ٹوٹل انٹرنل ریفلیکشن/ڈاکٹر محمد علی افضل

Total internal Reflection.
یہ دسویں جماعت کی فزکس کا بنیادی مگر ایک اہم ترین ٹاپک تھا۔ ہر سال امتحان میں اس سوال کا آنا ایک اٹل حقیقت تھا۔ ہمارے مروجہ سائنسی نصاب میں سب سے زیادہ زور لگا کر چونکہ ‘مسلمانوں کے سائنس پر احسانات’ والا باب لکھا جاتا تھا لہذا باقی تمام موضوعات کچھ ایسے مبہم ، مشکل اور گوروں کی کتابوں سے نقل کرکے لکھے جاتے جیسے علم عروض کے قواعد کی کتابیں لکھی جاتی ہیں۔ پی ایچ ڈی مصنفین کی اپنی تعلیمی قابلیت یہ تھی کہ وہ ترجمہ بھی درست طریقے سے نہ کرسکتے تھے۔

ایک بات شمال کی لکھ دیتے اور دوسری جنوب کی۔ بیچ بیچ میں فلسفہ بیخودی شروع کردیتے ۔ پڑھانے والے اساتذہ ماشااللہ ان سے بھی دو ہاتھ آگے تھے۔ وہ کتاب اٹھا کر اس میں سے فقط مساواتوں سے تختہ سیاہ کردیتے۔ ساتھ ساتھ کہتے جاتے تو آگے بھلا کیا آئے گا؟ ہاتھ کھڑا کرو؟ نالائقو۔ کسی کو نہیں آتا ؟ سب نفی میں سر ہلاتے تو کہتے اتنا آسان ہے۔ یہ بھی نہیں آتا؟ کوئی حال نہیں بھئی تمہارا۔ یہ آگے۔ ۔یہاں اَٹک جاتے۔ کچھ آتا جاتا ہو تو لکھیں۔ فوراً ہاتھ میں پکڑی کتاب کھولتے اور مساوات پوری کرتے اور فخریہ دیدہ دلیری سے کہتے آگے یہ آئے گا۔ اگر کوئی قسمت کا مارا پوچھ بیٹھتا کہ جناب یہ کیسے آیا؟۔۔تو آنکھیں نکال کر یوں کرختگی سے اس پر انگلی رکھ کر وہی مساوات پڑھ دیتے۔ مثلاً ایکس جمع وائی برابر ہے زیڈ کے۔ اس طرح آیا اور کس طرح آیا۔ چلو اب یاد کرو اس کو ۔ کل اس کا ٹیسٹ ہوگا۔ جو بیچارہ اس کے بعد بھی پوچھنے کی جسارت کر بیٹھتا تو ڈنڈا اٹھا کر اس کو کوٹ دیتے۔ اس کے بعد بچوں کا سائنس سیکھنے کا جذبہ خوف سے ہَوا ہوجاتا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگلے دن ہم فزکس ایسے دلچسپ مضمون کا راتوں کو جاگ کر رٹا لگا کر آتے اور ٹیسٹ دے دیتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ذاتی مطالعہ سے سائنس میں استعداد پیدا کی۔ایسا نہیں کہ ہمیں کسی مضمون میں اچھے اساتذہ نصیب نہیں ہوئے ۔ہوئے ہیں۔۔ ہمارے بیالوجی اور کیمسٹری کے استاد اپنے شعبہ کے بے حد ماہر تھے۔ ان کی پڑھائی ہوئی ایک ایک چیز ہمیں آج تک یاد ہے۔ فزکس اور ریاضی کے معاملہ میں ہم میٹرک میں یتیم رہے۔ ایف ایس سی میں ہمیں فقط ایک سال فرسٹ ایئر میں فزکس کے ایک ماہر استاد سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ سائنس کے میدان میں آج جو تھوڑا بہت ہم جانتے وہ انہی کا دیا ہوا فیض ہے۔ کاش ہمیں بھی اپنے زمانہ طالبعلمی میں اس بھارتی استاد جن کا نام شاید انوبھَو شرما ہے سے پڑھنے کی سعادت حاصل ہوجاتی تو دل کہتا ہے آج ہم کم از کم سائنس دان ہوتے۔ ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں سائنس کے قابل اساتذہ کا بے حد فقدان ہے۔ یہ ایک خطرناک بات ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں سائنس سے غیر محسوس انداز میں نفرت سکھائی جاتی ہے۔ یہ ایک خوف ناک بات ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply