اگر حسینہ واجد کے دور کے معاشی اور سماجی اشاریوں کو دیکھا جائے تو سوائے تعریف کے کچھ نہیں کہا جا سکتا اور اگر ان کی حکومت کے رویوں کو دیکھا جائے تو ” آمرانہ” کے علاوہ کوئی اور لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔
سیاسیات کے طالبعلم کے لیے یہ بہت دلچسپ مطالعہ ہے ۔ گزشتہ بیس تیس سال سے شخصی اور رائے کی آزادی یا کم سے کم اس کا تاثر ہونا ، جدید دور کے بنیادی لوازمات میں شامل ہو چکا ہے ۔ نظریاتی ہم آہنگی پارٹی کی سطح تک ورکرز کو جوڑنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور کرتی رہے گی مگر عوامی سطح پر اس کا اظہار ایک آزاد ، خوشحال ،کم سے کم پابندیوں والے معاشرے کی شکل میں قابل قبول رہتا نظر آ رہا ہے ۔ حکومتوں کو عوامی فلاح کے ساتھ عوامی مزاج کا نبض شناس ہونا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو چکا ہے وگرنہ مخالفین کے ہاتھوں استعمال ہو جانا ، آج کے دور میں بہت آسان ہو چکا ہے ۔ سوشل میڈیا انفرادی اور اجتماعی ذہنوں کو شدت اور بہت تیزی سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ مثبت فیصلوں کے ساتھ مثبت میڈیا ہینڈلنگ اور آزاد سماج ، حکومتوں کے لیے بہت ضروری ہوتا جا رہا ہے ۔ اب سرکاری ٹی وی ، اخبارات ، پروپیگنڈہ یا سنسرشپ کے ذریعے کنٹرول ممکن نہیں۔ جدید دور کے تقاضے بھی جدید ہیں۔ عوام شمولیت چاہتی ہے۔ نظر آنے والی پابندیاں اب قابل قبول نہیں رہیں ۔ اور حقیقی طور یہ سب خوش آئین بھی ہے ۔
آزاد اور چھوٹے ممالک کو اپنے تاثر کے بارے بہت احتیاط کرنا ہو گی ۔ سیاسی حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ عوامی رائے عامہ پر پوری توجہ دے کر انہیں ساتھ رکھنا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے ۔ حقوق کا ملنا تو اہم ترین ہے ہی مگر دنیا کے ٹھیکیداروں سے بچنے کے لیے اس کا شدت سے اظہار بھی ضروری ہے ۔ بند ، قدغن زدہ فرسودہ معاشرے اور آمرانہ حکومتیں پھر چاہے وہ ٹھیک ہو یا غلط ، چل نہیں پائیں گی ۔
باقی بنگلہ دیش کے موجودہ حالات کو بہتر سمجھنے کے لئے گزشتہ کچھ عرصہ کے حسینہ واجد کے اقدامات کا جائزہ لیں تو صورتحال واضح ہو جائے گی ۔
چین اور بھارت کے درمیان توازن میں ان کا وزن واضح طور پر بھارت کی جانب نظر آ رہا تھا جبکہ ماضی میں بنگلہ دیش ان تعلقات کو بہت حکمت سے نبھاتا چلا آ رہا تھا ۔ پچھلے دنوں انہوں نے دونوں ملکوں کا دورہ کیا تو چائنا کے دورے کو مختصر کر کے بھارت چلی گئیں جو چائنا سے کچھ معاملات پر ناگواری کا اظہار تھا ۔
دوسری جانب انہوں نے جنوری کے الیکشنز سے کچھ پہلے امریکہ کے حوالے سے واضح اشارے دیتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے الیکشنز میں جیت کی گارنٹی دی گئی ہے بشرطیکہ میں ایک ملک کو یہاں اپنا نیول بیس بنانے دوں اور ایسٹ تیمور کی طرح ایک آزاد کرسچین ملک کی راہ ہموار کروں جو بنگلہ دیش ، میانمار اور بھارت کے علاقوں پر مشتمل ہو گا ۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کچھ طاقتیں خطے میں جنگ لانا چاہتی ہیں جبکہ یہاں عمومی طور پر کوئی علاقائی مسئلہ نہیں ہے ۔
موجودہ بنگلہ دیش اسٹوڈنٹ موومنٹ کے روح رواں بظاہر طالب علم ہیں مگر بہرحال جماعت اسلامی بنگلہ دیش ، خالدہ ضیا کی BNP اور دیگر مختلف جماعتوں کا وزن بھی شامل ہے ۔ آرمی چیف نے حسینہ واجد کے ملک چھوڑنے کے بعد فوری طور پر خالدہ ضیا کا اریسٹ بھی ختم کر دیا ہے۔
اب یہ تمام کھیل بہت دلچسپ مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے ۔ حسینہ واجد انتہائی زیرک سیاستدان ہوتے ہوئے بھی ایک ہی وقت میں امریکہ اور چائنا کو اپنے سے کسی حد تک دور کر چکی تھیں ۔ اندرونی گرفت بھی کمزور ہوتی جا رہی تھی ۔ پابندیاں اور گرفتاریاں بڑھ چکی تھیں ۔ ان کا سارا دارومدار بھارت پر تھا جبکہ ان دنوں عوامی سطح پر بنگلہ دیش کی بھارت سے ناپسندیدگی اپنی انتہا پر ہے ۔ اسٹوڈنٹ موومنٹ سے پہلے ہی بائیکاٹ بھارت کی سوشل میڈیا مہم زوروں پر تھی ۔ ایسے میں کسی حد تک ایک اسلامسٹ مغرب نواز حکومت بنتی نظر آ رہی ہے ، جو شاید بھارت اور چائنا دونوں کے لیے یکساں پریشانی کا سبب بنے ۔ جماعت کو عمومی طور پر تو بنگلہ دیشی عوام قبول نہیں کر سکتے مگر اب ان کا سیاست میں عمل دخل بڑھے گا ۔ دوسری جانب خالدہ ضیا تو خود اب بہت بوڑھی ہو گئیں ہیں لیکن شاید ان جلاوطن بیٹا عملی سیاست میں قدم رکھے۔
فی الحال ایک مشترکہ قبول عام شخصیت محمد یونس نوبل انعام یافتہ گرامین بنک والے ، کا نام لیا جا رہا ہے متوقع پرائم منسٹر کے طور پر ۔
نہ جانے اس خطے نے ابھی دوسروں کی کتنی جنگیں لڑنی اور بھگتنی ہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں