کیا ایران انتقام لے گا؟-علی ہلال

بہت سے دوست و احباب پوچھ رہے ہیں کہ ایران نے31 جولائی کے واقعہ ردعمل کے طور پر کیا انتقامی کارروائی کی ہے۔
اس سوال پر ہنسی بھی آرہی ہے اور حیرت بھی ہورہی ہے۔ مشرق وسطی کے امور جاننا اتنا آسان نہیں ہے۔ اگر آپ نے ایران سے یا عراق کے الحشد الشعبی کے 47 ملیشیا گروپوں ، لبنان کی حزب اللہ اور یمن کے انصار اللہ حوثی سے کوئی ایسی توقع باندھ رکھی ہے تو یہ صرف آپ کی سادگی ہوسکتی ہے۔ یا بے خبری ۔
آپ کے علم میں ہونا چاہئیے کہ امریکہ اور اسرائیل جدید ترین ریڈار سسٹم اور سیٹیلائٹ کے ذریعے اسرائیلی حدود میں ہر اس نقل وحرکت کی مانیٹرنگ کررہے ہیں جو اسرائیل کے لئے خطرہ ہو۔
اسرائیل نے مارچ 2011ء سے اب تک شام میں اپنی سرحد کے قریب اور دور سینکڑوں فوجی اور ایسے مراکز کو نشانہ بنایا ہے جہاں سے اسرائیل کے لئے خطرہ محسوس ہوا۔
عراق میں امریکہ نے عراقی آرمی کو تحلیل ہی اس لئے کیا تھا تاکہ فرقہ وارانہ ملیشیا گروپس تشکیل پاسکیں۔
یمن کے حوثی گروپ ستمبر 2014ء سے اب تک سعودی عرب پر ہزاروں میزائل برسا چکاہے مگر مجال ہے جو امریکہ نے کسی ایک میزائل کو ائیر ڈیفنس سسٹم سے روکنے کو ضروری سمجھا ہو۔
اس وقت غزہ جنگ کے 302دن ہوگئے ۔ عراقی ملیشیا الحشعد الشعبی نے ہزاروں مسلح افراد کو اردن کی سرحد پر لاکر کھڑا کردیا ہے اور اردن پر دباؤ ڈالا جارہاہے کہ انہیں مغربی کنارے تک جانے کی راہ دی جائے۔
وجہ یہ ہے کہ اردن مشرق وسطی کا واحد عرب ملک ہے مصر کے بعد جہاں ایرانی ملیشیا گروپ نہیں ہے۔ اگرچہ اردنی اخوانی کسی حدتک سازشیں کررہے ہیں لیکن اردن نے انہیں کنٹرول میں رکھا ہوا ہے۔
ایران مشرق وسطی میں کبھی بھی امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ براہ راست ٹکر نہیں لے گا۔ لبنان، شام ،یمن اور عراق میں ایرانی ملیشیا گروپوں کی موجودگی جہاں ایرانی مفادات کے لئے ہیں وہیں امریکہ ان ملیشیا گروپوں کو خلیج کے عرب ممالک کو ڈرانے کے لئے استعمال کررہاہے۔ جبکہ اسرائیل ان ملیشیا گروپوں کے وجود کو ہمسایہ عرب ممالک کو تاخت وتاراج کرنے کے لئے پسند کرتاہے۔
لبنان مشرق وسطی کا سویٹزرلینڈ تھا ۔مگر اسرائیل نے حزب اللہ کی آڑ میں اس کی خوبصورتی کو تباہ کردیاہے۔ صرف غزہ جنگ کے دوران اسرائیل لبنان میں زیتون کے 50 ہزار درخت تباہ کرچکا ہے۔ 2020ء میں بیروت کی بندرگاہ کو بارود سے اڑادیا گیا۔ آئے روز لبنان پر اسرائیل میزائل برسا رہاہے۔
شام کا اسرائیل نے کیا حشر کیا ہے۔ حالانکہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی متعدد بار اسرائیلی بارڈر پر طبریا جھیل کے قریب بیٹھ کر کافی نوش کرتے رہے ہیں۔
آج بھی گولان ہائٹس کے پاس اسرائیلی سرحد پر درجنوں ایرانی ملیشیا موجود ہیں۔
عراق میں اسرائیل الحشد الشعبی کی آڑ میں حملے کررہاہے۔ یمن کی تاریخی بندرگاہ الحدیدہ کو اسرائیل نے رواں ماہ نشانہ بناکر تباہ کردیا جس کی آگ دو ہفتوں تک جلتی رہی۔
کیا ایران کی جانب سے حزب اللہ اور یمن کے حوثیوں کے لئے ہتھیاروں کی سپلائی سے امریکہ بے خبر ہے؟۔
مشرق وسطی کے منظرنامے سے باخبر افراد پر یہ مخفی نہیں ہے کہ یہ ملیشیا گروپس امریکہ نےعربوں کو ڈرانے اور اسرائیل کے لئے عرب ممالک میں تباہی مچانے کے لئے رکھے ہوئے ہیں۔

Facebook Comments

علی ہلال
لکھاری عربی مترجم، ریسرچر صحافی ہیں ۔عرب ممالک اور مشرقِ وسطیٰ کے امور پر گہری دسترس رکھتے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply