ہم نے تہران کے حوالے سے تمہیدی گفتگو میں لکھ ڈالا تھا کہ “مسلمان سو رہے ہیں” ، لیکن بڑھتا ہوا وقت تو اس کے برعکس گواہیاں دے رہا ہے ، اور محسوس ایسا ہوتا ہے کہ قوم اب جاگ رہی ہے!
یقین نہ آئے تو پچھلے دونوں معاملات کو دیکھ لیجئے ، ایک تہران والا واقعہ ہے ، شاید ہی کوئی مسلم گھرانہ ہوگا جہاں اس کا ذکر نہ ہوا ہو ، شاید ہی کوئی درسگاہ ہوگی جہاں اس پر مباحثہ نہ ہوا ہو ، شاید ہی کوئی مجلس ہوگی جو اس حادثے کے تذکرے سے خالی رہی ہو ، چاہے مخالفین ہوں یا مؤیدین ہوں یا پھر درمیانی راہ والے لوگ ہوں ہر طرح کے ہی لوگوں نے اس معاملے پر بات کی ، اور خوب بات کی۔
پھر چار روز پہلے والا معاملہ دیکھیے ، حسینہ واجد سے استعفی مانگا گیا ، وہ مستعفی ہوئی ۔بات بنگلہ دیش کی ہے لیکن ہر شخص کی زبان پر اس حوالے سے گفتگو جاری ہے۔ معاملہ تو ابھی ٹرمپ کا بھی ہوا تھا گولی لگی تھی ، لیکن کیا وجہ ہے کہ اس طرح زبان زدِ عام نہ ہو سکا ، پھر جوبائڈن کے مستعفی ہونے کی صدائیں گونجیں ، دنیاء سیاست میں کھلبلی مچی ، اس کو بڑی اکھاڑ پچھاڑ گردانا گیا لیکن عوام میں یہ بات اس طرح سے پذیرائی نہ پا سکی جتنی پذیرائی حسینہ واجد کے معاملے نے پائی ہے۔
آپ کو کیا لگتا ہے؟
ہمیں تو ایک ہی بات محسوس ہوتی ہے کہ قوم اب جاگ رہی ہے ، احساس دوبارہ جگہ بنا رہا ہے ، گو کہ کانٹے کی چبھن اب پورے جسم کو محسوس نہ ہوتی ہو، سارا بدن درد سے نہیں کراہتا ہو لیکن کچھ تو ہے جو ری ایکشن آتا ہے ، باتیں ہوتی ہیں ، نئے باب وا ہوتے ہیں۔۔
اور وہ ایک امت کا درد ہے جو چیخ چیخ کر دہائیاں دے رہا ہے کہ “قوم تو جاگ رہی ہے”
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان جاگتے ہوئے لوگوں کو ابدی نیند سلانے کا خواب دشمن دیکھتا ہے تو بے حسی کی نیند سلانا اپنوں کا بھی ایجنڈا ہے ، کوئی قیادت نہیں ہے جو اس جاگی ہوئی قوم کو آگے بڑھنے کیلئے راہیں دکھائے، جس کو رہبر سمجھتے ہیں وہ رہزنی کر جاتا ہے، جس سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں وہ مال ومتاع کا ہو جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ منگولوں کا دور دورہ یونہی نہیں شروع ہو گیا تھا ، بلکہ یہ ایک لڑاکا قوم تھی جو ایک دوسرے کا خون چوسنے کو دوڑتی تھی، پھر ان میں چنگیز نے آنکھ کھولی، اس نے دیکھا کہ قوم تو جاگی ہوئی ہے لیکن راستے مسدود ہیں ، منزل مقصود کوئی نہیں ہے وہ نکلا اور قوم کو اقوامِ عالم سے جا ٹکرایا، پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ زمانہ بھی آیا جب منگولوں کا طوطی بولتا تھا۔
آج یہ قوم بھی جاگ رہی ہے، جو اس انتظار میں ہے کہ کوئی آئے اور لے جا کر طوفان سے ٹکرا دے، اور اگر ایسا نہ ہوا تو وہی سب ہوگا جو چنگیزی کرتے تھے ، ایک دوسرے کا خون بہائیں گے ، آپس میں دست وگریباں ہوں گے اور خودکشی کی موت مارے جائیں گے۔
دنیا شاہد ہے کہ عرب کے بدو بھی بڑے شاطر تھے، دنیا کو خوب سمجھتے اور فائدہ اٹھاتے تھے لیکن کوئی الٹی میٹ گول یا بڑا ہدف نہ تھا، لڑائیاں صدیوں جاری رہتی، دشمنیاں برسوں تک بے گانہ رکھتی لیکن نتائج صفر در صفر ہی نکلتے، پھر رب نے ایک ہادی ومھدی بھیجا، ساتھ میں چنے ہوئے لوگوں کو اس کا ہمنوا بنایا، یہ دنیا کے عمدہ دماغ تھے، بہترین سپہ سالار ، بے باک حاکم ، بے خوف قاضی ، دور اندیشی اور فہم وفراست کے پہاڑ۔
دنیا کو تو خوب جانتے تھے لیکن بات وہی کہ دنیا سے انسان اکتا جاتا ہے ، اس لئے اس سے بڑی چیز کے خواہاں تھے، پھر ان کو ایک نئی دنیا سے متعارف کروایا گیا، بڑے گول دئے گئے، آخرت کا ازلی جہاں اور جنت کا ابدی گھر ان کا سب سے بڑا ہدف بنا، اور پھر دنیا نے دیکھا کہ انہوں نے وہ کر دکھایا جو نہ کبھی جبینِ ارض پر ہوا تھا نہ کبھی چشمِ فلک نے نظارہ کیا تھا۔
آج ہماری قوم بھی دنیا کو خوب جانتی ہے لیکن شاید یہ بڑے اہداف کو بھول گئی ہے ، اور ضرورت ہے اس شخص کی جو ان کے مقاصد بلند کر دے ورنہ یہ قوم یونہی جاگے گی کہ حسینہ واجد کو نکال دیا۔۔۔اب کیا ہوگا؟
“پتا نہیں”
اور جب جب سوالوں کا جواب “پتہ نہیں” ملے گا حوصلے پست ہوتے جائیں گے ، ہمتیں جواب دیں گی ، بالآخر نتیجہ یہ نکلے گاکہ قوم سو جائے گی۔۔۔یا تو ایسی نیند کہ جس میں احساس ختم ہو جائے یا ایسی نیند جس میں سانس فنا ہو جائیں!
اس لئے اٹھئے اور اپنے محاذ سنبھالیے، قوم کی رہنمائی کیلئے رہنما پیدا کیجئے ورنہ کوئی راہزن کسی نئے افرنگی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دے گا یا کوئی رشیا کا رسیا بھٹکا دے گا۔
ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے:
“بیٹا قوموں کے ٹوٹنے اور ٹوٹ کر بننے کا درمیانی فاصلہ بہت اہم ہوتا ہے، اور جو اس فاصلے میں طویل جدو جہد کر لے فیصلے اس کے ہاتھ میں ہوا کرتے ہیں”
Facebook Comments
السلام عليكم
صرف باتیں کرنے سے کیا ہوگا محترم