پچھلی رات کا اختتام کھانے پہ ہوا تھا۔اگلی صبح کا آغاز بھی روٹی سے ہو رہا تھا۔درمیان میں گزری رات میں یہ سمجھ آئی کہ فرانس اور خاص کر پیرس میں دیسی کمیونٹی میں گٹھ جوڑ، دعوتیں، کھانے اور میل ملاقاتوں کا رواج ولائت کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ولائت میں شفٹوں کی وجہ سے زندگی گھنٹوں میں بٹی ہے جبکہ پیرس میں اپنے دیسی شام کے بعد یا کم از کم اتوار کو میل ملاقات جتنا وقت افورڈ کر سکتے ہیں۔ولایت میں گھر کے باہر کوئی مل جائے تو اسے یہی کہا جاتا ہے”کدی لاؤ نا چکر،جھٹ گپ لاواں گے”اور دوسرا بڑا مشہور جملہ ہے “کی کھاسو؟کُجھ کھا لو”۔
لندن میں میزبان دستیاب ہو تو مہمان نہیں ملتا،مہمان آ جائے تو میزبان غائب ہوتا ہے۔نئے برطانیہ وارد ہونے والے مجبوریوں میں،خرچے پورے کرنے،طالبعلم فیسیں دینے کے لیے محنت کرتے ہیں،اوپر تلے لگاتار شفٹیں کرتے ہیں۔آنہ آنہ بچاتے ہیں۔جب کئی سال گزر جاتے ہیں،حالات بدل جاتے ہیں تب تک یہ انکا طرز زندگی بن چُکا ہوتا ہے۔
برنچ کر کے پیرس سے نکل پڑے۔ اگلی منزل دارالحکومت سے سات سو کلومیٹر دور جنوبی سرحد کے قریب شہر تلوس(ز) تھی۔میرا میزبان چونکہ “اگ لاری بمب ڈرائیور”تھا تو سات سو کلومیٹر کوئی خاص لمبا سفر محسوس نہیں ہوا۔یہ سفر قدرے بورنگ ضرور تھا۔سڑک کے اطراف میں گھنے جنگل کی وجہ سے حدِ نگاہ بہت کم تھی اور مسلسل جنگل دیکھ کے طبیعت خاصی بور ہوتی رہی۔قریب سات گھنٹے گاڑی پوری ایمانداری سے بھاگتی رہی،اور شام کے نو بجے کے قریب ہم تلوس شہر میں تھے۔
یہ شہر بھی نانکہ شہر ہی ہے۔نانکے کے کُچھ لونڈے اس شہر ہوتے ہیں۔ہمارے پہنچنے تک کھانا تیار تھا۔کھانا کھا چُکے تو نئے میزبانوں نے چائے کا پوچھا۔میں نے روایت برقرار رکھتے کہا”اگر تُسی خود اس ٹائم پیندے او تے بنا لو،سپیشل محنت نہیں کرنی” دل بہرحال میرا کر رہا تھا۔تھوڑی دیر میں بیٹھک میں بیٹھے آٹھ بندوں میں سے صرف ایک میرے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا۔مجھے شرمندگی ہو رہی تھی،پھر سوچا مٹی پاؤ۔چائے کا مزہ لو۔
اگلی صبح مخصوص فرنچ ناشتہ کیا اور آوارگی کرنے شہر نکل گئے۔پیرس سے سات سو کلومیٹر دور یہاں بھی گلیوں میں پھول ہیں اور بے شمار ہیں۔کیپیٹول یعنی سٹی سنٹر یا اندرون شہر گئے تو وہاں بھی کیفوں کے باہر بیٹھنے کا رواج پایا۔اندرون شہر داخل ہونے والی مین سڑک کو بہت بڑی گرین بیلٹ سے تقسیم کرکے ون وے کیا ہوا تھا۔اس گرین بیلٹ پہ پھولوں کے گملے پڑے ہیں جن کے بیچوں بیچ کُچھ فکس اور کچھ عارضی بینچ لگے ہیں۔لوگ کافی لیے بیٹھے ہیں،دو دو چار چار ۔
اس شہر کو گلابی شہر کہا جاتا ہے جس کی وجہ اس کی اندرون شہر کی پرانی گلابی عمارتیں ہیں۔شہر میں گیارہویں صدی کا سینٹ سیرن کا چرچ ہے جس کی حال ہی میں تزئین و آرائش کی گئی ہے۔یورپ بے شک مذہب کو چھوڑ چکا ہے مگر مذہب کے نام پہ ہونے والی تعمیرات آج بھی ایسے کھڑی ہیں جیسے بارہویں صدی میں تھیں۔ان گرجہ گھروں کی مسلسل دیکھ بھال، تزئین و آرائش کی جاتی ہے۔یہاں گلیوں میں جتنا جدید دور نظر آتا ہے اتنا ہی ماضی بھی جھلکتا ہے۔اس شہر کی کونسل یا لوکل حکومت کا دفتر اندرون شہر میں واقع ہے۔یہ بہت بڑی شاندار عمارت جس کے سامنے تین سو میٹر تک جگہ خالی ہے جہاں میرے ورگے گاؤں سے آئے لونڈے فوٹو بنواتے ہیں۔اس کے سامنے کافی کی دکانیں، فرنچ ریستوران، کیفے اور کپڑوں کے برانڈز ہیں۔بیٹھنے کو یہاں پیرس سے بھی شاندار جگہ بنی ہوئی ہے۔ہر کیفے کے سامنے انکا فرنیچر پڑا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر کیفے کا فرنیچر الگ ہے مگر تھیم پورے کیپیٹول کا ایک جیسا ہے۔دور سے دیکھ کے فرنیچر میں کسی طرح کی تفریق نہیں کی جاسکتی۔مگر قریب آنے پہ سمجھ آتی ہے کہ ہر کیفے کا الگ انداز ہے۔
یہ شہر فرانس کا چوتھا بڑا شہر ہے۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر فرانس کا نقشہ دیکھا جائے تو سمجھ آتی ہے کہ فرانس نے کتنی ہنر مندی کے ساتھ اپنے شہر بسائے ہیں۔سارے بڑے شہروں میں قریب چار چار سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔یہاں لاہور،گوجرانوالہ اور گجرات کی طرز پہ یا لاہور شیخوپورہ اور لائلپور کی طرح اکھٹے شہر اور تجارتی مرکز نہیں ہیں۔یہاں لیون(Lyon) کے کسی باسی کو یہ نہیں کہا جاتا کہ ترقی دیکھنی ہوتو پیرس آ جاؤ۔بلکہ جو ترقی پیرس کے حصے میں آئی وہی سات سو کلومیٹر دور تلوس یا لیون کے حصے میں آئی ہے۔فرانس کے چار بڑے شہر پیرس سے دور ایک سویٹزرلینڈ کی سرحد پہ ہے،دوسرا بحرہ روم کے کنارہ مُناکو کی سرحد کے پاس،ایک سپین کی سرحد سے دو سو کلومیٹر دور ہے۔یوں سمجھ لیں اگر ریاست پنجاب فرانس کی طرز پہ آباد ہوتی تو لاہور ،پھر پنڈی، پھر ڈیرہ اسماعیل خان اور بہاولپور کو آباد کیا جاتا۔ان شہروں میں صنعت لگائی جاتی،یہاں ٹیکس چھوٹ ہوتی، یہاں سکول کالج اور ہسپتال ہوتے تاکہ ساری ریاست کی آبادی اور ریاست کا بوجھ لاہور کے ڈیڑھ سو کلومیٹر کے اندر نہ ہوتا۔
یہ شہر تلوس اپنی ہوائی انڈسری کی وجہ سے مشہور ہے۔یہاں جہاز بنانے والی ائیر بس کمپنی کا ہیڈ آفس ہے۔اس کے علاوہ اے ٹی آر کا پلانٹ اور ہیڈ آفس بھی اسی شہر میں ہے۔ہوا بازی، خلا اور ٹیلی کمیونیکیشن کے متعلق بے شمار دوسری کمپنیز اس شہر میں موجود ہیں۔اس شہر کا جی ڈی پی ہمارے فیصل آباد جیسے بڑے صنعتی شہر سے بھی زیادہ ہے۔
سارا دن کی آوارگی کے بعد شام کو پھر آوارگی کا منصوبہ بنا۔شام کی وائب کیا ہی کمال تھی۔لوگ کیفے اور بارز پہ بیٹھے ہیں،اندرون شہر کے پاس ہی ایک نہر گزرتی ہے جو دن میں کسی حد تک بورنگ تھی مگر رات کو وہاں ماحول ہی الگ تھا۔ایک طرف رنگا رنگ روشنائیوں سے سجا بڑا سا جھولا تھا ،ایک طرف گھنے درختوں کی اوٹ سے نظر آتا پُل۔اس پل کے اوپر قطار اندر لگی سفید روشنائیاں اور پُل کے نیچے مدھم بتیاں بڑا خوب منظر پیش کر رہی تھیں۔جوڑے نہر کنارے بیٹھے خورے کون سے حساب کتاب میں مصروف تھے کہ دنیا کی خبر ہی نہیں تھی۔
کافی رات تک ہم اطالوی مشہور آئس کریم کھانے کے بہانے وہاں آوارگی کرتے رہے۔واپسی پہ جرمن ایس یو وی چھوڑ کے شہر کی میٹرو کا گیڑا لگانا مناسب سمجھا۔میٹرو اچھی تھی،مگر بقول ہمارے ایک عزیز کے”او گل نہیں”۔
صبح سپین کے لیے نکلنا تھا،سو اب چاہتے نہ چاہتے نیند کو آنکھوں پہ سوار کرنا تھا۔۔
جاری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں