خیر خبر/محمد کبیر خان

عزیزی قمر رحیم ہمارے اعزّہ میں دوسرے عزیز ہیں جو ہم سے بڑھ کر ہمیں عزیز رکھتے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اُنہیں ہم پر اعتبار ہے لیکن اعتماد نہیں ، یا پھراعتماد تو کرتے ہیں، اعتبار نہیں ۔ ایسے “کئیرٹیکرز” دوب کے تِیلے سے اڑ کر انڈوں کی بھری پوٹ تڑوا بیٹھتے ہیں ۔ قمر رحیم زندگی میں پہلی بار ہم سے ابوظہبی میں ملے۔ تب موصوف دیگر حوالوں سے اپنا تعارف کروا رہے تھے ۔ چاء کا پہلا کوپ ختم ہونے تک وہ ہمارے پچھلوں تک پہنچ چکے تھے۔ اُن کے ذریعہ ہم بھی اپنے پُرکھوں تک پہنچ چلے تھے لیکن بیچ میں موصوف نے “خان کلب” اُتار مارا۔اور ہماری ہمدردیاں فوجی کلب سے تھیں ۔۔۔۔۔ اپنے اسحاق چاچا فوجی کلب کے مستقل معتمد و معتبرسینٹرہاف تھے۔ اور ہمہ وقت دفاع کے لئے جارحانہ موڈ اور بوٹ سے لیس رہتے تھے۔ میچ دو بجے شروع ہونا ہوتا، چاچا دس بجے صبح ہی تمّی اُتار پرے دھر دیتے۔ فُٹ بال شوزاورہاکی والے شِن پیڈز گھر سے ہی پہن آتے تھے۔ اسی ایمرجنسی کی حالت میں “گراہکوں” سے بارہا چائے کی گریبی پر لڑائی بھڑائی ہوتی ۔ لیکن جیت ہمیشہ گاہک کی ہوتی۔ ڈیڑھ بجے بقیہ چائے کی دیگچی گاہکوں کے دین ایمان پر چھوڑ کر فٹ بال گراونڈ پہنچ جاتے ۔ اور قمیض کا اگلا پچھلا پلّہ بہم باندھ کرمرمٹنے کو تیارہو جاتے۔ لیکن نسلی عداوت کے باوجود اسحاق چاچا ایک ازلی دُشمن کو عزیز تر رکھتے۔ دُشمن کا نام رحیم خان تھا۔ اورمیچ سے پہلے وہ دشمن کے ہاتھ کی چائے کا کوپ چڑھا کر میدانِ کارزار میں اُترتا تھا۔ ہم نے بارہا کھیل کے میدان میں اُنہیں اک دوجے کوتڑیاں لگاتے اور بُری طرح فاول مارتے بھی دیکھا۔ بارہا کھیل کے میدان میں اُنہوں نے اک دوجے سے”کُٹّی” بھی کی ۔ دوسرے روز پھر وہی چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے۔ ہم نے متذکرہ “دشمنوں” کو قریب سے اس لئے دیکھا کہ ہم اسحاق چاچا کے ہوٹل پر سویرے ڈیڑھ سیر(تب کِلو کا “بٹّہ” رائج نہیں ہوا تھا۔۔۔۔ “چُہا”،”پتّھ” ، “سرسائی” ،”پائی”،”اُنگل”،”چپّہ”،”بانہہ”،”تروٹ”، “ڈانگ” وغیرہ جیسے ناپ تول کے ڈِیجیٹل پیمانے چالوتھے)۔ ہم دودھ پہنچا کر اسکول پہنچتے تھے۔ اور چھُٹّی کے بعد ڈبّہ لینے جاتے تھے۔

قمررحیم فوجی کلب کے اسی دشمن کی اولاد ہے۔ لیکن اپنے بابا کی طرح چاء پانی دشمنوں کے ساتھ بھی روا رکھتا ہے۔ وہ کھیل کو کھیل ہی مانتا ہے، تیسری عالمی جنگ نہیں ۔ قمر رحیم جب پہلی بارہم سے بقدم خود آکر ملا تھا، “چہنگا جھوُل” رہا تھا۔ چھِنگ پتلا، (آپ نے کبھی سوُکھا ہوا وہ “ڈھنڈار” دیکھا ہے، جومکئی کٹ جانے کے بعد بھی اکیلا ڈوگے میں کھڑا رہتا ہے۔ تُند ہوا میں لچکتا ضرور ہے،”دینہہ پھیر” کو ڈھینے دیتا ہے نہ خود اُکھڑتا ہے ؟ ۔ قمررحیم اُسی ڈوگے کی فصل،اسی بیج کی نسل ہے۔ ڈھٹائی کی حد تک مستقل مزاج ۔ اس بندہِ خدا نے کبھی ہِنٹ تک نہیں دیا کہ تبلیغی جماعت کے ساتھ سہ روزے لگانے کے علاوہ بھی اُسے کچھ آتا جاتا ہے۔ چنانچہ ہم اُس سے قرارواقعی ادب و احترام سے پیش آتے رہے۔ کئی سالوں کے بعد جب ہم نے یہ دیکھا کہ سہ روزے لگانے کے علاوہ “غیر نصابی” کُتب چھونے سے بھی اُس کا وضو نہیں ٹوٹتا تو ہم نے اپنی دو کتابیں سیاہ پولیتھین بیگ میں ڈال کر اُسے تھما دیں۔ ہمیں کامل یقین تھا کہ ایک اگر کافی و شافی ثابت نہ ہوئی تو دوسری سونگھنے سے ہی اُسے افاقہ ہو جائے گا۔ اور آئندہ وہ ہم سے محتاط فاصلہ پر رہے گا۔ لیکن اُس کی “تشکیلیں”کم ہو گئیں،ہم سے ملاقاتیں زیادہ۔

تبادلوں میں ابوظہبی سے سرکتا سرکتا آخرکاروہ بدع زید کے صحرا میں جا پہنچا ۔ ہم مطمئن ہو گئے کہ ہم سے باوقار فاصلہ پر رہے گا تو اپنی فیملی کو زیادہ سے زیادہ وقت دے پائے گا۔ بچیاں بھی خوش، بچیوں کی ماں بھی خوش ۔۔۔۔ خوشیاں ہی خوشیاں۔ اور ایسا ہی ہوا، تین ماہ کے بعد ملاقات ہوئی تو قمر کی کمر پر بھی ماس لگا ہوا دکھائی دے رہاتھا۔ یہی نہیں اُس کی ایک عدد معنوی اولاد بھی ہو گئی۔۔۔ جو “جننے والے” سے زیادہ صحت مند تھی۔ وہی “جننے والا” جلد ہی بدع زید سے اُوب گیا اور بال بچیوں کو پیک کر کے واپس راولاکوٹ پہنچ گیا۔ آبائی گھر گراں میں رہتے ہوئے اُسے عرب امارات کا لق و دق صحرا یاد آیا تو سویرے اُٹھ کر اُس نے راولاکوٹ کے سرسبز و شاداب خطّہ کو صاف کرنے کا خبط خود پرسوار کرلیا۔ ایک منظم مہم چلائی اور راولاکوٹ میں گندگی کے خلاف ایک چھوٹا سا طبقہ ابھرنے لگا۔ لیکن شاید اُسے معلوم نہیں کہ راولاکوٹ میں ایک بار ایک تنظیم نے چھوٹے چھوٹے کنستر مساجد کے قریب نصب کئے تھے، جن پر لکھا تھا۔۔۔۔۔”آیات کریمہ کے پُرزے اس ڈبّہ میں ڈال کر ثواب دارین حاصل کریں”۔ اُن ڈبّوں میں یار لوگ پکوڑوں کی خالی کاغذی تھیلیاں ڈال کر ثواب دارین حاصل کرتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قمرایک حسّاس مصلح، اچھا کارکن، محب وطن شہری اوریار باش انسان (بلکہ “انسان کا پُتر” ) ہے۔ اچھا پڑھنے والا اور پڑھ کر لکھنے والا لکھاری ہے۔ وہ ہونے جینے کی کئی “علّتیں ” چھیڑ /چھاڑ کر سعودیہ جا نکلا۔ دعا ہے کہ وہ وہاں کامیاب ہو۔ اور جب وہاں سے لوٹے تو اپنے کِیسے میں “ہونے جینے والی” کئی “چھیڑنیاں” بھر لائے۔(آمین)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply