قصہ میرے اغواء کا(3)-عارف خٹک

جیسے ہی بم دھماکے کی آواز میرے کانوں تک آئی میں مستعد ہوگیا کہ اپنا بچاؤ کیسے کرنا ہے۔ میرے پاس دس سیکنڈ تھے۔ جب تک سامنے امریکن کانوائے کے حواس بحال ہوتے اور اس کے بعد انھوں نے اندھا دھند فائرنگ کردینی تھی اور بدقسمتی سے ہماری  گاڑی کانوائے کے پیچھے تیسرے  نمبر پر تھی۔ میں نے فوراً اپنی طرف کا دروازہ کھولا اور بجلی کی سرعت سے گاڑی سے باہر سڑک پر لیٹ گیا۔ سڑک کنارے کافی سارے پودے لگے ہوئے تھے اور درختوں کیساتھ پانی کا نالہ بنا ہوا تھا جس سے آبپاشی ہوتی تھی۔ میری قسمت اچھی تھی کہ نالے میں کیچڑ تھا۔ میں نالی میں لیٹ گیا اور اپنا پاسپورٹ واسکٹ کی جیب سے نکال کر پاوں کی  جرابوں میں چھپا لیا۔ کیونکہ پاکستانی پاسپورٹ کیساتھ اگر میں جائے وقوعہ پر پکڑا جاتا تو بعد کی تفتیش سے اچھا تھا کہ یہ لوگ مجھے اسی وقت گولی مار دیتے۔

اچانک باہر فضاء بھاری ہتھیاروں کی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونج اٹھی۔ امریکن نے حسب عادت اپنے متوقع ایکشن پلان پر عمل شروع کرلیا تھا۔ میں فی الحال نالے میں محفوظ تھا۔ آگے قسمت کی اور میری حاضر دماغی کی یاری تھی کہ مجھے خود کو کیسے بچانا تھا۔ کیونکہ تلاشی کا عمل شروع ہوجانا تھا۔ باہر لوگوں کی دلدوز چیخیں گونج رہی تھیں۔ دس منٹ تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔ میں دم سادھے کیچڑ میں لت پت پڑا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد فوجیوں کی گالیوں بھری آوازیں سنائیں دی۔ آوازیں آہستہ آہستہ میرے قریب آرہی تھیں۔ میں مزید چوکنا ہوگیا۔

“Hey halt!!!!! You mother fucker….are you a companion of the terrorists? Raise your hands and come out!”
“کیا تم دہشت گردوں کے ساتھی ہو؟ اپنے ہاتھ اٹھاو اور باہر نکلو”
“باہر نکلو”.
بھاری امریکی لہجے میں حکم دیا گیا۔ یہ سنتے ہی تین چار اور فوجی بھی گھبرائے ہوئے آگئے۔ ان کے ہاتھوں میں جدید گنیں تھیں۔ بلٹ پروف لباس، کالے چشمے اور آنکھوں کے پاس لگے کیمرے کیوجہ سے وہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق لگ رہے تھے۔ میں سہمی اور پریشان نظروں سے ان کو گھور رہا تھا۔ مجھے ان کے حکم کی تعمیل اس لئے نہیں کرنی تھی کہ وہ سمجھ جاتے کہ مجھے انگریزی زبان آتی ہے ایسی صورت میں مجھے ان کو مکمل شناخت دینی ہوتی اور میرا پاکستانی پاسپورٹ میرے لئے وبال جان بن جاتا۔ لہذا میں سمہی ہوئی نظروں سے ان کو دیکھ رہا تھا۔ پانچ فوجیوں کی گرفت اپنی اپنی بندوقوں پر حد سے زیادہ تھی، جو اس بات کی نشانی تھی کہ وہ تذبذب کا شکار ہیں۔ اچانک ایک مقامی بندہ جو پینٹ شرٹ اور منہ پر رومال باندھے ہوئے تھا، نمودار ہوا۔ وضع قطع سے وہ تاجک لگ رہا تھا۔ امریکیوں کا ترجمان تھا۔ وہ فارسی میں چیخا۔
“کون ہو تم یہاں کیوں چھپے ہوئے ہو؟”۔
میں نے جان بوجھ کر پشتو لہجے میں جواب دیا۔
“میں پشتون ہوں شینواری ہوں اور مارکوہ گاؤں کا رہنے والا ہوں”۔
امریکن فوجی سوالیہ نظروں سے اس کو گھورنے لگے۔ انھوں نے ہوبہو میری بات کا جواب دیا۔ یہ سنتے ہی چار فوجی واپس چلے گئے۔ ترجمان اور پہلا فوجی وہیں  موجود تھا۔ ترجمان نے ہاتھ اٹھا کر مجھے نالے سے باہر آنے کا کہا۔ میں کیچڑ سے لت پت ہاتھ اٹھائے باہر نکل ہی رہا تھا کہ اس امریکی فوجی نے میرے کندھوں کے بیچ بندوق کی بٹ ماری۔ میری چیخوں سے پوری وادی گونج اٹھی۔ میرا جسم سن ہوگیا۔ ایسے لگا جیسے میرا جسم مفلوج ہوگیا ہو۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، میں حرکت نہیں کرپارہا تھا۔ افغانی مترجم میرے قریب آیا اس نے مجھے ہاتھ دیا۔ بڑی مشکل سے انھوں نے مجھے سڑک پر بیٹھنے میں مدد کی۔ آنکھوں کے سامنے چھایا اندھیرا تھوڑا سا ہٹا تو میرا دل اوچھل کر میرے حلق میں آگیا۔ ۔۔ جس ٹیکسی میں  چار زندہ بندوں کیساتھ کابل جا رہا تھا۔ ان کے سر ایک طرف ڈھلکے ہوئے تھے۔ گاڑی مکمل طور پر گولیوں سے چھلنی تھی۔
“طورخم میں کیا کام کرتے ہو؟”۔
امریکی فوجی کی ایما پر مترجم دوبارہ ٹوٹی پھوٹی پشتو میں مجھ سے مخاطب ہوا۔
میں شدت تکلیف سے رو پڑا۔ میرا رونا غالباً امریکی فوجی کو مشتعل کررہا تھا۔ اچانک اس نے لات گھمائی اور میرے سینے پر رسید کردی۔ میں اس اچانک حملے کیلئے بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ میں پیٹھ کے بل پختہ سڑک پر ڈھے گیا۔
میری حالت پر شاید افغانی مترجم کو رحم آگیا وہ بھاگتا ہوا میرے پاس آیا۔ زور سے چیخا۔
“منہ کھولو اپنا ورنہ یہ جان سے ما دیگا”۔
میں نے تیزی سے جواب دیا۔
“ان سے کہو میں طورخم بارڈر پر گاڑیوں کا کام کرتا ہوں ان کو پاکستان اسمگل کراتا ہوں”۔
مقامی شینواری قبیلہ جو طورخم کے  قریب رہتے تھے، کا بس یہی کام ہوتا تھا۔ کرنسی تبدیل کرنا یا دبئی کے رستے آئی  ہوئی  گاڑیوں سے پاکستانی ہاتھ کی گاڑیاں خرید کر پاکستان اسمگل کرنا جو سوات، مہمند، گلگت اور وزیرستان میں قانوناً چلتی تھیں۔
اچانک فوجی گھما اور مجھے چھوڑ کر واپس اپنی گاڑیوں کی طرف چلا گیا۔ میری جاں بخشی ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں ڈالے نما گاڑی کے فرش پر لیٹا ہوا تھا۔ میرے حواس مکمل طور پر کام کررہے تھے۔ میں سب تفکرات سے خود کو آزاد کرکے یکسوئی سے یہی سوچ رہا تھا،کہ اب گاڑی کہاں رفتار آہستہ کرکے ریورس کرتی ہے۔ اگر گاڑی ریورس ہوگئی تو اس کا مطلب ہوگا کہ مجھے شلمان کی پہاڑیوں میں لیجایا جائیگا۔ اگر چار کلومیٹر کے بعد گاڑی دائیں گھوم گئی اور پکی سڑک سے کچی سڑک پر آگئی تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ مجھے کمانڈر منگل باغ کے علاقے تیراہ کی طرف لیجایا جائیگا۔ مگر حیرت انگیز طور پر  گاڑی نہ ریورس ہوئی نہ مطلوبہ فاصلے پر گاڑی کچے میں اتری۔ میں تھوڑا سا حیران ہوا کہ سامنے تو ایف سی کی چیک پوسٹ ہے یہ لوگ وہاں سے ایسے تو نہیں گزر سکتے۔ مگر گاڑی سبک رفتاری سے پکی سڑک پر رواں دواں تھی۔ اندازے کے مطابق اب ایف سی چیک پوائنٹ آجانا چاہیے تھا۔ جہاں ہر گاڑی کی تلاشی لی جاتی تھی تاکہ اسمگلنگ کے  سامان کو روکا جاسکے۔ وہاں سڑک پر قائم چیک پوسٹ پر تین اسپیڈ بریکر بھی بنے ہوئے تھے۔ حیرت انگیز طور گاڑی ان اسپیڈ بریکروں پر اچھلتی رہی مگر کہیں بھی گاڑی نہیں رکی۔ گاڑی نے تیزی سے رفتار پکڑی جس سے مجھے ایک جھٹکا لگا کہ ایف سی کے سامنے کتنے آرام کیساتھ مجھے مسلح طالبان لیکر چلے گئے۔ میرا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔ یہ بات کم از کم میرے لئے قابل قبول نہیں تھی۔ اچانک میرے دماغ میں ایک کوندا لپکا۔ اور میں پُرسکون ہوتا چلا گیا۔ مجھے خود پر حیرت ہورہی تھی کہ میں پہلے اس نتیجے پر کیوں نہیں پہنچا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اور میرا کزن عطاء اللہ خٹک مزار شریف سے کابل آرہے تھے۔ سالنگ جو انتہائی اونچا پہاڑی سلسلہ ہے، سمجھ لیں دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہے۔ پل خمری سے لیکر جبل سراج تک اس طویل پہاڑی سلسلے پر سڑک بنانا کم از کم انسانی ہاتھوں سے ممکن نہیں۔ ایک انتہائی کٹھن اور خطرناک سفر جب سالنگ ٹاپ تک پہنچ جاتا ہے تو جون جولائی میں جمی ہوئی برف آپ کو ضرور یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ انسان کیلئے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔

آٹھ گھنٹوں کا  مشکل  سفر گرچہ ایک جدید ٹیکسی میں کررہے تھے مگر جسم کا رواں رواں چیخ رہا تھا۔ روزوں کا مہینہ تھا۔ شام سے کچھ دیر پہلے ہم نے جبل سراج سے نکل کر تھوڑی  سی ہموار سڑک پر اترائی کی جانب سفر شروع کیا تو میں نے سکون کا سانس لیا کہ اب کابل قریب ہے۔ ہم چاریکار نامی علاقے کے مرکزی بازار سے تھوڑا سا دور تھے، کہ خٹک صاحب نے میری طرف دیکھا اور گھڑی کی طرف اشارہ کیا۔ عطاء خٹک اور میں دوران سفر گفتگو سے گریزاں تھے کیونکہ ایک تو ہمارا ٹیکسی ڈرائیور غیر پشتون تھا اور وادی پنجشیر سے تھا۔ ان کی پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ دوسرا ہمیں کسی بھی پولیس یا فوجی چیک پوسٹ پر گرفتار کرنے کیلئے کافی تھا کہ ہم دونوں پاکستانی تھے۔ اس لئے حفظ ماتقدم کے طور ہمارے پاس کوئی پاکستانی شناخت نہیں تھی۔ میں دری روانی سے بول سکتا ہوں اس لئے میری بھاری مونچھیں اور چپٹی نما ناک پہلی نظر میں مجھے ہزارہ یا ازبک فرد سامنے والے کو سمجھانے کیلئے کافی تھے۔ میں نے گاڑی کے شیشے سے باہر دیکھا۔ ایک سرخ رنگ کی فیلڈر گاڑی زن سے ہماری نئی دو ہزار سی سی ٹیوٹا گاڑی کو کراس کرگئی۔ میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ ایک تو گاڑی میں کوئی مسافر نہیں تھا مگر اس کے باوجود بھی گاڑی وزن سے دہری ہورہی تھی اور دوسرا ڈرائیور پر نظر پڑتے ہی میں چونک گیا۔ پشتون ڈرائیور جو بالکل ٹرانس میں تھا۔ اس اترائی والی سڑک پر گاڑی ایک سو بیس سے بھگا رہا تھا حالانکہ تھوڑی دیر کے بعد پُر ہجوم بازار بھی تھا۔ اترائی کی طرف اتنی تیزی سے گاڑی بھگانی۔۔ یہ نارمل نہیں تھا۔ میرے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ آگے بدنام زمانہ بگرام ایئر بیس کا علاقہ تھا۔۔۔۔ میں نے فوری فیصلہ کرلیا کہ اپنی گاڑی فوری طور پر رکوانی ہے، کیونکہ خودکش حملہ آور سے کم از کم ہمارا بچنا تقریبآ ناممکن تھا۔ میری چھٹی حس بیدار ہوگئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply