بچپن میں میں اپنے بڑے ابا (رحمہ اللہ) کے خاصا قریب رہا ہوں، جن دنوں میں مکتب میں تھا وہ ناظم ہوا کرتے تھے۔ میری تعلیمی سرپرستی کرنے، خوشخطی کی باریکیاں سکھانے کے ساتھ ساتھ وہ بسا اوقات کچھ سبق آموز قصے بھی سنایا کرتے تھے۔ ایک بار انہوں نے ایک کہانی سنائی تھی۔۔۔ آپ بھی پڑھیں
ایک باپ نے اپنے بیٹے کو فائن آرٹس کی تعلیم دلوائی۔ فراغت کے بعد کہا کہ بیٹا تم بالکل ایک ہی جیسی دو آئڈینٹیکل پینٹنگس بناؤ۔ بننے کے بعد باپ نے کہا کہ ایک پینٹنگ پہ نیچے نوٹ لکھ دو کہ “ناظرین سے درخواست ہے کہ اس میں جس جگہ کوئی خامی ہو تو اس پر نشان لگادیں” اور لے جاکر چوراہے پر کسی ایسی جگہ لگادو جہاں ہر گزرنے والے کی اس تک رسائی ہوسکے۔ بیٹے نے ایسا ہی کیا، جب دو دن بعد پینٹنگ اتار کر واپس لایا تو بیحد مایوس تھا کیونکہ اس پر اتنے نشان لگ چکے تھے کہ اصل پینٹنگ کہیں نظر تک نہ آرہی تھی۔ ۔ بیٹے کو مایوس و پریشان دیکھ کر باپ نے کہا کہ “بیٹا! اب دوسری والی پینٹنگ کے نیچے لکھو کہ ۔۔۔ ناظرین سے درخواست ہے کہ اس پینٹنگ میں جہاں کہیں کوئی خامی ہو اس کی تصحیح کردیں اور لے جاکر چوراہے پر بالکل اسی جگہ لگا دو”۔ بیٹے نے باپ کی اطاعت کرتے ہوئے ایسا ہی کیا، اور اس بار جب دو دنوں بعد اسے واپس لایا تو پینٹنگ بالکل بے نشان اور شفاف تھی۔ اب باپ نے سمجھایا کہ بیٹا یہ دنیا ہے، تنقید سب سے آسان ترین کام ہے جبکہ کچھ بہتر کرنا سب سے مشکل امر ہے، اگر آپ کچھ اچھا کرتے ہیں تو آپ کو ان ناقدین کی بالکل پرواہ نہیں کرنی چاہیے جو اپنے اندر رتی بھر صلاحیت نہ ہونے کے باوجود آپ کی صلاحیتوں کو ہمیشہ تنقید کے نشانے پر رکھتے ہیں۔
صرف کہانی نہیں، زمینی حقائق بھی بالکل ایسے ہی ہیں۔ میں آۓ دن دیکھتا ہوں کہ کچھ نوعمر بچے نا صرف بہت اچھا لکھتے ہیں بلکہ انکی تحریروں میں انکی نیتوں کا خلوص اور معاشرتی اصلاحات کے تئیں انکی دِلی ٹرپ بھی صاف نمایاں ہوتی ہے۔ اس کے باوجود جہاں کچھ احباب ستائشی کمنٹس سے انکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں وہیں ایک بڑی تعداد انکی مثبت تحریروں کو بھی بیجا تنقید کا ہدف بنالیتی ہے، بعض تو انکی ذاتیات تک کو نشانہ بنانے جیسی سطحیت پر بھی اتر آتے ہیں۔ میں یہ تو قطعاً نہ کہوں گا کہ اس کے پس پردہ حسد کارفرما ہے یا کوئی اور وجہ، البتہ اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اچھا لکھنا، اچھا بولنا، لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا، اپنی تحریر و تقریر سے سیکڑوں دماغوں پر چھاپ چھوڑنا، نا صرف شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے بلکہ یہ وہ دار و رسن ہے جو ہر مدعی کے نصیب میں نہیں۔
تنقید کریں، ضرور کریں، پر براۓ تعمیر کریں۔۔ ۔ نہ بھولیں کہ اچھا لکھنے بولنے والوں کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی ہمارا ایمانی فریضہ ہے، ہم اپنی محدود صلاحیتوں کے چلتے ان جیسا نہیں کرسکتے پر اللہ کے ہاں کم از کم شرمندگی سے بچ تو جائیں گے کہ ہم نے اچھا کر پانے والوں کا ساتھ دیکر اپنی بساط کی حد تک اصلاح معاشرہ میں اپنا تعاون پیش کیا تھا۔ ساتھ ہی میری اپیل ہے سوشل نیٹ ورکس یا فیلڈ میں اچھا کرنے والے نوجوانوں سے بھی کہ آپ کو لومتہ لائم کی پرواہ کئے بنا اپنا کام نا صرف جاری رکھنا بلکہ مزید وسیع تر کرنا چاہیے ۔ نا صرف فیس بک بلکہ ایکس، انسٹاگرام اور یوٹیوب جیسے ذرائع کی مدد سے اپنی ریچ بڑھانی چاہیے ۔ آپ سے بحیثیت مسلمان یہ نہ پوچھا جائے گا کہ آپ پر تنقید کرکے کتنوں نے آپ کا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی، ہاں یہ سوال ضرور ہوگا کہ آپ کو علم و دماغ، صلاحیت و توانائی اور وسائل سے نوازا گیا تھا اور آپ نے کیا کیا؟ ۔ اور ہاں، جب آپ کچھ بھی بہتر کریں گے تو آپ کو خود سر، پاگل، ریاکار حتی کہ بے وقوف تک کا خطاب دیا جائے گا ، اب یہ آپ پر ہے کہ آپ ان سب آوازوں پر دھیان دے کر اپنی ذہنی سماعتوں کو بوجھل کرکے یہ سوچتے ہوۓ کہ “عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کردیا”خاموش بیٹھ جائیں یا یوں کہتے ہوئے آگے نکلتے جائیں کہ۔۔
منزلیں لاکھ کٹھن آئیں گزر جاؤں گا
حوصلہ ہار کے بیٹھوں گا تو مر جاؤنگا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں