یہ ہوتا ہے امت مسلمہ کا لیڈر /محمد اسد شاہ

جن کو نہیں معلوم، اور جن کو شوق ہے کہلوانے کا، وہ دیکھ لیں اور سمجھ لیں کہ کیسا ہوتا ہے “امت مسلمہ کا لیڈر”۔ اسماعیل ہانیہ جب شہید ہوئے تب جا کے دنیا کو معلوم ہوا کہ یہاں کوئی امت بھی ہے اور اس کا کوئی قائد بھی۔ یہ حکمران طبقوں کی نہیں، امت کی بات ہو رہی ہے۔ عرصہ دراز سے یہ خیال اس طالب علم کے دل میں جاگزیں ہے کہ دنیا میں اربوں لوگ مسلمان کہلاتے ہیں لیکن اب وہ امت نہیں رہے۔ یہ خیال گزشتہ نو ماہ میں جیسے پختہ یقین بن چکا۔ طلوع آفتاب سے منسوب خطے کے وسط میں معصوم اور نہتے لوگوں پر انسانی تاریخ کا ہر ستم آزمایا جا رہا ہے۔ ایک پوری قوم کو صفحہ ہستی سے ختم کیا جا رہا ہے۔ لیکن امت نامی کوئی مخلوق سامنے نہیں آئی جو اس درد کو محسوس کر سکے، آواز اٹھا سکے، گھر سے باہر نکل کر چیخ ہی سکے، ظلم کو روکنے کا کوئی راستہ ہی تلاش کر سکے۔ پچاس سے زیادہ ممالک کے پالیسی میکرز ( ملٹری و سول اسٹیبلشمنٹ)، عدالتیں اور افواج خاموش تماشائی ہیں۔ ان کے عوام بھی سو رہے ہیں۔ لیکن جب بے کسوں، مظلوموں، مجبوروں، بے نواؤں اور بے بسوں کا قائد مارا گیا تو دنیا بھر کے مسلمانوں کی آنکھوں میں نمی نظر آئی۔ امت کے بظاہر مردہ نظر آنے والے جسم میں جنبش ہوئی۔ گو یہ جنبش وقتی تھی، لیکن یہ ثابت ہو گیا کہ جسم میں زندگی کی رمق باقی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گزشتہ کئی صدیوں میں اسماعیل ہانیہ شہید واحد مثال ہیں کہ جن کے قتل پر دنیا بھر میں مسلمانوں کے ہر مسلک کے لوگوں کو دلی صدمہ ہوا۔ ورنہ تو یہاں علماء بھی الگ الگ ہیں، شہداء بھی، کتب بھی، راہ نما بھی اور راہیں بھی۔ سات براعظموں میں پھیلے ان منقسم، مختلف اور الگ الگ طبقوں کے پیشواؤں سے لے کر عوام تک کو سینکڑوں سالوں بعد اگر ایک ہی وقت میں ایک ہی احساس ہوا ہے تو وہ اسماعیل ہانیہ کے مظلومانہ قتل پر درد کا احساس ہے، درد بھی وہ جو درد مشترک ہے۔ رواں صدی میں اگر “امت مسلمہ کا لیڈر” کہلوانے کا کوئی حق دار ہے تو وہ اسماعیل ہانیہ شہید ہے۔ وہ اپنی قوم کی ہزاروں سالہ تاریخ کا واحد منتخب وزیراعظم تھا۔ جب تک اس عہدے پر رہا، اپنی قوم کی تعلیم، صحت، روزگار، خوراک، پانی، امن، ترقی اور خوش حالی کی عملی کوششیں کرتا رہا۔ اسے ظلماً ہٹایا گیا تو اس نے یہ دھمکی نہیں دی کہ وہ خطرناک ہو جائے گا۔ بل کہ انتہائی پرامن طریقے سے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔ اسے بھی اور پوری دنیا کو بھی معلوم تھا کہ مخالفین اسے قتل کرنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے ہمیشہ موقعے کی تلاش میں رہے لیکن اس نے کبھی حوصلہ ہارا نہ اشتعال انگیزی کی۔ اس نے اپنے لوگوں کو اپنی حفاظت کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا۔ اس نے کبھی دھرنے، گالیاں، پتھراؤ، قبضے، احتجاج اور دھمکی کا راستہ نہیں اپنایا۔ اس کے آباؤ اجداد بھی خالص دین دار تھے، وہ خود بھی عملی مسلمان اور دین دار تھا۔ اس کی اگلی نسلیں بھی اسی کی طرح دین دار اور شیشے جیسے شفاف کردار کی حامل ہیں۔ اب وہ کسی ملک کا حکمران نہیں تھا۔ اسے پروٹوکول کی طلب کبھی نہیں تھی۔ وہ اپنے لیے سیکورٹی نہیں مانگا کرتا تھا۔ اس نے کبھی یہ رونا نہیں رویا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اس نے اپنے پیروکاروں کو کبھی یہ ہدایات نہیں دیں کہ اگر اسے کچھ ہوا تو فلاں فلاں لوگوں کو نہیں چھوڑنا۔ اس نے اپنے یا مخالف ممالک کے اداروں پر الزامات نہیں لگائے، اور کبھی سازشیں نہیں کیں۔ وہ اپنے پیچھے دو جھنڈے لگا کر “قوم سے خطاب” کا شوقین نہیں تھا۔ اس کے والدین شہید کیے گئے، اس کے بہن بھائی، بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، نواسے اور نواسیاں تک شہید ہوئے، لیکن کبھی شکوے، شکایت، دکھ، غصے، انتقام یا اشتعال کا ایک لفظ بھی اس کے منھ سے نہ نکلا۔ وہ پرامن، حوصلہ مند، پر عزم، باوقار، بہادر، نڈر، دلیر، معزز، خاموش طبع اور باعمل قائد تھا۔ وہ شہید ہوا تو پوری دنیا میں اس کے جنازے پڑھائے گئے۔ ایران میں جنازہ ہوا تو اہل تشیع کے سب سے بڑے روحانی پیشوا نے جنازہ پڑھایا اور لاکھوں افراد روتے ہوئے شامل ہوئے۔ قطر میں اس کی نماز جنازہ ہوئی، تو امیر قطر سمیت احناف، شوافع، مالکی اور حنبلی علمائے کرام، سفراء اور حکومتی عمائدین اور لاکھوں اہل سنت نم آنکھوں کے ساتھ شامل ہوئے۔ پاکستان میں منتخب وزیراعظم، وفاقی وزراء، سیاسی قائدین، عوامی نمائندوں، اعلیٰ سول و فوجی افسران نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ میں شرکت کی۔ پوری دنیا میں، ہزاروں جگہوں پر اسماعیل ہانیہ کے لیے غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ جس شخص کی زندگی میں قدر نہ کی گئی، اس نے قتل ہو کے بتایا کہ خلافت کے خاتمے کے بعد وہ امت مسلمہ کا واحد متفقہ لیڈر تھا۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply