زیارت زلزلے کی فالٹ لائن پر واقع ہے۔
جن دنوں زیارت ضلع سبی کی تحصیل ہوا کرتی تھی، مشہور تھا کہ زیارت کا پولیس اسٹیشن پاکستان کا وہ واحد تھانہ ہے جو سردیوں میں بند کردیا جاتا ہے اور مقامی انتظامیہ سبی آجایا کرتی تھی۔ اس وقت یہ علاقہ چوری ڈکیتی سے بالکل پاک تھا۔
زیارت بنیادی طور پر پشتونوں کا علاقہ ہے۔
زیارت میں سارنگزئی، پانیزئی، کاکڑ، ترین اور دوتانی پشتون آباد ہیں جبکہ سنجاوی میں، دمڑ، غلزئی، پیچئی، ونیچئی، سید اور تارن مقیم ہیں۔
یہاں کے بیشتر لوگ نوکری، زراعت اور سیاحت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
یوں تو زیارت کی پیداوار میں سیب، انار، چیری خوبانی ، آڑو اور بادام شامل ہیں لیکن شہر کے مضافات میں لال چیری سے لدے خوبصورت باغات خاص طور پر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
زیارت کا شمار بلوچستان کے سرسبز ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں صنوبر کے وسیع جنگلات ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں چلغوزہ بھی پایا جاتا ہے۔
قائداعظم ریزیڈنسی
زیارت
15 جون 2013 میرے لیئے ایک دکھ بھرا دن ثابت ہوا۔
زیارت ریزیڈںسی پر شدت پسندوں کے دہشت گرد حملے کا سن کہ افسوس ہوا لیکن جب معلوم ہوا کہ ظالموں نے راکٹوں سے بلوچستان کی نمائندہ عمارت ہی تباہ کر دی ہے تو دل جیسے بند ہونے کو آ گیا۔یہ قوم کا ایک بہت بڑا نقصان تھا۔
ایک لمبی جدوجہد کے بعد قائد اعظم کا تھکنا اور بیمار ہونا کوئی اچنبھے کی بات نا تھی، لیکن آخری وقت میں ان کا بروقت اسپتال نا پہنچ سکنا قوم کو اب بھی کھلتا ہے۔
نوزائیدہ مملکت کے گورنر جنرل نے ریاست کے تمام کاموں کی سرپرستی کا بیڑہ اٹھایا اور دن رات ایک کرنے کی وجہ سے خود کی صحت پہ توجہ نا دے سکے۔
ٹی بی کی تشخیص کے بعد آپ کے ذاتی معالج ڈاکتر کرنل الہیٰ بخش نے آپ کو آرام کا مشورہ دیا تو قائد نے زیارت آنے کا فیصلہ کیا اور زندگی کے آخری دو ماہ دس دن یہیں قیام کیا۔
بھائی کے ساتھ سائے کی طرح رہنے والی ان کی وفاشعاربہن محترمہ فاطمہ جناح اور ایک نرس مس اے- ایس نتھینئل بھی ان کے ساتھ یہیں قیام پذیر ہوئیں۔
گھنے درختوں کے بیچ، لکڑی سے بنائی گئی یہ خوبصورت عمارت 1890 کی دہائی میں بنائی گئی تھی جہاں تاجِ برطانیہ کے بندوبست کے لیئے آنے والے افسران بھی ٹھہرتے تھے۔
یہ عمارت کس نے بنائی اس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔
قائد اعظم کے انتقال کے بعد اسے قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے ”قائداعظم ریزیڈنسی” کا نام دے دیا گیا اور عجائب گھر میں تبدیل کر کے قائد اعظم کے زیر استعمال رہنے والی اشیاء کو نمائش کے لیے ر کھا گیا۔ یوں یہ عمارت بلوچستان کی پہچان بن گئی۔
پاکستان ٹیلیویژن سمیت دیگر چینلز پر مختلف پروگراموں میں یہی سبز عمارت بلوچستان کی نمائندگی کرتی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستانی کرنسی میں سو روپے کے بینک نوٹ پر بھی یہی عمارت جلوہ افروز ہے۔
اس عمارت کا نقشہ بالکل سادہ ہے۔
مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی راہداری کے دونوں طرف دو دو کمرے ہیں اور سامنے ایک زینہ۔ اوپر بھی اسی طرح کا نقشہ ہے۔ یوں اس عمارت میں کل چار کمروں سمیت اوپر نیچے دو برآمدے ہیں۔
عمارت کے بیرونی اطراف میں لکڑی کے ستون ہیں اور عمارت کے اندرونی حصے میں بھی لکڑی کا استعمال بہت ہی خوبصورتی سے کیا گیا ہے۔
نیچے دائیں ہاتھ پر کھانے کا کمرہ اوردوسرا غالباً سٹڈی روم ہے۔ جبکہ اوپر دائیں ہاتھ پہلا کمرہ قائد اعظم کا ہے۔ آرام دہ کرسی اور وال کلاک اصلی ہیں جبکہ بقیہ سامان کو آگ لگنے کے بعد دوبارہ اسی انداز میں بنوایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ درمیان میں دروازہ ہے اور ساتھ متصل کمرہ بانی پاکستان کے معالج کا ہے۔
دونوں کمرے نہایت نفاست سے سجے تھے۔ کمرے کے ساتھ گیلری اور پھر بائیں جانب مہمانوں اور محترمہ فاطمہ جناح کا کمرہ ہے جس کے واش روم میں خوبصورت ٹب سمیت تانبے کی اصلی اور پرانی ٹونٹیاں لگی ہوئی ہیں
رہائش گاہ میں قائد اعظم کے زیر استعمال کمروں میں ایسی کئی تصاویر آویزاں ہیں جو قائد اعظم نے اپنی بیٹی، بہن، بلوچستان کے قبائلی عمائدین اور دیگر سرکردہ شخصیات کے ساتھ کھنچوائی تھیں۔ ان میں سے بیشتر اب پیچھے کی طرف بناٸے گٸے میوزیم میں آویزاں ہیں۔
یہ عمارت پہلے بالکل مختلف تھی جسے 1935 کے زلزلے نے کافی نقصان پہنچایا۔ تعمیر نو کے بعد پھر 2008 کے زلزلے میں عمارت کو جزوی نقصان پہنچا جس کا ازالہ اسی وقت کر دیا گیا لیکن 2013 کے مسلح حملے میں ملک دشمنوں نے اس عمارت کو بموں سے تباہ کر دیا۔
میں ایسے لوگوں کو ملک سے بھی زیادہ انسانیت دشمن سمجھتا ہوں لیکن یہ بات بھی سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ریزیڈنسی کے قریب گورنر و وزیرِاعلیٰ ہاؤس سمیت اہم سرکاری دفاتر اور رہائش گاہیں واقع ہیں تو اتنی آسانی سے کیسے کوئی اتنے اہم ورثے کو تباہ کر سکتا ہے۔۔۔؟؟؟
اس رات سیکیورٹی والے کہاں تھے۔۔۔؟؟؟
ریزیڈنسی کو فوراً کیوں نا بچایا گیا۔۔۔۔؟؟؟
یہ سوال بھی میرے عظیم قائد کی موت کی طرح ہنوز جواب طلب ہیں۔۔۔۔۔۔۔
اچھی بات یہ کے حکومت پاکستان نے اس عمارت کی اہمیت کے پیش نظر اسے ریکارڈ وقت میں ہو بہو شکل میں بحال کیا اور 14 اگست 2014 میں افتتاح کے بعد دوبارہ عوام کے لیئے کھول دیا۔
*زیارت خرواری بابا ؛
زیارت نام کی وجہ تسمیہ اس مزار سے منسلک ہے جو ریزیڈںسی سے کچھ آگے اونچائی پر واقع ہے۔
یوں تو اس علاقے میں مزار ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے لیکن خرواری بابا کی کہانی الگ ہے۔ خرواری بابا کا اصل نام مُلا طاہر تھا جو نانا صاحب میاں عبدالحکیم کے شاگرد تھے۔
قصہ زبان زدِ عام ہے کہ ایک مرتبہ نانا صاحب غوسکی میں آپ کے ہاں مہمان ہوئے اور رات کو عبادت کے دوران مُلا طاہر سے پانی مانگا۔ مُلا پانی کا کٹورہ لے کر استاد کے پاس آئے تو انہیں عبادت میں مشغول پا کر پانی دینا مناسب نا سمجھا اور وہیں کھڑے رہے ۔ جب نانا صاحب عبادت سے فارغ ہوئے تو مُلا طاہر سے پانی لیتے ہوئے دیکھا کہ سخت سردی سے ان کے ہاتھ کی چمڑی اتر رہی تھی۔
اس پر نانا صاحب نے آپ کو خرواری بولتے ہوئے نانا گنج کا خطاب دیا۔ یہ روایت کتنی سچی ہے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
آپ کے مزار کی وجہ سے غوسکی کا نام زیارت رکھا گیا کہ پشتو زبان میں مزار کو زیارت کہا جاتا ہے۔
زیارت خرواری بابا یہاں کا ایک اہم مقام ہے جہاں کئی لوگ حاظری دینے آتے ہیں۔ مزار کے احاطے میں ہی آپ کے دادا مُلا خان محمد کی قبر بھی ہے جبکہ ایک طرف چبوترے پر خوبصورت مسجد بنائی گئی ہے۔
پہلے یہاں تک ایک کچا راستہ تھا لیکن اب پکی سڑک بن چکی ہے۔ اگرچہ مزار اور مسجد کو پکا کر دیا گیا ہے لیکن
مزار کے باہر بالکل سامنے گل محمد کی کچی اور سادہ سی دوکان آج بھی زیارت کی پرانی کہانی بیان کر رہی ہے۔
*زیرو پوائنٹ زیارت؛
خرواری بابا جاتے ہوئے راستے میں ایک پرفضا مقام آتا ہے جسے زیرو پوائنٹ کہا جاتا ہے۔ زیرو پوائنٹ سے آپ نہ صرف وادئ زیارت کا خوبصورت نظارہ کر سکتے ہیں بلکہ ٹھنڈی ہوا کا لطف بھی اٹھا سکتے ہیں۔ وادی کا سب سے اونچا پہاڑ ”خلافت” بھی یہاں سے نظر آتا ہے۔ یہاں کئی فیملیز پکنک کے لیئے آتی ہیں۔ زیرو پوائنٹ کی خاص بات وہ درخت ہے جس کو دیکھیں تو اللہ لکھا ہوا نظر آتا ہے۔
*صنوبر کے قدیم جنگلات؛
زیارت کا علاقہ صنوبر کے وسیع و عریض جنگلات سے گھرا ہوا ہے جو پاکستان میں صنوبر کے جنگلات (جونیپرس سیراوشینکا) کا سب سے بڑا علاقہ ہے۔
اپریل 2016 میں محکمہ آثارِ قدیمہ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کے ادارے
یونیسکو کوجمع کروائی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق زیارت کے جنگلات لگ بھگ ایک لاکھ دس ہزار ہیکٹر پر محیط ہیں۔
ان جنگلات میں ہمیں قدیم ترین درخت ملتے ہیں جن میں سے کچھ 4000 سال پرانے ہیں۔ یوں انہیں Living Fossils یعنی زندہ رکاز کا نام دیا جاتا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جنگل دنیا میں اپنی نوعیت کا دوسرا بڑا جنگل ہے جسے حکومت پاکستان نے 2013 میں ایک محفوظ علاقہ قرار دیا ہے۔ یہ کالے ریچھوں اور بھیڑیوں کے ساتھ ساتھ اڑیال اور سلیمان مارخور (جنگلی بکریوں کی ایک بڑی نسل) کا مسکن بھی ہے۔
جاری ہے۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں