میری جین کراس کرنے کے بعد دیدار ہوتا ہے اس راستے کے سب سے ٹھنڈے اور اونچے اسٹیشن کولپور کا۔
کَولپور؛ سطح سمندر سے 1792 میٹر بلند کولپور،اِس وقت بلوچستان کا سب سے بلند ترین ریلوے سٹیشن ہے۔ اس سے پہلے ژوب سیکشن پر واقع کان مہترزئی (2224میٹر) بلند ترین ریلوے اسٹیشن تھا جو مستقل بند ہے۔ پھر نمبر آتا ہے کوئٹہ چمن روٹ پہ واقع شیلا باغ (1938 میٹر)ریلوے اسٹیشن کا جو سرحد پہ جاری کشیدگی کی وجہ سے عارضی طور پہ بند ہے۔
کولپورایک دلکش و پُر فضا ہِل اسٹیشن ہے جس کے اطراف میں مٹی کے بنے چھوٹے چھوٹے گھر آنکھوں کو بہت بھلے لگتے ہیں۔ یہاں پر جنوری اور فروری کے مہینے میں دو سے ڈھائی فٹ تک برف باری بھی ہوتی ہے۔ برفباری کے دنوں میں یہاں پاکستان بھر سے سیاح آتے ہیں۔
1890 میں جب برطانوی راج اس علاقے میں ریلوے ٹریک بچھا رہی تھی تب کولپور میں برصغیر کے مختلف علاقوں (خصوصاً سندھ اور ملتان) سے مزدوروں کو لایا گیا، جن میں ہندوؤں کی بھی کثیر تعداد شامل تھی۔ چونکہ یہ قصبہ اسٹیشن بننے کے بعد ہی آباد ہوا سو بیشتر مزدوروں نے یہیں رہنا مناسب سمجھا اور آج کولپور میں ہندو برادری اکثریت میں ہے جہاں ان کے مندر بھی ملتے ہیں۔
کولپور کو مال گاڑیوں کا جنکشن بھی کہا جاتا ہے۔ سبی اور کوئٹہ، ہر دو جانب سے آنے والی مال گاڑی یہاں ٹرمینیٹ ہوتی ہے۔ ڈھلوان کی وجہ سے یہاں مکینیکل چیک (خصوصاً بریکوں کی چیکنگ) اور لوڈ چیک کے بعد انہیں روانہ کر دیا جاتا ہے۔
کولپور اسٹیشن سے ذرا آگے 1894 میں تعمیر کی گئی”سمٹ” نامی سرنگ آتی ہے جسے کولپور ٹنل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پہاڑی پتھروں سے بنی ایک مضبوط سُرنگ ہے جس کی برج اور پتھروں کی تراش خراش بھی کاریگروں کی محنت کو ظاہر کرتی ہے۔
سپیزند؛ کولپور سرنگ سے ہو کر ٹرین ضلع مستونگ کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے جہاں یہ کولپور و سپیزند کے درمیان میں واقع گلِ لالہ کی وادی دشت سے گزرتی ہے۔ اب پہاڑ آہستہ آہستہ دور ہوتے چلے جاتے ہیں اور میدان شروع ہوتا نظر آتا ہے۔ ضلع مستونگ کے اکلوتے اسٹیشن، سپیزند جنکشن پہ بغیر رکے یہ آگے بڑھ جاتی ہے۔ اسٹیشن سے کچھ آگے تفتان اور زاہدان کو جانے والی ریلوے لائن الگ ہوتی ہے۔
یہ اسٹیشن ولی خان، نوشکی، احمد وال، دالبندین، نوکنڈی، میرجاوہ اور زاہدان کے لیئے جنکشن ہے۔
کوئٹہ؛ سپیزند کے بعد تیرہ میل اور پھر سریاب سے ہو کر ٹرین اپنی منزل مقصود یعنی کوئٹہ کے مرکزی اسٹیشن پر جا رکتی ہے جو اس کا آخری سٹاپ ہے۔
1676 میٹر بلندی پر واقع کوئٹہ، پاکستان کے اونچے اسٹیشنوں میں سے ایک ہے جہاں سے ریلوے لائن آگے کچلاک، بوستان جنکشن، گلستان اور شیلا باغ سے ہو کر چمن تک جاتی ہے (اس کا ذکر پھر سہی)۔ جبکہ یہ اسٹیشن کوئٹہ تفتان ریلوے لائن کے لیئے ٹرمینس (یعنی ایک کنارے پر واقع پہلا یا آخری) اسٹیشن بھی ہے۔
کوئٹہ کا اسٹیشن، بلوچستان کا سب سے بڑا اور خوبصورت اسٹیشن ہے جہاں کسی زمانے رات بھر رونق رہتی تھی اب تو یہ شام کو ہی بند ہو جاتا ہے۔ اس کے باہر ایک پارک میں پرانا اسٹیم انجن بھی کھڑا کیا گیا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ریلوے کے قدیم سامان اور اوزاروں کو محفوظ بنانے کے لیے سٹیشن کے اندر ایک میوزیم بھی بنایا گیا ہے۔ یہ میوزیم ویسے بند رہتا ہے لیکن اگر کوئی دیکھنا چاہے تو اسے کھول دیا جاتا ہے۔
شام کے چھ بجے کوئٹہ اترتے ہی ہم نے اپنے چمن کے ہم سفر ساتھیوں کو الوداع کہا اور تصاویر اتروائیں۔ میرا ارادہ اس بار ٹرین سے چمن جانے کا تھا لیکن راستے میں انہوں نے ہمیں بتایا کہ بارڈر بند ہونے کی وجہ سے چمن میں دھرنا اور ہڑتال جاری ہے جس کی وجہ سے ٹرین بھی بند ہے۔ یہی بات بعد میں بھی کنفرم ہو گئی۔ اصل میں تو ٹرین کا سفر کرنا مقصود تھا جب وہ ہی بند تھی تو چمن جانے کا پلان کینسل کیا اور زیارت جانے کا پروگرام بنایا۔
وقت پہ پہنچنے کا فائدہ یہ ہوا کہ میں نے اور انوار بھائی نے آرام سے ایک اچھا ہوٹل ڈھونڈا (محمد علی جناح روڈ پہ لائن میں اچھے اور سستے ہوٹل آپ کو مل جائیں گے) جو انتہائی مناسب داموں مل گیا اور وہاں سامان رکھ کے فریش ہوئے۔
انوار بھائی کے جہاں مجھے کئی اور فائدے ہوئے وہاں ایک ان کا خوش خوراک ہونا بھی تھا۔ میرے نہانے تک موصوف نے وی لاگز کی مدد سے کوئٹہ کے بہترین ہوٹل ڈھونڈ لیئے اور پہلی رات ہم نے ”شاہ ولی” جانے کا فائنل کیا۔
شاہ ولی ریسٹورنٹ، میزان چوک کے پاس سورج گنج بازار میں واقع ایک مصروف ترین ریستوران ہے جہاں کوئٹہ کے تقریباً تمام روایتی کھانے سرو کیئے جاتے ہیں۔ ان کی سب سے منفرد بات ان کا بیٹھنے کا انتظام اور خوبصورت ماحول ہے۔ یہاں چھت پہ عوام کے لیئے غالیچے اور گاؤ تکیئے بچھائے گئے ہیں۔ یہاں ہم نے کابلی پلاؤ، روش اور افغانی بوٹی کا آرڈر دیا۔ قیمتیں وہی پنجاب والی ہی ہیں لیکن ذائقہ مختلف تھا۔ روش کے ساتھ یخنی کی بجائے دال سرو کی گئی اور ختم ہونے پر روغن زیتون ساتھ دیا۔ میں چونکہ گوشت زیادہ نہیں کھاتا سو انوار بھائی نے روش سے انصاف کیا اور اسے بہتر بتایا۔
یہاں سے نکل کر ہم نے کل کے لیئے ٹیکسی کا جگاڑ کیا۔
کوئٹہ میں میرے دوست فیض شیخ کے مطابق ٹیکسی زیارت جا کر وہاں کے اہم مقامات دیکھنے کا سب سے بہت ذریعہ ہے اور ان کی یہ بات درست ثابت ہوئے۔ زیارت کے لیئے ہم نے دس ہزار میں ٹیکسی فائنل کی جس نے ہمیں زیارت کے اندر بھی کچھ دور جگہوں پہ لے جانا تھا۔ یہاں سے ہم سرینا پہنچے اور وہاں کی کافی پی جو انوار بھائی کے مطابق ان کے معیار کے مطابق نا تھی، چانکہ انوار بھائی ایک زبردست فوڈٰ ہیں سو انکی بات پہ میں آنکھ بند کر کے یقین کر سکتا ہوں۔
واپس ہوٹل پہنچے اور اگلے دن کی تیاری کر کے سو گئے۔
صبح تیار ہو کہ قریبی چائے خانہ کم دوکان سے لذیذ بل والے پراٹھے اور سبز مرچ کے آملیٹ کا ناشتہ کیا۔ اتنے میں گاڑی والے چاچا اور فیض بھائی بھی پہنچ گئے۔ ہم نے چائے پی اور اکٹھے زیارت کے لیئے روانہ ہوئے۔
فیض محمد شیخ کا تعلق کچھی کے علاقے بھاگ سے ہے لیکن وہ عرصہ دراز سے تعلیم و روزگار کے لیئے کوئٹہ مقیم ہیں۔ پیشے سے ایک گرافک ڈیزائنر اور پبلشر ہیں۔ عجائب گھروں پر میری دوسری کتاب ”حیرت سرائے پاکستان” بھی ان کے ادارے ”ایلاف” نے چھاپی ہے۔ فیض کو اس سفر میں ساتھ شامل کرنے کا ایک مقصد ان کو جاننا بھی تھا۔
زیارت کی زیارت ؛
کوئٹہ سے نکلے تو گرمی بتدریج کم ہوتی محسوس ہوئی۔ ویسے کوئٹہ میں بھی گرمی زیادہ نہیں تھی۔ کچلاک، بوستان، ولگئی، غڑکی اور وام سے ہو کر ہم بابِ زیارت کے سامنے پہنچ گئے۔ یہاں زبردست قسم کی ٹھنڈی ہوا نے ہمارا استقبال کیا۔ بابِ زیارت شہر کا خوبصورت دروازہ ہے جس کے پاس ہی الہجرہ کالج واقع ہے جس کی تفصیل آگے پیش کی جائے گی۔
سبی ڈویژن کا ٹھنڈا ضلع زیارت، کوئٹہ کے شمال مشرق میں واقع ہے اور دُکی، لورالائی، ہرنائی، کوئٹہ اور پشین کے اضلاع سے گھرا ہوا ہے۔
کبھی بھی گرمی نا دیکھنے والا یہ شہر پاکستان اور بلوچستان کے پُرفضا سیاحتی مقامات میں شامل ہے جہاں ملک کے بیشر حصوں سے لوگ گرمیوں میں چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔
یہ علاقہ اپنے قدرتی حسن کی بدولت انیسویں صدی کے وسط میں انگریز پولیٹیکل ایجنٹ کی نظر میں آگیا اور اسے گرمائی مقام تجویز کیا گیا۔ 1882 میں یہاں ریذیڈنسی بنا دی گئی اور 1887 میں اسے برطانوی حکومت نے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
زیارت کا پرانا نام غوسکی/کوشکی تھا۔ اٹھارہویں صدی میں یہاں ایک بزرگ بابا خرواری رہے تھے جن کی وفات کے بعد ان کا مزار تعمیر کیا گیا۔ لوگ اس کی زیارت کو آنے لگے، جس کی وجہ سے اس کا نام زیارت پڑ گیا۔ 1886 میں اسے باقاعدہ زیارت کا نام دے دیا گیا۔ 1903 میں یہ اس جگہ کو بلوچستان کے گرم ترین ضلع، سبی کا گرمائی صدر مقام قرار دیا گیا۔ 1974 میں اسے تحصیل کا درجہ دے دیا گیا اور 1986 میں علیحدہ ضلع بنا دیا گیا۔
اس کی دو تحصیلوں میں سنجاوی اور زیارت شامل ہیں۔ آبادی لگ بھگ ایک لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب ہے۔ بلوچستان کے تمام اضلاع میں زیارت، انسانی ترقی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے۔
پاکستان کے سرد ترین شہر کا اعزاز بھی زیارت کے پاس ہے جو سطح سمندر سے لگ بھگ 2400 میٹر بلند ہے ۔ 11 فروری 2009ء کو اس شہر کا درجہ حرارت منفی 50 ڈگری کو چھُو رہا تھا جو پاکستان کہ کسی بھی شہر کا اب تک کا ریکارڈ کیا گیا سب سے کم درجہ حرارت ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں