امریکی سرحد پار کرتے ہی کینیڈا کے صوبہ اونٹاریو میں واقع گریٹر ٹورنٹو ایریا آتا ہے جو چار مختلف میونسپلٹیز ڈرہم، ہیلٹن، پیل اور یورک کا مجموعہ ہے، جن میں نمایاں شہروں کے نام بریپمٹن، مسی ساگا، نیومارکیٹ، ایجکس، برلنگٹن، مِلٹن، رچمنڈ ہِل اور سب سے مشہور ٹورنٹو ہے۔ ننھا عمر بارڈر سے ہی مچل رہا تھا کہ اُسے واش روم جانے کی حاجت ہو رہی ہے مگر وہاں وہ بول نہیں پایا، چنانچہ بارڈر کراس کرتے ہی بےچارہ کار سیٹ میں ہی فارغ ہو گیا جس کا مجھے ذاتی طور پر بہت افسوس ہوا۔ فوراً مین ہائی وے شولڈر پر Blinkers آن کرکے گاڑی پارک کی اور Expedia app سے ہوٹل بُک کرکے طے کیا کہ اب پہلے ہوٹل میں اُسے نہلا دھلا کر اور بےبی سیٹ نکال کر آگے اپنے سٹوڈنٹ میاں عدنان کے گھر جاتے ہیں کیوں کہ اُس کے بار بار ٹیکسٹ میسجز آ رہے تھے۔ مگر پھر شام کے قریباً ساڑھے سات یعنی مغرب کا وقت چوں کہ قریب تھا تو طے کیا کہ نزدیکی گراسری سٹور کے ریسٹ روم (واش روم کی امریکی اصطلاح) میں عمر اور باقی دونوں بچوں کو فریش کرکے اُس کی طرف چلتے ہیں۔ چنانچہ عدنان کے فراہم کردہ پتے کے قرب میں واقع FreshCo نامی ایک گراسری سٹور کی پارکنگ میں بریک لگائی جہاں لاٹ سے سٹور اور سٹور کے گاہکوں سے لے کر ملازمین تک بندہ نہ بندے کی ذات بس دیسی سردار لوگ ہی نظر آئے۔ یہ غالباً کوئی سٹوڈنٹس اکثریتی علاقہ تھا کیوں کہ نزدیکی اپارٹمنٹ بلڈنگز سے ہوائی چپلیں پہنے اور ہاتھ میں سبزی ترکاری وغیرہ کے شاپرز تھامے سست رَو چال اپنائے تھکے ماندے چہروں اور جھکے کندھوں والے دیسی مرد بشمول خواتین خراماں خراماں سائیڈ واک (فٹ پاتھ) پہ ٹولیوں کی صورت بعد از شاپنگ واپس اپنے اپنے اپارٹمنٹ (فلیٹ) کی جانب گام زن تھے۔
خواتین و حضرات! غائب مسکراہٹ، تَنّے چہرے، جھُکے شانے، ڈھیلی چال، مُڑتی گردنیں، ڈریس پینٹ کے نیچے قینچی چپلیں، سائز سے دو گنا بڑی میلی کسیلی ٹی۔شرٹ، بِکھرے بال، پژمردہ personality Aura والے کراؤڈ میں اگر آپ کو آدھا گھنٹہ گزارنا پڑ جائے تو یقین کیجیے یہ بُری انرجی آپ کو کم از کم ایک ہفتہ تک ذہنی طور پر ڈپریشن میں مبتلا رکھتی ہے۔
احبابانِ گرامی! میں کوئی جج نہیں بن رہا مگر کہنا چاہتا ہوں کہ نجانے کیوں ہمارے برصغیری لوگ بات کرتے ہوئے روزمرّہ کے معمولات میں مسکرانا تک بھول چکے ہیں۔ کوئی پندرہ برس قبل کا واقعہ یاد آیا جب بطور ضلعی نادرا انچارج ضلع ٹوبہ ٹیک سِنگھ دفتری اوقات میں برطانیہ سے آئی ایک کسٹمر بطورِ خاص میرے ڈیسک پہ ایک احتجاجی شکایت لے کر آئی۔ کہنے لگی آپ کی فلاں سٹاف ممبر نے مجھے سرو کیا ہے مگر دورانِ ڈیٹا انٹری نہ ہی اُس نے مجھے پراپرلی greet کیا بلکہ ایک مرتبہ بھی مجھ سے نظریں نہیں ملائیں۔ اور تو اور وہ پانچ منٹ کسی روبوٹ کی طرح کمپیوٹر سکرین پہ نظر جمائے بنا مسکرائے مجھ سے rudely سوال جواب پوچھتی رہی اور آخیر میں اُس نے میری طرف باقاعدہ انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے فوٹو بوتھ والے مرحلے کی طرف راہ دکھلا دی۔ آپ بتائیے ایسے کون ڈیل کرتا ہے کسٹمرز کو؟ اور دوسری طرف میَں جو خود بعینہ اُس کے بیان کردہ محسوسات کے عین مطابق ابھی اُسی ڈیٹا انٹری آپریٹر خاتون کی طرز پہ جواب دینے کو پَر تول ہی رہا تھا، کہ اچانک تَنّے ہوئے چہرے پہ بمشکل مسکراہٹ لایا اور ہونقوں کی طرح، جی جی جی میں بات کرتا ہوں ابھی اُس ناہنجار سٹاف ممبر سے۔۔۔ہی ہی ہی آپ فکر نہ کریں۔۔۔ہا ہا اہا ۔۔ آپ بالکل درست فرما رہی ہیں۔۔۔جیسی مصنوعی مسکراہٹ آمیز کھچّوں سے گھر پورا کرنے کی کوشش کی۔ کیوں کہ سچ بات ہے کہ میں بھی سروس کوالٹی میں مسکراہٹ کے عنصر سے نا آشنا ہی تھا۔ جانتا ہوں کہ اُس وقت شاید وہ مجھے بھی کوئی weirdo ہی سمجھ رہی ہو گی مگر وہ مجھے ایک کلیہ سمجھا گئی کہ انسان کی کھانے پینے، رہنے اور تن ڈھانپنے جیسی بنیادی حاجتوں سے بھی اہم ضرورت “توجہ طلب عزت” ہے۔ اور اِس کا آغاز بات کرتے وقت خوش گوار انداز میں ہمہ تن گوش رہ کر سامنے والے کی “بات” کو سننا یا “بکواس” کو برداشت کرنے سے ہوتا ہے۔ باقی مجھے ایسا لگتا ہے کہ گھر سے باہر نکلتے وقت انسان کو تھوڑا بہت اپنی ڈریسنگ سینس کو معطر و سنوار کر نکلنا چاہیے نہ کہ ٹوٹے بٹن، کھلی آستینں، لَمّے ٹِڈ، ‘کھسماں نوں کھانی’بے ڈھنگی چال اور ‘ٹُٹ پینی’ قینچی چپلوں کو ڈریس پینٹس کے نیچے پہن کر باہر نکل آنا لازم و ملزوم سمجھ لینا چاہیے۔
اہلیہ نے کہا کہ بڑے بچے سو رہے ہیں تو آپ پہلے ریسٹ رومز کی حالتِ زار دیکھ آئیے کہ ننھے عمر کو صاف ستھرا کرکے ہی آپ کے دوست/سٹوڈنٹ کے گھر لے کر جانا مناسب ہو گا۔ میں جلدی جلدی پارکنگ لاٹ سے سٹور کے داخلی دروازے سے اندر داخل ہوا تو سٹاف سے لے کر گاہک تک سبھی لوگ برصغیر پاک و ہند و مضافات بشمول صحرا و دریا نگر کے مہاجرین وہاں نظر آئے۔ کینیڈا میں ریسٹ روم کو واش روم کہا جاتا ہے تو سائن بورڈ دیکھ کر جب اندر داخل ہوا تو شدید ترین ناگفتہ بہ صورتِ حال کا سامنا ہوا۔ بدبو کے بھبھوکوں نے موئے ناک خاکستر کر کے رکھ دئیے اور مزید کمی کسی بدبخت نے شاید بغل (احتیاطاً لکھ رہا ہوں) کے بال سستے ریزر سے مونڈھ کر اُس واش روم کے فرش پر گرا رکھے تھے ۔
او چَولَو! تہانوں لَووے مولا استغفراللّٰہ!
طبعیت مکدر ہو چکی تھی اور مجھے نہیں علم تھا کہ لیڈیز واش روم کی حالت کیسی ہو گی مگر باہر نکلنے سے پہلے بچے کچھے سوپ ڈسپنسر سے بمشکل ہاتھ دھو کر ایک سٹور اہل کار سے بنا کسی جھجھک کے ٹھیٹھ پنجابی میں پوچھا:
پاءجی! کیک کتھے پیا جے؟
(بھائی صاحب! کیک کس سیکشن میں ہے؟)
بولا: بائی جی! او سامنلے پاسے آلو تے پیاج پے ویکھ رے او، اوہدے پشِلے پاسے۔
(بھائی جی! وہ سامنے آلو اور پیازوں والے سیکشن کی دوسری جانب)
خیر کیک دیکھنے میں معیاری اور اچھے لگ رہے تھے سو عدنان کے لیے چاکلیٹ ونیلا آئٹم اُٹھایا اور چیک آؤٹ کاؤنٹر سے ایپل پے سے ادائیگی کرکے پارکنگ لاٹ میں کھڑی ایس یو وی میں آن پہنچا۔ اہلیہ نے واش رومز کا پوچھا تو نقشہ کھینچنے کی ہمت نہ ہوئی بس یہی کہا کہ مجبوری ہے اگر عمر کو صاف کرنا ہے تو گزارا کر لو مگر حال کوئی نہیں۔ وہ بے چاری عمر کو لے گئیں اورواپسی پہ جیسے اُنہیں بھی چُپ سی لگ گئی تھی۔ میں نے کریدنا مناسب نہیں سمجھا اور ویز میپ ایپلیکشن میں دس منٹ کی دوری پر میاں عدنان کے گھر کی طرف سٹئیرنگ وہیل موڑ دیا۔ راستے میں بھی اہلیہ خاموش رہیں تو مجھے لگا کچھ ٹھیک نہیں سو ہمت کرکے پوچھ ہی لیا:
“سب ٹھیک تو ہے”؟
کہنے لگیں: تھے کوئی دو سٹوڈنٹ ٹائپ بدتمیز سردار جو مجھ سمیت آس پاس کھڑی دیگر کئی خواتین اور چھوٹے بچوں کی موجودگی کو سراسر نظرانداز کرتے ہوئے انتہائی تھرڈ کلاس لینگوئج میں ایک دوسرے سے مخاطب تھے، آپ مجھے کس قسم کے کینیڈا میں لے آئے ہیں؟
عموماً میں فیملی کے ساتھ انتہائی ضبط و تحمل سے جذبات پہ قابو رکھتا ہوں مگر اُس لمحے میرا خون کھول اُٹھا تھا۔ اہلیہ سے کہا کہ آپ مجھے اُسی وقت کال کرتیں تو میں سٹور واپس آ جاتا۔ مگر پھر وہ خود ہی کہنے لگیں، لعنت بھیجیے ویسے بھی گاڑی میں سوئے باقی دو بچوں کی راکھی کے لیے بھی تو ہم دونوں میں سے کسی ایک کو موجود ہونا چاہیے تھا، آپ بس ڈرائیونگ پہ فوکس رکھیے۔ اگر کوئی مسئلہ ہوتا تو I know how to handle and report such idiots.
بہرحال! فون سکرین دیکھی تو عدنان کی کال آ رہی تھی، اُسے کہا کہ دروازہ کھولو ہم بس دو گلیاں دور ہیں۔ مغرب ہو چکی تھی سو اگلا موڑ لیتے ہی سامنے شلوار قمیص میں ملبوس عدنان گھر کے باہر کھڑا مسکراہٹ آمیز استقبال کرتا نظر آیا۔ میں نے اُس کی ڈرائیو وے پہ ایس یو وی پارک کی اور اتر کر اُسے گرم جوشی سے گلے لگایا۔ تھکے ماندے قافلے سمیت عدنان کی بیٹھک میں اُس کی ساس اور سسر محترم اور بچوں سمیت بھابھی نے خوش آمدید کہا۔ گپ شپ کا سلسلہ شروع ہوا اور جی سی یونیورسٹی کے کلاس رومز کی شرارتوں کے تذکروں سے لے کر کینیڈا یاوری تک کی کامیابیوں کے قصے دہرائے گئے۔ عدنان کا تعلق لائل پور بلکہ پاکستان کی سب سے بڑی تحصیل جڑاں والہ سے ہے۔ نہایت بیبا، منکسر المزاج اور باادب لڑکا ہے۔ سَر سَر کی تکرار کرتے مجھے مخاطب کرتا رہا تو نجانے کیوں مجھے عجب سی حیا آڑے آنے لگی۔ اُسے کمفرٹیبل کرتے ہوئے چند شائستہ لائل پوری جگتوں کا تڑکا شاملِ گفتگو کیا اور عدنان کی محترمہ ساس اور محترم سسر جناب وارث صاحب سے خوش گپیوں کا سیشن نہایت دلچسپ جاری رہا۔
عدنان اور اُس کے سسر محترم وارث صاحب سے مسی ساگا کی جاب مارکیٹ اور اکانومی بارے گفتگو ہوئی تو معلوم پڑا کہ حالات کافی مخدوش ہیں۔ کینیڈا اب بھارتی مہاجرین کی bulk migration کے سبب اب انڈیا سے باہر دوسرا انڈیا بن چکا ہے۔ جن میں بیشتر مہاجرین تو دونمبر طریقے جب کہ کئی جینوئن ایمیگریشن کرکے یہاں آن بسے ہیں۔ برطانوی شاہی تاج کے زیرِ نگیں اِس کامن ویلتھ ملک کا شمار ترقی یافتہ و امیر ترین معیشتوں میں ہوتا ہے لیکن ہمسائیگی میں امریکہ جیسی دیو صفت اکانومی کے آگے کینیڈا آج بھی بغل بچہ ہی ہے۔ مفت صحتِ عامہ اور شہری سہولیات کا سسٹم ایک ہی خطے یعنی مشرقی ایشیائی باشندوں بالخصوص پاک و ہند و بنگالی مہاجرین کی چالاکیوں اور دیگر وجوہات کے باعث اوَور لوڈ یا تقریباً choke کر چکا ہے۔ اپنے پاکستانیوں کے مقابلے میں انڈین نہایت سمارٹ و منظم قوم ہیں اور یہ گرے کالر جابز سے ہٹ کر وائٹ کالر جابز میں ہاتھ پاؤں لازماً مارتے ہیں اور خاص طور پر کینیڈا کی سیاست میں سکھ اور ہندو برادری بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے ہیں تو اِسی سبب قومی پالیسی سازی میں انڈین مہاجرین کے مفادات کو کافی فوقیت حاصل ہے۔
مثلاً کینیڈا کی یونیورسٹیز و تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے انٹرنیشنل سٹوڈنٹس میں بھارتیوں کی تعداد سرفہرست ہے۔ اِن اداروں کی ادا کردہ بھاری بھرکم فیسز کینیڈین معاشی آنکڑوں کا اہم جزو بن چکی ہے اور اِسی سبب اِن بین الاقوامی طلباء کو قانوناً بیس (20) گھنٹے فی ہفتہ جاب کرنے کی اجازت بھی حاصل ہےاور شنید ہے کہ یہ ماہِ ستمبر 2024 میں شاید بڑھا کر چوبیس (24) گھنٹے تک کر دی جائے گی۔ مقامی بزنس اور کاروباری ادارے بالخصوص ریستوران و گراسری سٹور یا چھوٹے موٹے کاروبار ایسے سٹوڈنٹس کو ملازمت میں ترجیح دیتے ہیں جس سے مقامی کنیڈین شہری سخت ناخوش ہیں۔ دراصل کاروباری آجر کومستقبل کے خواب دیکھنے والے جوشیلے سٹوڈنٹس کی صورت ایک طرف تو سستی لیبر مل جاتی ہے۔ اور دوسری طرف اپنے کچے ویزہ کی insecurity کا بار اُٹھائے یہ نوجوان دیسی آجر (جس کے لیے آقا کا لفظ شاید مناسب ہو) کی سختی اور طےکردہ قانونی اوقات کار سے کہیں زیادہ گھنٹے بھی لیبر فراہم کرنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں جو بسا اوقات پچاس سے ساٹھ گھنٹے تک چلی جاتی ہے۔ انڈر دا ٹیبل اَوور ٹائم کے لالچ میں یہ لڑکے لڑکیاں باقاعدہ طور پر اِن مقامی دھندے بازوں سے مسلسل abuse ہونے کے باوجود بھی کام پہ لگے رہتے ہیں۔ اپنی یونیورسٹیز کے خرچے پورے کرنے کے لیے یہ طلباء مختلف اپارٹمنٹس میں مشرقِ وسطیٰ کی لیبر کی طرز پر کمرے لے کر بیڈ سپیس شیئرنگ میں رہتے ہیں اور ہفتے میں اپنی باری آنے پر کھانا پکانا اور گراسری لانے میں بھی مل بانٹ کر رہتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے قدرے قدامت پرست میل جول قوانین کے برعکس کینیڈا کے آزاد خیال مائنڈ سیٹ کے سبب اخلاقی قدروں میں شدید گراوٹ کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ مقامی کینیڈین شہریوں سے شادی کرکے مستقل سکونت اختیار کرکے پکا ہونے کی دُھن، دھوکہ دہی سے شادیاں کرکے Permanent Residency ملتے ہی طلاق دینے اور پیار محبت کے جھوٹے عہد و پیمان کے داؤ پیچ سے ڈسی ہوئی یہاں کی قدامت پرست فیملیز کو اپنے بچے بچیوں کے مناسب رشتے تلاش کرنے میں بھی بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑ رہا ہے۔ GTA ایریا کے مقامی شہریوں میں ناپسندیدگی کی ایک بڑی وجہ کھیت کھلیان بیچ باچ کر کینیڈا آنے والے اَتھرے پنجابی مُنڈوں کا احمقانہ شو آف بھی ہے۔ یہ لونڈے لپاڑے لینڈ کرتے ہی سِدھو موسے والا کے گانے لگا کر Audi, Mustang, BMW, Mercedes جیسی مہنگی گاڑیاں بلند سودی شرح پہ لیز لے کر کینیڈے کی سڑکوں پہ زِگ زیگ بھگاتے پھرتے ہیں۔ ایک اور بڑا مسئلہ مقامی تعلیمی اداروں میں غیرملکی طلباء کی فراوانی کے سبب گریٹر ٹورنٹو میٹروپولیٹن ایریا میں شدید housing crisis کا بھی درپیش ہے۔ ہر دوسرے تیسرے گھر کی بیسمنٹ میں دیسی برصغیری سٹوڈنٹس آن بسے ہیں۔ اور اگر کسی شریف فیملی کی بیسمنٹ میں کوئی لُچے لفنگے یا پینے پلانے اور پارٹی کرنے والے بدتمیز کرایہ دار سٹوڈنٹس آن بسیں تو قانونی طور پر مالکِ مکان کو اپنی پراپرٹی خالی کرانا بہت بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ کینیڈا کا قانون و عدالتی نظام بھی بےگھری کے معیشتی بوجھ سے بچنے کے لیے کرایہ دار کی زیادہ طرف داری و حمایت میں کھڑا نظر آتاہے۔ اسی لیے مالکِ مکان و کرایہ دار دونوں جانب اعتمادی فقدان ہے اور یوں پراپرٹی کرایئسس کے سبب مکانوں کی قیمتیں اور کرائے آسمانوں سے باتیں کرنے لگے ہیں۔
انہی موضوعات پہ بات چیت میں سیز فائر کرواتے ہوئے بھابھی نے ڈنر کا اعلان کیا اور نہایت پُرتکلف عشائیے کے اہتمام اور پھر بعد از طعام گھر کی گرما گرم تیز پَتّی والی فرمائشی چائے نے تو گویا سفری تکان کا خاتمہ بالخیر کر دیا۔ عدنان و بھابھی اور بالخصوص عدنان کے ساس و سسر نے اپنے ہاں ٹھہرنے پہ بہت اصرار کیا مگر انہیں ننھے عمر سلمان کے ہوٹل روم میں ٹھہرنے کا شوق بطور وجۂ سفر بتائی گئی تو مستقبل کے وعدوں کے بعد بمشکل جان بخشی ہو ہی گئی۔ پُرخلوص و پُرتکلف تحائف کے تبادلوں کے بعد GTA کے شہر نیومارکیٹ میں واقع چار ستارہ ہوٹل کی جانب راہ لی اور یقین مانیے الباکستانی کھچ استقبالیہ کنفیوزڈ سٹاف ممبر نے اپنے روایتی سروس سٹینڈرڈز سے بالکل بھی مایوس نہیں کیا۔ ہوٹل چیک اِن کرتے ہی ڈپریشن آمیز اپنائیت سی محسوس ہوئی کہ لگ بھگ دو سو امریکی ڈالر فی دِن کے حساب سے بک شدہ ہوٹل میزبانی روایتی ناگفتگی کا شکار نکلی۔ دراصل ہوٹل شاید حال ہی میں پاکستانی انتظامیہ نے شاید میرئیٹ ہوٹل چین سے بطور فرنچائز خریدا تھا کیوں کہ باہری بورڈ اب بھی FairfieldInn by Marriott کے نام سے جگمگا رہا تھا۔ ہوٹل کی مرکزی لابی میں تزئین و آرائش و مرمتی کام کے سبب استقبالیہ پہ جابجا کاٹھ کباڑ پڑا تھا جسے “کام جاری ہے” کے نام پر شایدکسی نے ہٹانے کی زحمت کرنا گوارا نہیں کیا۔ بہرحال کسی طور تیسری منزل پہ واقع سوئیٹ میں پاؤں پسارنے نصیب ہوئے جو کم ازکم نیویارکی ہوٹل سے کافی بہتر حالت میں تھا۔ راقم نے بچوں کو باری باری ٹانگوں اور کمر پہ دس پندرہ منٹ چلوا کر اگلے روز کی سیر کا سوچتے سوچتے اِسپ فروشی کا خوابیدہ کاروبار شروع کر دیا۔
کنیڈے کے GTA Area کا میرا یہ دوسرا پھیرا اب تک مِلے جُلے جذبات لیے ہوئے تھا۔ جو کسی قدر embarrassing جب کہ عدنان سے ملاقات کے سبب کافی بہتر بھی محسوس ہو رہا تھا۔ آنے والے کل کے منصوبوں میں مقامی کھابوں اور سیر کے پروگرام شاملِ منصوبہ تھے جن کر تذکرہ اگلی قسط میں آئے گا۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں