پندرہ اگست 1947 کو جب نئی دہلی میں انڈیا گیٹ کے پاس بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو برطانوی یونین جیک کو اتار کر قومی پرچم لہرا کر ملک کو آزادی کی نوید سنا رہے تھے، اسی طرح کی ایک تقریب سینکڑوں میل دور کراچی کے پیلس ہوٹل کے لان میں بھی منعقد ہو رہی تھی۔ مگر دہلی کے جم غفیر کے بجائے اس میں بس دوہی افراد شریک تھے۔ 12 اگست کو ہی نہرو نے اپنے ایک قریبی ساتھی سری پرکاسا کو پاکستان میں بھارت کے پہلے ہائی کمشنر کے بطور کراچی بھیج دیا تھا اور اسی دن انہوں نے چارج لے کر ہوٹل کے ایک کمرے کو بھارت کا سفارت خانہ بنادیا، جبکہ ابھی سرحدوں کا تعین ہونا باقی تھا۔
انہوں نے ایک مقامی سندھی کانگریس لیڈر چھوٹو رام گڈوانی کو بینڈ باجے اور گانے والوں کا انتظام کرنے کا کام سونپا تھا۔ مگر گڈوانی سندھ کے پاکستان میں شامل ہونے پر دکھی تھے اور کانگریس لیڈروں سے سخت ناراض تھے۔ وہ تقریب میں شامل ہی نہیں ہوئے۔
سری پرکاسا نے اکیلے جھنڈا لہرایا اور بطور سامع اور مد د کے لیے ہوٹل کے ایک ویٹر کو آمادہ کیا۔ پرکاسا نے خود ہی اکیلے وندے ماترم گا کر جھنڈے کو سلامی دی۔ 1952 تک دونوں ممالک کے درمیان سفر کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔مگر سفارتی مشن اجازت نامے جاری کرتے تھے۔
پاکستان میں ہندوستان کے آخری ہائی کمشنر اجے بساریہ کی 558 صفحات پر مشتمل کتاب اینگر مینجمنٹ: دی ٹروبلڈ ڈپلومیٹک ریلیشن شپ بٹوین انڈیا اینڈ پاکستان ایسے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے۔
اپنی یاد داشت لکھنے کے بجائے بساریہ نے، جو 2017 سے 2020 تک ہائی کمشنر کے عہدہ پر رہے، پاکستان میں 1947 سے لے کر موجودہ دور تک بھارت کے سبھی 25 سفیروں کے تجربات کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ چند تضادات اور کچھ غلط تشریحات کو چھوڑ کر یہ کتاب، بھارت اور پاکستان کے تعلقات و حالات پر نظر رکھنے والوں اور تجزیہ کاروں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں ہے۔
انہوں نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے پرائیویٹ سکریٹری کے طور پر بھی کام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ واجپائی نے پاکستان کے حوالے سے جب وزارت خارجہ سے مشورہ مانگا تھا، تو ان کو بتایا گیا کہ پاکستان کے ساتھ بھارت کا رویہ ‘صبر، تحمل، معقولیت اور تعاون’ والا رہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ ان کو بتایا گیا کہ مسائل اور اختلافات کے پرامن اور دو طرفہ حل کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
پاک و بھارت تعلقات کا المیہ ہے کہ کبھی لیڈروں کے درمیان کچھ ایسی گاڑھی چھنتی ہے کہ لگتا ہے کہ تمام مسائل اب حل ہونے والے ہیں، مگر پھر حالات واپس وہیں پہنچ جاتے ہیں۔
بھارت کے پاور گلیاروں میں عمومی تاثر یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست اور اقتدار اعلیٰ پرفوج کے غلبہ کی وجہ سے اسی طرح کے حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں تاثر ہے کہ ہندوستانی رہنماؤں کی تنگ نظری اور کسی بھی معاملے میں کوئی چھوٹ نہ دینے کی روش اس کی جڑ ہے۔
بھارت میں سوشلسٹوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ نہ ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی الگ الگ رہ سکتے ہیں۔ وہ آئے دن اتحاد بناتے ہیں اور پھر توڑ دیتے ہیں۔ یہی حال کچھ بھارت اور پاکستان کے تعلقات کا بھی ہے۔ آزادی کے بعد سے لے کر آج تک ہر دہائی میں کشیدگی، حتیٰ کہ جنگیں بھی ہوئی ہیں، مگر اس کے ساتھ تعلقات پھر استوار ہوئے ہیں۔
کشیدگی اور دوستی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ شاید ہی دنیا کے کسی اور خطے میں ایسی مثال ہو۔ 1947-57 کی پہلی دہائی میں جنگ اور فسادات میں لا تعداد جانیں گئیں، مگر اسی دہائی میں نہرو لیاقت معاہدہ بھی ہوا۔ 1957-67 کی دوسری دہائی میں پھر جنگ ہوئی، مگر اسی کے ساتھ سندھ تاس آبی معاہدہ اور تاشقند معاہدہ بھی ہوا۔ 1967-77 کی تیسری دہائی میں، ایک اور جنگ جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش وجود میں آیا، لیکن پھر شملہ معاہدہ بھی ہوا۔
چوتھی دہائی 1977-87 میں پنجاب میں آپریشن بلیو سٹار کے ساتھ سیاچن گلیشیر دنیا کا بلند ترین جنگی تھیٹر بن گیا، مگر اسی دوران صدر ضیاءالحق نے ہندوستان کا دورہ بھی کیا۔ پانچویں دہائی 1987-97 کشمیر میں مسلح تحریک، ممبئی بم دھماکوں کو گونج سنائی دی۔ مگر اسی کے ساتھ جامع مذاکراتی عمل کا بھی آغاز ہوگیا۔ 1997-2007 کی دہائی کے دوران پوکھران اور چاغی کے صحرا ایٹمی دھماکوں سے لرز اٹھے، کرگل جنگ بھی ہوئی، مگر پھر لاہور اور اسلام آباد میں امن کی نوید سنائی دی۔
اگلی دہائی 2007-17 میں ممبئی میں دہشت گردانہ حملے، سرجیکل اسٹرائیکس ہوئی، مگر وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ہم منصب نواز شریف کے گھر لاہور میں شادی کی تقریب میں شرکت کی ۔پھر اگلے چھ سالوں میں 2017-24 کے دوران پلوامہ بم دھماکوں، بالاکوٹ پر ہندوستانی فضائیہ کے حملوں اور پاکستان کے جوابی حملوں، جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی نے کشیدگی کو انتہا تک پہنچادیا۔
مگر ہندوستانی فائٹر پائلٹ ابھینندن کی واپسی، لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی اور کرتار پور راہداری کے افتتاح نے اس آگ پر کسی حد تک پانی ڈالنے کا کام کیا۔
ذاتی تعلقات کے حوالے سے دونوں ممالک کے لیڈروں اور سفارت کاروں کی آپس میں خوب بنتی ہے۔ بساریہ رقمطراز ہیں کہ جب راجیشور دیال 1958 میں سفیر تعینات ہوئے تو پاکستان فوجی آمر ایوب خان کو ان کو اپنی اسناد سونپنی تھیں۔ تقسیم سے قبل دونوں اتر پردیش کے شہر متھرا میں ڈیوٹی انجا م دے چکے تھے۔
دیال بطور ضلعی اہلکار اور ایوب خان ہندوستانی فوج میں بطور کیپٹن وہاں تعینات تھے۔ دیال جونہی ہال میں داخل ہوئے، ایوب خان نے پروٹوکول کی دھجیاں اڑا کر دروازہ کی طرف دوڑ لگا کر دیال کو گلے لگایا اور اس کے خاندان وغیرہ کی خیر وعافیت پوچھنے لگا۔
دیال نے صدر پاکستان کو یاد دلایا کہ اس وقت وہ کچھ سنجیدہ تقریب کے لیے آئے ہیں۔ ایوب نے سنبھل کر ان کا ہاتھ چھوڑ کر تقریب شروع کرنے کا عندیہ دیا۔
دہلی میں انہی دنوں، نہرو جو خود ہی وزیر خارجہ بھی تھے، نے پاکستان کے ہائی کمشنر اے کے بروہی کے ساتھ رابطے کا ایک چینل کھولاتھا۔ جنہیں ایوب نے فروری 1960 میں دہلی بھیجا تھا۔وہ بھارت کے مشہور سندھی قانون دان، بعد میں واجپائی دور میں وزیر قانون رام جیٹھ ملانی کے سرپرست بھی رہے تھے۔
بساریہ لکھتے ہیں کہ؛
نہرو کشمیر پر معمولی ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کے حامی تھے، لیکن جب وہ کراچی میں سندھ طاس معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد مری کے تفریحی مقام پر ایوب خان کے ساتھ کشمیر و دیگر امور پر بات چیت کرنے گئے، تو ان کا رویہ انتہائی سرد مہری کا تھا۔ ایوب خان نے بعد میں بتایا کہ جب بھی وہ کشمیر کے بارے میں بات چیت شروع کرنے کی کوشش کرتے تھے، تو نہرو کھڑکی کے باہر کے مناظر پر تبصرہ کرتے تھے۔
جنوری 1963 کو دونوں ممالک نے کشمیر کے حوالے سے بات چیت کے کئی دو ر منعقد کیے۔ اس میں پاکستان نے محسوس کیا کہ بھارت نے رائے شماری کو مسترد کرنے کے لیے ایک نیا بہانہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ یعنی کہ اگر کشمیری مسلمان پاکستان کے حق میں ووٹ دیتے ہیں، تو بھارت کے ہندو اس کو بے وفائی سے تعبیر کرکے اس کا غصہ ہندوستانی مسلمانوں پر نکال سکتے ہیں۔ جس سے فرقہ وارانہ حالات بگڑ سکتے ہیں۔ پاکستان کشمیر کی تقسیم، جس میں اس کو کشمیر وادی، ریاسی، میرپور اور پونچھ کے اضلاع کا ایک حصہ مل جاتا،پر آمادہ تھا۔ مگر ہندوستان کی تجویز تھی تقسیم سیز فائر لائن کی معمولی ایڈجسٹمنٹ کے حساب سے ہو۔ یہ مذاکرات با لآخر 16 مئی 1963 کو دم توڑ گئے۔
کتاب کے مطابق، جب 1965 کی جنگ شروع ہوئی، تو سب سے کم معلومات بھارتی ہائی کمشنر کیول سنگھ کو تھیں۔ ان کو عملی طور پر گھر میں نظربند کر دیا گیا اور ریڈیو و دیگر مواصلات سے ان کا رابطہ منقطع تھا۔ ان کو 28 ستمبر کو معلوم ہوا کہ جنگ ختم ہو چکی ہے۔ اب وہ تاشقند جانے کے لیے کمر بستہ ہو رہے تھے۔ وہاں پہنچ کر جب انہوں نے اپنے ہم منصب ارشد حسین کو سلام کرنے کی کوشش کی، تو انہوں نے ان کو جھڑک دیا۔
خیر دلبرداشتہ ہوکر وہ ہال سے باہر نکلے، حسین نے ان کو کاریڈور میں بتایا کہ صدر ان کو تاڑ رہا تھا، اس لیے انہوں نے سرد مہری دکھائی۔ اگلے چند روز جب معاہدے کے کوئی سر و پیر نظرنہیں آرہے تھے، تو دونوں ہائی کمشنران تاشقند ہوٹل کے سامنے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹل اسٹور پر خریداری کرنے پہنچے۔ خریداری تو بہانہ تھا۔ حسین نے سنگھ کو سمجھایا کہ پاکستانی وفد کے لیے ایسی دستاویز کے ساتھ گھر جانا مشکل ہو گا جس میں کشمیر کا حوالہ نہ ہو۔ اسی اسٹور میں دونوں نے معاہدہ کے مندرجات کو ڈرافٹ کیا اور پھر اپنے وفود کے سربراہان کو پیش کیا۔
کتاب کے مطابق،1971 کی جنگ سے پہلے، ہندوستانی ہائی کمشنر جئے کمار اٹل کو پاکستانی صدر یحییٰ خان نے پانچ نکات پر مشتمل امن مساعی کی پیشکش کی۔ یحییٰ تجویز کر رہے تھے کہ؛ بھارت اور پاکستان عدم جارحیت کے معاہدے پر دستخط کریں۔ بھارت مشرقی پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بحال کرے۔
نورالامین (مجیب کے مخالف ایک منتخب بنگالی سیاست دان) کو پورے پاکستان کے لیے حکومت کا سربراہ مقرر کیا جائے؛مہاجرین کی مشرقی پاکستان واپسی؛ اور تین سال میں ریفرنڈم کرایا جائے گا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ مشرقی پاکستان آزاد ہونا چاہتا ہے یا نہیں۔دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سجاد حیدر بھی ان تجاویز پر زور دے رہے تھے۔ اندرا گاندھی نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انتخابات ہو چکے ہیں، اور ان میں عوام نے رائے دی ہے اس لیے نورالامین کو سربراہ بنانا اور رائے شماری پر ان کو اعتراض تھا۔
اس دوران اسلام آباد میں امریکی سفیر، جوزف فارلینڈ تہران میں ہندوستان، عوامی لیگ اور پاکستان کے نمائندوں کی میٹنگ کروانے کے حوالے سے پرجوش تھے۔ بھارتی ہائی کمشنر ان کو امیدیں دلا رہے تھے۔ وہ ان کو بتا رہے تھے کہ پاکستان میں یحییٰ کے ذریعے فوری طور پر ایک سویلین حکومت کی تشکیل اور اقتدار کی منتقلی بروقت اقدام ہوسکتا ہے۔
امریکی سفیر جب یہ سب کچھ بھارتی ہائی کمشنر کے ساتھ طے کر نے کے بعد گھر پہنچا، تو اس کو معلوم ہوا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اسلام آباد میں سوئٹزرلینڈ نے ہندوستان کے سفارتی مفادات کی دیکھ بھال کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔اٹل کو گھر میں نظربند کر دیا گیا۔ اگلے دو ہفتوں تک وہ حالات و واقعات سے بے خبر رہے۔
پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے سے قبل سلامتی کونسل میں قرارداد آنے سے پہلے یحییٰ خان نے بھٹو سے ٹیلی فون پر بات کی اور انہیں بتایا کہ پولینڈ کی قرارداد اچھی لگ رہی ہے اور اس کو قبول کرنا چاہیے۔’ بھٹو نے جواب دیا تھا، ‘میں آپ کو سن نہیں سکتا۔’ جب یحییٰ نے خود کو کئی بار دہرایا تو بھٹو نے صرف اتنا کہا، ‘کیا کیا؟’ جب نیویارک میں فون آپریٹر نے مداخلت کرکے کہا کہ فون کی لائن ٹھیک ہے، تو بھٹو نے اس کو جھڑک دیا۔
واضح طور پر، بھٹو کا یحییٰ کی ہدایات پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ بھٹو نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس قرار داد کو تسلیم نہیں کرتے ہیں اور واک آؤٹ کیا۔ بساریہ کے مطابق بھٹو کے اقوام متحدہ سے واک آؤٹ کرنے کے فیصلے نے پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈلوانے پر مجبور کردیااور ہندوستان کی فیصلہ کن فتح ہوئی۔
سن 1972 میں شملہ کے مقام پر مذاکرات ناکامی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ آدھی رات کے وقت جب بھٹو الوداعی ملاقات کرنے اندرا گاندھی کے پاس پہنچے، تو ان کو بتایا ان کو وقت دیا جائے، تاکہ وہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان میں رائے عامہ کو تیار کرکے لائن آف کنٹرول کو معمولی ایڈجسٹمنٹ کے ساتھ بین الاقوامی سرحد کے طور پر تسلیم کروائیں۔ 2 جولائی کی صبح ایک معاہدہ طے پا یاگیا۔
اس نے دوطرفہ ازم کے اصول پر زور دیا۔ آخر کار 1976 کے وسط میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات دوبارہ شروع ہوئے۔ 24 جولائی کو کے ایس باجپائی اور سید فدا حسین سفیر نامزد کردیے گئے۔
کتاب کے مطابق؛
جب اٹل بہاری واجپائی نے 1978 میں بطور وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کیا، تو اس سے قبل انہوں نے دہلی میں اپنی اردو کو درست اور چست کرنے کے لیے کالج کے ایک اردو پروفیسر دوست سے باضابطہ کلاسیں لیں۔ اسلام آباد میں تقاریب کے دوران انہوں نے اردو اشعار و نثر کا بھر پور مظاہرہ کیا۔ اس حد تک کہ پاکستان، جس کی سرکاری زبان اردو تھی،کے وزیر خارجہ آغا شاہی کو اپنی انگریزی تقریر کا اردو میں ترجمہ کرنا پڑا۔ مگر وہ اس کو اٹک اٹک کر پڑھ رہے تھے۔ واجپائی اپنے میزبانوں کے مقابلے نہایت ہی شستہ اردو بول رہے تھے۔
سن 1980 میں اندرا گاندھی نے ایک منجھے ہوئے سفارت کار نٹور سنگھ کو بطور ہائی کمشنر نامزد کردیا صدرضیاء الحق نے ان سے ملاقات کے دوران کہا کہ ،’کنور صاحب، کشمیر میرے خون میں شامل ہے۔’ سنگھ نے جواب دیا، ‘سر، کشمیر میری ہڈیوں کے گودے میں شامل ہے۔’ خیر ‘ 15 ستمبر 1981 کو، ضیاء الحق نے ہندوستان کے ساتھ جنگ نہ کرنے کے معاہدے کی پیشکش کی۔ اس سے قبل بھٹو ہندوستان کی طرف سے اسی طرح کی تجویز کو مسترد کر چکے تھے۔
ان کے خیال میں یہ مسئلہ کشمیر کو منجمد کرنے کی ایک سازش تھی۔ اس وقت اب بھارت کی باری تھی کہ اس کو مستر د کرے۔ بھارتی افسران کا کہنا تھا کہ یہ پیشکش امریکہ کی ایما پر کی گئی ہے، تاکہ پاکستان کو 3.2 بلین ڈالر کے فوجی پیکج سے نوازا جائے اور بھارت کو یقین دلایا جائے کہ امداد اس کے خلاف نہیں ہے۔
بھارتی سفارت کار کیول سنگھ کے مطابق، بھارت کا اس تجویز کو ٹھکرانا ایک فاش غلطی تھی۔مگر بھارت میں حکومتی افراد کی اکثریت اس معاہدے کو مزید ہتھیاروں کے لیے امریکی منظوری حاصل کرنے کے لیے ایک چال کے طور پر دیکھ رہی تھی۔
اسی دوران پنجاب میں سکھ علیحدگی پسندی انتہا پر تھی۔ اس معاملے پر گفت و شنید کے لیے جولائی 1984 میں وزیر اطلاعات و نشریات ایچ کے ایل بھگت کو اسلام آباد بھیجا گیا ۔ضیاء الحق نے ان کی خوب آؤ بھگت کی اور اعلیٰ دودھ دینے والی ساہیوال گائے ان کو تحفہ میں دی۔ بھگت کا خاندان مغربی پنجاب کے ساہیوال ضلع سے ہی بھارت منتقل ہو گیا تھا۔ واپسی پر وہ ضیاء الحق کے قصیدہ پڑھ رہے تھے۔
اسی دوران سیاچن کا قضیہ شروع ہو گیا، جس کے جواب میں پاکستان کے کچھ فوجی افسران نے ‘کرگل پلان’ کا خاکہ ضیاء الحق کے سامنے رکھا، جس کا مقصد لداخ میں کرگل کے علاقے پر قبضہ کرنا تھا، مگر ضیا نے اس تجویز کو ناقابل عمل قرار دے کر مسترد کر دیا۔
اسی طرح بھارت میں فوجی سربراہ جنرل سندر جی 1987 کے وسط میں ایل او سی کے اس پار تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر خپلو میں ایک ہوائی آپریشن کا منصوبے بنایا۔ آپریشن ہیمر ہیڈ کا مقصدد سیاچن گلیشیئر سے پاکستانی مواصلاتی لائنوں کو منقطع کرنا تھا۔ مگر خیر ہوئی کہ بھارت میں بھی اس کو غیر عملی اور خطرناک بتایا گیا اور کابینہ میں لانے سے قبل ہی اس کو دبا دیا گیا۔
سیاچن کی کشیدگی کے دوران اردن کے شاہ حسین بن طلال، جو راجیو گاندھی کے ذاتی دوست تھے، نے اپنے بھائی ولی عہد شہزادہ حسن کے صدر ضیاء کے ساتھ روابط کا استعمال کرتے ہوئے، دونوں ممالک کو قریب لانے کی پہل کی۔
جس کے نتیجے میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل حمید گل اوربھارتی خفیہ ایجنسی راء کے سکریٹری اے کے ورما نے عمان میں ملاقات کی۔ وزیر اعظم راجیو گاندھی نے تفصیلات پر کام کرنے کے لیے اپنے دست راست سفارت کار رونن سین کو متعین کیا۔
بساریہ کے مطابق، دو انٹلی جنس سربراہوں کی طرف سے جو حل نکالا گیا، وہ کامیاب اور عملی حل تھا۔ اس کے بعد 1992 اور پھر 2006 میں بھی دونوں ممالک نے اس سلسلے میں پہل کی، مگر کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوسکے۔
بشکریہ دی وائر
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں