا اور ویرانی نظر آتی ہے جو انکی اپنی ذات کا بھی حصہ ہے۔وہ حنا سے کافی لگاؤ رکھتی ہیں ۔
گاؤں کی عورتیں بار بار حنا کو احساس دلاتی ہیں کہ اسکی عمر گزر رہی ہے اور جلد ہی اسکی جوانی بھی ڈھل جائے گی۔
وہ اسکی نند سکینہ پہ زور دیتی ہیں کہ وہ کب تک اپنے بھائی کا راستہ دیکھے گی اسے حنا پر ترس کھانا چاہیے اور اسکی زندگی کا کوئی مناسب فیصلہ کر دینا چاہیے۔۔۔۔
سکینہ اس بات پر آگ بگولہ ہو جاتی ہے اور ہر اس بندے کی انسلٹ کرتی ہے جو اس بارے میں بات کرتا ہے۔ وہ کہتی ہے وہ حنا کا نکاح پر نکاح کر کے گناہ کبیرہ کا ارتکاب نہیں کر سکتی اور حنا کو بھی مشورہ دیتی ہے کہ اسے صبر سے اپنے شوہر کا انتظار کرنا چاہیے اور اسکی غیر موجودگی میں اپنی عزت کی حفاظت کرنی چاہیے ۔
حنا جو بظاہر بہت سادہ اور معصوم سی لڑکی ہے لیکن وہ اپنی خواہشات کا گلہ گھونٹ گھونٹ کر تھک چکی ہے ۔
ایک بار زینت باجی کے گھر سے آتے ہوئے اسے جنگل میں ایک مور نظر آتا ہے وہ اسکا پیچھا کرتے ہوئے ایک پانی کے تالاب تک پہنچتی ہے۔ جس میں اسے ایک مور پنکھ نظر آتا ہے ۔۔
وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش میں پانی میں گر جاتی ہے اور ڈوبنے لگتی ہے۔۔۔۔
وہاں پر ایک لڑکا اسے بچاتا ہے جسکا نام ہے املتاس۔ ۔
حنا اس وقت تو وہاں سے بھاگ آتی ہے۔۔۔۔لیکن اسکے بعد وہ بار بار بیخود ہو کر املتاس سے ملنے جاتی ہے۔
اسی دوران اسے املتاس سے محبت ہو جاتی ہے ۔
حنا جب بھی املتاس سے ملنے جاتی ہے اسکا ٹکراؤ بار بار ایک معصوم سی گونگی بچی کیساتھ ہوتا ہے جو اشاروں سے اسے ایسا کرنے سے روکتی ہے ۔
ایک میلاد کی محفل میں ایک عالمہ ایک سوال کے جواب میں بتاتی ہیں کہ اگر کسی عورت کا شوہر لمبے عرصے کیلئے لاپتہ ہو جائے تو اسے مکتوب الخبر کہا جاتا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ چار سال تک اپنے شوہر کا انتظار کرے اور اسکے بعد عدالت سے رجوع کرکے خلع لے لے اور جس سے چاہے اس سے نکاح کر لے۔
یہ بات سن کر ایک بار پھر سے حنا کی نند سکینہ کو بڑی تپ چڑھتی ہے اور وہ اسے آئندہ کے بعد ایسی محفلوں میں شامل ہونے سے منع کرتی ہے ۔
عالمہ کی بات سن کر حنا کے سر سے ایک نامعلوم بوجھ ہٹ جاتا ہے اور وہ بھاگی بھاگی املتاس کے پاس جاتی ہے ۔اور اسے بتاتی ہے کہ وہ آزاد ہے اور اب وہ دونوں شادی کر سکتے ہیں۔۔۔دوسری طرف زینت باجی اپنے شوہر کا رشتہ لیکر حنا کے گھر پہنچ جاتی ہیں۔
اس بات پہ سکینہ شدید قسم کا ردِ عمل ظاہر کرتی ہے۔۔
وہ زینت کو گھر سے نکالنے کے بعد حنا کو مار پیٹ کرتی ہے کہ وہ روز تیار ہو کر اسی لیے ملک صاحب کے گھر جاتی ہے تاکہ انہیں رِجھا سکے۔ ۔اور دراصل وہ بہت بڑا گناہ کر رہی ہے۔۔۔
وہ تو اسکے بھائی کے نکاح میں ہے۔
اس پہ حنا بھی اسے ٹھیک ٹھاک سنا دیتی ہے کہ کون سا نکاح جو صرف نام کی حد تک ہے اور اسے آٹھ سالوں سے زندگی کے ہر سکھ سے دور رکھے ہوئے ہے،وہ مزید اس قید میں نہیں رہ سکتی۔۔ وہ ایک بار پھر سے املتاس کے پاس جاتی ہے اور اسے کہتی ہے کہ وہ اسے سکینہ کی قید سے دور لے جائے اور ملک صاحب سے بچا لے۔ ۔لیکن اسکے ساتھ وہ یہ خدشہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ املتاس کے گھر والے اسے قبول نہیں کرینگے۔
املتاس اسے تسلی دیتا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں اسکے گھر والے اسے قبول کر لیں گے ۔۔حنا اس سے وعدہ کر کے واپس گھر جاتی ہے کہ وہ سکینہ کے شک کو دور کر کے واپس آئے گی جو اسکے دامن پہ ملک صاحب کا داغ لگا رہی ہیں جبکہ وہ تو املتاس سے محبت کرتی ہے ۔
دوسری طرف سکینہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے اور وہ زینت کے گھر جا کر ملک صاحب کیلئے حنا کے رشتے کیلئے ہاں کر دیتی ہے ۔حنا جب گھر پہنچتی ہے تو سکینہ اسے ثقلین کے دوست کا خط اور ایک ڈیتھ سرٹیفیکیٹ دکھاتی ہے ۔اور بتاتی ہے کہ ثقلین تو آٹھ سال پہلے ہی مر چکا ہے۔
وہ حنا کو تسلیاں دیتی ہے اور کہتی ہے آج سے اسکی عدت شروع ہے اور اسے چار ماہ دس دن تک کسی سے بھی نہیں ملنا ۔۔اسکے بعد وہ اسکی شادی اسکی مرضی سے کروا دے گی ۔
وہ اسے ایک کمرے میں بند کر دیتی ہے جہاں پر وہ اسے کھڑکی سے کھانا وغیرہ دیتی ہے۔ دو دن تک تو حنا صبر سے کام لیتی ہے لیکن اسے بار بار املتاس کا خیال آتا ہے جس سے وہ واپس آنے کا وعدہ کر کے آئی تھی،اسے لگتا ہے وہ اسکے انتظار میں ہو گا اور کہیں مایوس ہو کر واپس نہ چلا جائے۔۔۔
وہ چیختی اور چلاتی ہے کہ اسے یہاں سے باہر نکالا جائے۔
سکینہ اسے صبر کرنے کا کہہ کر سونے چلی جاتی ہے۔
حنا جب چلا چلا کر تھک جاتی ہے تو وہ سکینہ سے کہتی ہے اگر اس نے اسے باہر نہ نکالا تو وہ خود کو آگ لگا دیگی۔
سکینہ کے اسکی بات پہ کان نہ دھرنے پہ حنا تیل گرا کر کمرے کو آگ لگا دیتی ہے۔
جس پہ سکینہ کو مجبوراً دروازہ کھولنا پڑتا ہے ۔
حنا لالٹین اٹھا کر املتاس سے ملنے جنگل کی طرف بھاگتی ہے۔۔۔
سکینہ کے روکنے پر وہ اسے دھکا دیتی ہے اور لالٹین اسکو دے مارتی ہے ۔
جس سے سکینہ کے بستر کو بھی آگ لگ جاتی ہے۔۔۔
حنا لنکا جلانے کیے بعد ننگے سر اور ننگے پاؤں املتاس کی طرف بھاگتی ہے ۔
گاؤں کے لوگ شور سن کر اور آگ دیکھ کر انکے گھر کی طرف بھاگتے ہیں ۔انہی میں سے کچھ لوگ حنا کو جنگل کی طرف بھاگتے دیکھ کر اسکا پیچھا کرنے لگ جاتے ہیں ۔
حنا بھاگتی ہوئی جنگل میں موجود اس کوٹھڑی میں داخل ہوتی ہے جس میں املتاس کا ٹھکانہ ہوتا ہے۔۔ وہ املتاس کو کہتی ہے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر آگئی ہے۔۔۔اسے اس قید میں مزید نہیں رہنا،املتاس اسے یہاں سے بہت دور لے جائے۔۔
لیکن املتاس دم سادھے اسکی باتیں سنتا رہتا ہے۔۔۔
حنا رو رو کر اور بلک بلک کر اسے کہتی ہے کہ وہ جلدی کرے کیونکہ گاؤں کے کچھ لوگ اسکا پیچھا کر رہے ہیں۔۔۔لیکن املتاس کوئی بھی جواب نہیں دیتا۔۔۔
وہ اسے جھنجھوڑ ڈالتی ہے کہ وہ کیوں نہیں اٹھ رہا۔
اتنے میں گاؤں کے لوگ انکے سر پر پہنچ جاتے ہیں ۔
ان میں سے ایک بندہ کوٹھڑی سے باتوں کی آواز سن کر کہتا ہے اسے پہلے سے شک تھا کیونکہ اس نے کئی بار حنا کو جنگل کی طرف آتے ہوئے دیکھا ہے۔
حنا املتاس کو گم سم اور خاموش پا کر وحشت کا شکار ہو جاتی ہے۔۔۔۔اور اسکا ہاتھ پکڑ کر دانتوں سے کاٹ ڈالتی ہے۔
اور تب اسے احساس ہوتا ہے کہ املتاس تو کچھ محسوس ہی نہیں کر رہا۔
اتنے میں گاؤں کے لوگ کوٹھڑی کا دروازہ کھول دیتے ہیں اور حنا کو اکیلا پا کر شرمندہ ہو جاتے ہیں کہ یہاں تو کوئی ہے ہی نہیں۔۔
دراصل املتاس جسٹ ایک امیجینشن ہوتا ہے۔۔۔حنا کا الوژن!جسے حنا نے من ہی من اپنی خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہو کر تراشا ہوتا ہے۔حنا اٹھ کر وہاں سے واپس اپنے جل کر راکھ ہوتے ہوئے گھر کی طرف جاتی ہے۔۔۔جہاں اسکی نند بیٹھی اسکا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔
اور اسے دیکھتے ہی کہتی ہے۔۔۔وہ اتنی دیر سے کیوں آئی ہے۔
حنا اسکی گود میں سر دیکر کہتی ہے۔
وہ اسے شہزادی ہرملہ کی وہی داستان سنائے جو اس نے تب سنائی تھی جب اسے ایک بار تیز بخار نے جکڑ لیا تھا۔
سکینہ اسے وہی کہانی سنانا شروع کر دیتی ہے۔۔۔کہ کیسے شہزادی ہرملہ پر اسکی سوتیلی ماں نے کالا جادو کیا ہوتا ہے کہ جب بھی وہ بہتے پانی کو چھوئے گی وہ بہتہ پانی اسکی بربادی کی وجہ بن جائے گا۔۔۔لیکن ایک دن شہزادی ہرملہ پھسل کر پانی میں گر جاتی ہے اور پانی اسے نگلنے لگتا ہے۔
وہاں پر ایک شہزادہ اسے بچاتا ہے۔لیکن پانی سے باہر آتے ہی وہ اپنے مسیحا کو دیکھے بغیر بے ہوش ہو جاتی ہے۔۔۔اور جب وہ ہوش میں آتی ہے تو وہ املتاس کے پیڑ کے نیچے اکیلی ہوتی ہے۔۔۔
شہزادہ گم ہو چکا ہوتا ہے ۔
یہ سن کر حنا اٹھتی ہے اور پانی کے تالاب میں جا کر لیٹ جاتی ہے۔ ۔
اور یہیں پر فلم اینڈ ہو جاتی ہے۔
☆☆☆
اس فلم میں ہرچیز کو اتنی باریکیوں کیساتھ پیش کیا گیا ہے کہ ہر بار دیکھنے پر آپ پہ ایک نیا ہی در وا ہو گا ایک نیا ہی کنکشن کھلے گا۔ سارے سینز ڈئیلاگز اور سچویشنز ایک دوسرے سے بیحد ریلیونٹ ہیں۔
مووی میں تین چیزوں کو ڈسکس کیا گیا ہے۔۔۔
بقا۔۔
ڈیزائر
اور ایڈیکشن
جیسا کہ ثانیہ سعید اپنے اندھے پن کی وجہ سے اپنے جینے کیلئے اپنی بھابھی حنا سے آٹھ سال تک جھوٹ بولتی دکھائی گئی ہیں۔۔ زینت باجی اپنے شباب کی بقا کی جنگ لڑتی دکھائی گئی ہیں۔۔۔
اور صبا قمر یعنی حنا اپنی اہلیت اور قابلیت کی۔
یعنی وہ سِٹل زندگی کو جینے اور نئی زندگی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
مووی میں تین سینز ہیں جن میں انڈے کا ذکر ہوا یا دکھایا گیا۔
اگر ہم بیضے یعنی انڈے کو زندگی کی ایک اہم اکائی مانیں تو یہ تینوں سینز بہت کچھ سمجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔۔۔
پہلا سین جسمیں حنا کے سامنے ذکر کیا جاتا ہے کہ زینت باجی کے انڈے ختم ہو گئے ہیں۔۔۔یعنی اسے احساس دلایا جا رہا ہے۔۔۔
یو آر سٹل ایبل۔۔۔۔تم ابھی تک فرٹیلٹی کے لائق ہو۔۔دوسرے سین میں املتاس ایک انڈے کو گرنے سے بچا کر دوبارا گھونسلے میں رکھتا ہے۔۔۔یعنی صبا قمر یہ سپوز کر لیتی ہے کہ وہ اس ایبلٹی کو بچا سکتا ہے۔
تیسرے سین میں حنا کے مہندی پر جاتے وقت اسکی نند سکینہ انڈے سے اسکی نظر اتار کر دیوار پہ پھوڑتی دکھائی دیتی ہے
یعنی وہ اپنی بھابھی کی اس ایبلٹی سے خائف ہے۔
مووی میں جو تین نام استعمال کیے گئے ہیں تین مختلف پودوں کے ہیں
املتاس،حنا، اور ہرملہ
وہ بڑھتے ہیں، بڑھنا جانتے ہیں۔اور ہر رکاوٹ کے باوجود بڑھنا بھی چاہتے ہیں ۔
اسمیں تین جانور بھی دکھائے گئے
مور۔ ۔جو آدم اور حوا کی سٹوری میں بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہوا ملتا ہے۔اور انکو بہکانے کا سبب بنا یہاں بھی ویسا ہی ایک مور حنا کو بہکاوے کی طرف لیکر جاتا ہے۔۔
ایک خرگوش جو خطرے کی بو سونگتے ہی جنگل کی طرف بھاگ جاتا ہے۔۔۔یہ سین مووی کے بلکل سٹارٹ میں دکھایا گیا ہے۔۔جب حنا کو چکر ویو میں لیٹا دکھایا گیا۔۔۔یہاں پہ خرگوش اسکے اندر کی جنگلی خواہش اور فطرت کو ظاہر کرتا ہے۔
مچھلی جو پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ۔
اور یہ سین تب دکھایا گیا ہے جب سکینہ حنا سے ثقلین کے آنے کے بارے میں جھوٹ بولتی ہے اور اسکے ضبط کو مزید مشکل میں ڈال دیتی ہے۔۔۔۔یہاں پر مچھلی حنا کی فطرت اور ذات کو ظاہر کرتی ہے۔
ایک بلی کا بچہ جو مار دیا جاتا ہے ۔جسے حنا نے بارش میں بھیگ کر مرنے سے بچایا ہوتا ہے۔ یہاں بلی کا بچہ زندگی کی نمو کو ظاہر کرتا ہے اور یہ سین عین تب دکھایا جاتا ہے جب حنا کے پیریڈز سٹاپ ہوتے ہیں۔
مووی کے آخری سینز انسان کو دہلا کر رکھ دیتے ہیں۔
اور یہی اسکے ٹاپک شیزوفرینیا کی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ دیکھنے والے اچھے بھلے لوگ بھی فلم کے اینڈ تک مسلسل اسی بات کا یقین کیے رکھتے ہیں جو اصل میں ہے ہی نہیں۔
حنا کا بند کوٹھڑی میں املتاس کے ہاتھ پر کاٹنا اور اسکو بےحس پانے کے بعد اتنے سٹرانگ ایکسپریشنز دینا واقعی قابلِ تعریف ہیں ۔اگر ہم حنا کو کوئی سی بھی خالص عورت مان لیں تو اسکی فطری کمزوری اس پہ اس قدر حاوی ہو سکتی ہے کہ اسے کملی بنا دے۔اپنی اسی دیوانگی کے عالم میں وہ املتاس کا الوژن تراشتی ہے۔ جسکے ساتھ گزارے جانے والے لمحات میں وہ ہر اس چیز کو شامل کرتی ہے جس نے اسکے دماغ کو ہٹ کیا ہوتا ہے ۔
اپنے تمام تر جذبات کو ۔
اپنی کمزوری اور طاقت کو ۔
ہر وہ چیز جس پہ اس نے غور کیا ہوتا ہے ۔۔وہ مختلف زاویوں سے اسکے الوژن کا حصہ بن جاتی ہے۔
انڈے ، شیر اور ہرن کا شکار
املتاس کی تصویر ۔املتاس کا نام
پانی کو چھونے پر ایک کرز ، کسی کا اس مشکل سے نکالنے کا سبب بننا۔ ۔ثانیہ سعید کی سنائی جانے والی سٹوریز اس پہ بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔
کیونکہ اپنے شوہر کے آٹھ سال کے طویل انتظار کے بعد وہ اندر سے اس قدر خالی ہو چکی ہوتی ہے۔۔۔کہ محبت کی ہر کہانی ہر واقعے میں خود کو شامل کر لیتی ہے۔ سہیلی کے منگیتر کو کِس کرنے سے لیکر زینت باجی کے شوہر کو انھیں باتھ ٹب سے باہر نکالنے کی کوشش تک اسکے دماغ پہ چھپ جاتی ہے۔
مووی میں تشبیہات کی بھی زبردست عکاسی کی گئی ہے۔۔ سکینہ کی حنا کو سنائی جانے والی سٹوری میں ایک تارے کی ایک مسافر سے محبت میں، صحرا حنا کی ڈیزائر کو رپریزینٹ کرتا ہے۔۔۔۔
بادل ثانیہ سعید کی اپنی بھابھی کی دیکھ بھال کو اور تارا خود حنا کو
اور مسافر ثقلین اور املتاس دونوں کو۔۔ کیونکہ دونوں کو ہی مسافر کے روپ میں دکھایا گیا ۔
مووی میں تین کریکٹرز ایسے ہیں۔۔۔جو نہ ہو کر بھی اپنا آپ محسوس کرواتے ہیں۔
ثقلین۔۔۔۔۔۔ایک ڈیزائر کی آگ میں جھلستی عورت کی آس یا جھوٹی تسلی کو
ایک چھوٹی اور گونگی بچی
جو اس عورت کے اندر پلنے والا دباؤ ہے
املتاس جو اسکی ڈیزائر ہے
فلم کا آخری سین بہت ہی زیادہ دلچسپ ہے۔
ڈیزائر کی پاور جو ہر چیز حتٰی کہ خود کو بھی جلا دینے پر مجبور کر سکتی ہے۔ ۔ڈیزائر پورا نہ ہونے پر جنونی حالت میں دیوانگی کی حدووں کو چھو کر واپس آنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ۔حنا یہ جان لیتی ہے کہ املتاس ایک الوژن سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔کیونکہ حواس نہ ہوں تو ڈیزائر محسوس ہی نہیں ہوتی۔۔
اور جب ہر چیز ختم ہو چکی۔۔۔اور جل کر راکھ ہو چکی۔۔
تو بھی حنا کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔۔۔وہ ایک بار پھر سے پانی کو چھو کر وہی کرز لینا چاہ رہی ہے۔
یعنی اسے حقیقت سے کوئی سروکار نہیں وہ ایک بار پھر سے وہی الوژن چاہ رہی ہے۔
حالانکہ زینت باجی نے اسے خبر دار کیا تھا۔
جس میں پھنسی ہو اس سے باہر نکلو۔۔
لیکن کہانی جس چکر ویو سے شروع ہوئی تھی،وہ اسی پہ آ کر ختم ہو جاتی ہے۔۔ یعنی حنا اس سے باہر ہی نہیں آنا چاہتی۔۔۔
یہاں پر ایک سوال بہت اہم ہے۔۔
اگر حنا کو صرف اپنی ڈیزائر ہی پوری کرنی تھی۔۔۔تو پھر صرف املتاس ہی کیوں۔ ؟
ملک صاحب کیوں نہیں۔
جنکی بیوی خود چل کر حنا کا رشتہ لینے آتی ہے ۔
اسکا جواب بھی زینت باجی کی بات میں پوشیدہ ہے ۔
اس سے نکل آؤ ورنہ اس تکلیف کی عادی ہو جاؤ گی ۔
اسی تکلیف سے جسکو سکینہ جھوٹی کہانیاں سنا کر دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
جسکو زینت خوبصورتی اور شباب کو پینٹ کرکر کے دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
حنا بار بار الوژن کا سہارا لیکر اس اذیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سچ کہا جاتا ہے۔۔
غذائی قلت سٹارویشن کی وجہ بن جاتی ہے
پانی کی کمی ڈی ہائیڈریشن کا سبب بنتی ہے
اور فطری ڈیزائر پوری نہ ہو تو ڈپریشن جنم لیتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں