قومی جبر اور ظلم کے خلاف تحریک میں مظلوم قوم کے مختلف طبقات شامل ہوتے ہیں اور ان طبقات کا کردار اس تحریک بارے ان کے رجحان پر اپنا اثر ڈالتا رہتا ہے ۔ مظلوم قوم کے اشراف اور درمیانے طبقے سے جو افراد قومی جبر اور ظلم کے خلاف تحریک کا حصہ بنتے ہیں ان میں بہت تھوڑے ایسے ہوتے ہیں جو قومی شاونزم اور قومی تعصب سے اپنا دامن بچا سکے ہوں ۔ ان میں اکثر بار بار غداری ، انحراف اور موقع پرستی کی دلدل میں گرنے کا رجحان پایا جاتا ہے اور قومی مزاحمت کی تحریک میں شامل ان ہر دو طبقوں کے افراد کی کوشش ہوتی ہے کہ قومی جبر و ظلم کو طبقاتی استحصال کے ساتھ جوڑ کر نہ دیکھا جائے ۔
کسی ملک میں کسی بھی مظلوم قوم کی قومی مزاحمتی تحریک کے بارے میں علاقائی اور عالمی طاقتور ممالک کا رویہ اس علاقے میں ان کے مفادات کے تابع ہوا کرتا ہے ۔
مثال کے طور پر بلوچ قومی مزاحمت کی تحریک کی طرف چین کا رویہ دوستانہ نہیں ہے بلکہ معاندانہ ہے ۔ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ چین ۔ پاکستان راہداری کی تعمیر اور اس سے جڑے منصوبے پاکستان کی حکومتیں کیسے مکمل کر رہی ہیں ؟ کیسے ان منصوبوں کے نام پر بلوچ قوم پر قومی جبر، ظلم مسلط کیا جا رہا ہے ؟ اور کیسے اس سے بلوچ قوم کی نسل کشی ہو رہی ہے ؟
پڑوسی ملک بھارت کی سرکار کی جانب سے بلوچوں کی قومی مزاحمتی تحریک سے ہمدردی ظاہر کرتا ہے تو اس کی وجہ بلوچوں پر قومی جبر اور ظلم نہیں ہے بلکہ وہ اسے کشمیر پر پاکستان کے موقف کو کاؤنٹر کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے حالانکہ وہ اپنے ملک میں خود مظلوم اقوام کے ساتھ کم و بیش وہی کچھ کرتا ہے جو پاکستان میں ہو رہا ہے ۔
امریکہ اور اس کے اتحادی سی پیک کی مخالفت اس لیے نہیں کر رہے کہ اس سے بلوچ قوم مارجنلائز ہو رہی ہے بلکہ ان کی اس مخالفت کا سبب علاقائی اور عالمی سطح پر چین سے امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک کا تنازع ہے جس کے معاشی اور تزویراتی دونوں پہلو ہیں ۔
اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا بھارت ، امریکہ اور مغربی ممالک کی حکومتوں کی جانب سے بلوچ قوم سے اظہار ہمدردی کو دیکھتے ہوئے کیا ہم بلوچ قومی تحریک کو اسپانسرڈ تحریک سمجھیں اور اس سے اپنے آپ کو الگ کرلیں؟
عالمی سرمایہ دار ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کو کسی بھی ملک میں کسی خطے میں سرمایہ کاری منصوبوں سے جنم لینے والی ناہموار ترقی جس میں منافع اور سرمایہ غیر ملکی سرمایہ داروں ، مقامی سرمایہ داروں کو ہورہا ہوتا ہے اور اس خطے کے محنت کش طبقات اور دیہی و شہری غریبوں کے حصے میں زبردست استحصال اور زبردست جبر وظلم آتا ہے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ کسی منصوبے سے جڑے تزویراتی اہداف ان کو اس منصوبے کی طرف دوستانہ رویے یا معاندانہ رویے اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں ۔
مثال کے طور پر امریکہ اور یورپی ممالک کو چینی سرمائے سے ہٹ کر کسی اور ملک یا سرمایہ دار کمپنی کی بلوچستان میں سرمایہ کاری اور اس سے جڑے بلوچ قوم کے استحصال اور جبر پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور چینی سرمایہ کاری سے قبل بلوچستان میں مغربی عالمی مالیاتی اداروں اور دیگر ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرمایہ کاری اور ترقی کے ناہموار ماڈل سے کوئی مسئلہ نہیں رہا اور نہ ہی اس خطے میں بنیادی انسانی حقوق، شہری آزادیوں کی پامالی پر انھوں نے ایسی زوردار آواز اٹھائی جیسی آواز وہ چینی سرمایہ کاری سے جڑی ناہموار ترقی پر اٹھا رہے ہیں۔
پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نے 60ء سے لیکر 90ء کی دہائی تک بلکہ یوں کہیں کہ سرد جنگ کے زمانے تک بلوچستان میں جتنا بھی جبر اور ظلم و زیادتی روا رکھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اس کی نہ تو مذمت کی گئی اور نہ ہی بلوچستان میں حقیقی نمائندہ عوامی حکومتوں کے نہ ہونے پر کوئی موثر ردعمل دیکھنے کو ملا ۔ لیکن جنوبی ایشیاء میں چینی سرمائے کے بڑھتے ہوئے کردار نے انھیں بلوچ قومی تحریک کی طرف اپنے سست اور لیپا پوتی والے موقف کو بدلنے میں کردار ادا کیا ہے ۔
بلوچستان میں چینی سرمایہ کے زیر اثر جو ترقی کا ماڈل ہے یہ ماڈل امریکی اور یورپی سرمایہ کاری کے زیر اثر چلنے والے ماڈل سے مختلف نہیں ہے ۔ اسلام آباد کی نام نہاد منتخب ہئیت مقتدرہ ہو یا غیر منتخب ہئیت مقتدرہ ہو دونوں نے بلوچستان کو ایک نوآبادی سمجھا اور یہاں پر اس نے حکمرانی اور سرمایہ دارانہ ترقی دونوں کا نوآبادیاتی ماڈل ہی نافذ کیا ہے ۔
بلوچستان میں 60ء اور 70ء کی دہائی میں ایرانی سرمایہ کاری ہو یا 80ء کی دہائی میں عرب ممالک کی پیٹرو ڈالر سرمایہ کاری ہو یا یورپی اور امریکی سرمایہ کاری ہو اس کا نتیجہ بلوچوں کے باب میں زبردست استحصال ، جبر ، ظلم کی شکل میں نکلا جیسے اب سعودی ، قطری ، یو اے ای اور چینی سرمایہ کاری کے زیر اثر نکل رہا ہے ۔
بلوچ قومی تحریک سے وابستہ جو گروہ اور جو افراد غیر ملکی سرمایہ کے سامراجی کردار اور اس سرمایہ کاری میں بطور شراکت دار کے کھڑی پاکستانی سرمایہ کار اشرافیہ اور منتخب و غیر منتخب اسٹبلشمنٹ کے استحصالی ، جابرانہ ، ظالمانہ اور نوآبادیاتی کردار کو بلا امتیاز ننگا اور بے نقاب نہیں کرتے وہ کسی ایک یا دوسرے سامراجی سرمایہ داری کی طاقت کی کاسہ لیسی کر رہے ہوتے ہیں ۔
وہ این جی اوز جو چینی سرمایہ کاری میں تو کیڑے نکالتے ہوں لیکن امریکی ، یورپی ، سعودی ، قطری ، کویتی ، امارت کی سرمایہ کاری کی طرف سے آنکھیں بند کرتی ہوں وہ بھی آخری تجزیے میں سامراج کی کاسہ لیسی کر رہی ہوتی ہیں ۔
کسی بھی مظلوم قوم کی قومی تحریک میں شامل ایسے گروہ یا افراد جو عالمی سامراجی کیمپوں میں کسی ایک بھی کیمپ کو اپنا نجات دہندہ بناکر پیش کر رہے ہوں وہ گروہ اور افراد رجعت پرست اور اس قوم کے محنت کش ، غریب ، مظلوم و محکوم طبقات اور گروہوں کے دشمن ہوا کرتے ہیں ۔ قومی ظلم و جبر کو طبقاتی استحصال سے الگ کرکے دیکھنے والے کبھی ترقی پسند موقف اور پوزیشن کے حامل نہیں ہوا کرتے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں