دوسرا اعتراض:
(بارہویں قسط میں ان لوگوں کے اعتراض کا جواب تھا جو کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ایک ایسی نظارتی کونسل ہے جس کا قیام امامت کے کام میں مداخلت کے مترادف ہے۔اب ہم اس کے بعد والے اعتراض کا جواب دیں گے۔)
اس مقام پر ایک گروہ ایسا بھی ہے جس نے آمریت کے اختیارات کو محدود کرنے اور نظارتی کونسل(پارلیمنٹ )کی ضرورت کو تو قبول کرلیا لیکن اس حد بندی کی بنیاد پر وار کرتے ہوئے دوسرا اعتراض جڑ دیا جو کچھ یوں ہے کہ ہم مانتے ہیں کہ آمریت کے اختیارات کو محدود کرنا اور اس پہ نظارت کے لئے پارلیمنٹ کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن چونکہ امت کے معاملات کی ذمہ داری امورِ حسبیہ اور ولایات (1) کے باب میں سے ہے۔ لہذا یہ کام صرف عادل مجتہدین کا ہے جو امام مہدی (عج) کے نائبین عام ہیں۔ عوام کو اس میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ اس لئے عوام کی طرف سے نمائندوں کا انتخاب اور پارلیمنٹ کا قیام ایک طرح کی بے جا مداخلت اور مجتہدین کے حق کو غصب کرنے کے مترادف ہے۔
یہ اعتراض پچھلے اعتراضات کی طرح کچھ زیادہ بے سروپا نہیں، بلکہ علمی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
مصنف یہاں ان لوگوں کا شکریہ بھی ادا کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس گروہ نے پارلیمنٹ کے قیام کو کم از کم امامت میں مداخلت قرار نہیں دیا۔
لیکن ان لوگوں کے بارے میں عربی کہ یہ کہاوت بھی صادق آتی ہے ”حفظت شئیا و غابت عنک اشیاء“ (2)
ہم بھی سیاست و تدبیر مملکت کو امور حسبیہ میں سے ہی سمجھتے ہیں لیکن جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اسلام کی نظر میں حکومت کا شورائی ہونا ضروری ہے۔ ( ملت اس میں سیاسی طور پر شریک ہوگی تبھی یہ شورائی نظام بنے گا) دوسری طرف عوام الناس حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں۔ اس لئے عوام کو نظارت کا حق بھی ہے اور جواب طلبی کا بھی۔
اور یہ کام نہی عن المنکر (3) کے تحت بھی آتا ہے، جو ہرصورت میں واجب ہے، اور اس کا انتخاب ملت پر موقوف ہے۔
سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو چونکہ مجتہدین کے پاس فی الحال حکومتی مقام نہیں ہے اس لئے یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے آمریت کے اختیارات کو محدود کیا جاسکتا ہے۔
یاد رہے کہ امور حسبیہ میں دو اور چیزیں بھی ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
اوّل:
یہ ضروری نہیں کہ مجتہد بنفس نفیس حکومت ہاتھ میں لے کر سارے حکومتی امور خود انجام دے۔
بلکہ اگر مجتہد کسی حکومتی نظام پر صاد کر دے، یعنی حاکم کو اذن دے، تو حکومت کے جائز ہونے کے لئے یہی کافی ہے۔ یہ اتنی واضح بات ہے کہ عام شیعہ بھی اسی پر عمل کرتے رہے ہیں۔
دوم: اس بات پر شیعہ اثنا عشری فقہا کا اتفاق ہے کہ امام زمان (عج) کے نائبین عام، یعنی مجتہدین، کے تمام امور حسبیہ یا ان میں سے بعض کے قیام پر قادر نہ ہونے سے یہ فریضہ ساقط نہیں ہوجاتا۔ بلکہ اس فریضہ کا قیام عادل مومنین (4) پر لازم ہو جاتا ہے۔ اگر وہ بھی انجام نہ دے سکیں تو عام مومنین پر لازم ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس کام کے لئے صرف فاسق لوگ بچ جائیں تو ان پر بھی لازم ہے کہ وہ اس کے قیام کی کوشش کریں۔
اور چونکہ مذکورہ ذمہ داریوں کو ادا کرنے اور حاکم کے اختیارات پر نظارت رکھنے کے لئے یہی آئینی جمہوریت، جو بین الاقوامی سطح پر رائج ہے، ہی واحد راستہ ہے اور یہی طریقہ ہے جس کے مطابق ملت کے تمام افراد اپنے اجتماعی امور میں شریک ہو سکتے ہیں۔ لہذا پارلیمنٹ ہی امور حسبیہ کی ذمہ دار اور ملت پر ولایت رکھتی ہے۔
کیونکہ اگر صرف فقہاء کی ایک نظارتی کونسل بنائی جائے تو اول تو یہ بات امام مہدی(عج) کی غیبت کے زمانہ میں ممکن ہی نہیں۔ اور اگر بالفرض ایسی کونسل بنادی جائے تو بھی اس کا نتیجہ سوائے توہین و تحقیر کے کچھ نہ ہوگا (5) اس کے علاوہ اس کونسل کو ایسی سرکاری حیثیت حاصل نہیں ہوگی۔ جو پارلیمنٹ کو حاصل ہوتی ہے۔
خلاصہ کلام ولایات کے باب سے بھی پارلیمنٹ کی ولایت ثابت کی جاسکتی ہے۔
اگرچہ از باب احتیاط پارلیمنٹ کے انتخاب کے لئے مجتہد نافذ الحکم کا اذن ضروری ہے۔ دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ مجتہدین کے نمائندوں پر مشتمل ایک بااختیار کمیٹی، پارلیمنٹ میں موجود ہو جو قانون سازی کے عمل کی تصحیح کے لئے ضروری ہے۔ اور ایران کے دستور کے دوسرے باب میں یہ شق ذکر کی گئی ہے۔
اگر اس طریقہ پر عمل کیا جائے تو کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔
تیسری قسم کا اعتراض:
یہ نہایت بچگانہ اور مضحکہ خیز اعتراض ہے۔ جو بعض لوگوں کی طرف سے پیش کیا گیا کہ نظارتی کونسل (پارلیمنٹ) کو شرعی وکالت کا عنوان نہیں دیا جاسکتا۔ ان لوگوں نے اس پہ کتابچے لکھ کر نجف بھی بھیجے ہیں۔
ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ عوام الناس حکومت کو ٹیکس دیتے ہیں تاکہ اجتماعی مصلحت کے امور انجام دیئے جاسکیں۔
یہ ٹیکس وصول کرنا اور دیگر امور، جیسے نہی عن المنکر وغیرہ، جن کا ذکر ہوچکا ہے، ان سب امور میں اصل ولایت صرف اس ولی (حاکم) کو حاصل ہے جو اللہ کی طرف سے منصوب کیا گیا ہو، لیکن پارلیمنٹ کے لئے ان سب امور میں شرعی وکالت ممکن ہے۔
شاید بہت سے مذہبی علماء بھی وکالت کے لغوی معنی کو نہیں جانتے ہیں۔
حالانکہ وکالت کا لغوی معنی ہے اپنے امور کسی کے سپرد کرنا۔
وکالت کی فقہی اصطلاح میں بھی یہی معنی مدنظر ہے۔
ان معترضین نے اپنے مدعا کے حق میں کچھ آیات بھی پیش کی ہیں۔
جیسے حسبنا اللہ و نعم الوکیل (6) اور وما انت علیھم بوکیل (7) اور واللہ علی کل شئی وکیل (8)۔
ایسا لگتا ہے کہ وہ ان کے معانی سے بے خبر ہیں، ان آیات میں سے کسی میں بھی شرعی وکالت کا مفہوم مدنظر نہیں۔ اس کے باوجود ان اعتراض کرنے والوں نے ان آیات کو پیش کر کے اپنی مرضی کا نتیجہ لینے کی ناکام کوشش کی ہے۔
ان لوگوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ جب یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ نظارتی کونسل یا پارلیمنٹ کا وجود ضروری ہے، تو اس کے بعد اس پارلیمنٹ کے لئے وکالت کا عنوان اہم نہیں۔ اور وکالت کے عنوان پر جھگڑا کرنا لفظی جھگڑے کی ایک مثال ہے۔
اب چاہے وکالت کا حقیقی معنی مراد لیا جائے چاہے مجازی، بہرحال جب واضح ہو چکا کہ آمریت کے اختیارات کو محدود کرنا ضروری ہے، اس کے بعد ایسے اعتراض پیش کرنا صرف ظالم حکمرانوں کی مدد کے سوا کیا نتیجہ دے سکتا ہے؟
حوالے و حواشی:
1: عرض مترجم:
امور حسبیہ سے مراد وہ سماجی و اجتماعی امور ہیں جن کو انجام دینا امام کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اور امام (عج) کی غیبت کے دور میں یہ امور مجتہد انجام دیتا ہے۔
2: عرض مترجم:
یہ قول جو کہاوت کے طور پر مشہور ہوگیا ہے۔ اصل میں عہد عباسی کے مشہور شاعر ابونواس کے ایک شعر کا دوسرا مصرعہ ہے۔ پورا شعر یہ ہے
فَـقُـلْ لِـمَـنْ يَـدَّعِـي فِـي الْـعِـلْـمِ فَـلْـسَفَةً حَـفِـظْـتَ شَـيْـئًـا وَغَـابَـتْ عَـنْـكَ أَشْـيَـاءُ

اس شخص سے کہہ دو جسے علم و فلسفہ کا بہت دعوی ہے کہ تم نے ایک چیز کو یاد رکھا جبکہ بہت سی دوسری چیزیں بھول گئے۔
اس شعر کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ انسان کا علم محدود ہے۔ اور چند اصطلاحات سیکھ کر یہ سمجھنا غلط ہے کہ انسان نے سارا علم حاصل کرلیا ہے۔
یہ شعر ابونواس کے مشہور قصیدے “دع عنک لومی” میں شامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ابونواس نے یہ قصیدہ مشہور معتزلی عالم ابراہیم نظام کے جواب میں لکھا تھا۔
3: عرض مترجم:
نہی عن المنکر فقہی اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برائیوں سے روکنا بھی ضروری ہے۔ اگر حکمران برائی کے رستے پر چل پڑیں تو ان کو اس سے روکنا بھی ضروری ہے۔ اور یہ کام پارلیمنٹ کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ کیونکہ پارلیمنٹ، حکمران کے تمام افعال پر نظارت کا حق رکھتی ہے۔ اسی لئے مصنف نے پارلیمنٹ کو نظارتی کونسل بھی کہا ہے۔
4: شیعہ فقہ کی اصطلاح میں عادل سے مراد ایسا شخص ہے جو اپنی شرعی وظائف کو ادا کرنے کا پابند ہو۔ واجبات کو ادا کرتا ہو اور محرمات سے بچتا ہو۔
5:عرض مترجم:
علامہ نائینی کی اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا پاکستان کی ”اسلامی نظریاتی کونسل“ کی طرف نظر دوڑائیں۔ یہ کونسل بنا تو دی گئی ہے۔ لیکن اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔ محنت و کاوش سے تیار کی گئی اس کونسل کی سفارشات کو پارلیمنٹ چاہے تو ریجیکیٹ کر دے۔
اس کے علاوہ اس کونسل میں جدید علوم کے ماہرین کے شامل نہ کرنے سے اس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔
6:سورہ آل عمران آیت 173
ترجمہ: ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے۔ (ترجمہ از شیخ محسن علی نجفی)
7: سورہ انعام آیت 107۔
ترجمہ: اور نہ ہی آپ ان کے ذمے دار ہیں۔
ترجمہ از شیخ محسن نجفی
8: سورہ ہود آیت 12۔
ترجمہ: اور اللہ ہر چیز کا ذمہ دار ہے۔
ترجمہ از شیخ محسن نجفی ۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں