موت کی حمایت میں -حفیظ تبسم/مسلم انصاری

ظاہر ہے اس نے جو دیکھا اور سنا، جس سے وہ گزرا یا جس سے اسے گزارا گیا، جس معاشرے کے بیچ اس نے آنکھ کھولی اور جس معاشرے نے اس کی آنکھیں کھولیں، حفیظ تبسم اِسے ہی اوراق پر اتار سکتا تھا، اور اس نے یہ کام بخوبی کیا، حتی کہ انجام کار کے طور پر جو فقط موت ہے، اس نے ان اوراق کے پلندے کو “موت کی حمایت میں” کا نام دیا۔

“موت کی حمایت میں” دراصل تخلیق کار کی زندگی کے گرد گھومتی اس کی اپنی یادوں کی حمایت بھی ہے، اس کے اپنے کرداروں کی حمایت، کتوں اور انسانوں کی مشترکہ حمایت، کسی ایک مخصوص عورت یا ان گنت مردوں کی حمایت، تذلیل و توقیر کی حمایت، سایوں کی حمایت، کم عمری میں ذھنی بلوغت کو پہنچ چکے بچوں کی حمایت، چھوٹ چکے رشتوں یا ہاتھوں سے ابھر آنے والی یاسیت کی حمایت، گم شدہ لوگوں کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کی حمایت، بھوک کی حمایت، ہجرت کی ایذا رسانی کی حمایت اور تجدید عہد کی حمایت میں، حفیظ تبسم خود کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ کر اپنے کرداروں کے ہمراہ بہت آگے نکل گی۔

خوب صورت یہ ہے کہ تخلیق کار کا اپنا پلڑہ ایک جانب نہیں جھکا، جب اس نے مخصوص حد تک عورت یا مرد میں سے کسی ایک کی بات کرنی تھی، جب اسے جنسی گٹھ جوڑ باندھنے یا توڑنے تھے، جب اسے رقیب اور کتے کے مابین فرق تلاش کرنا تھا، جب اس کے کردار کو سیاسی تھپڑ مارتے ہوئے بھاگنا تھا یا گم شدگی کے ڈر سے روپوشی کے بیچ دروازے پر پڑی لاش اٹھانی تھی، جب وہ باغ میں کتے کو ٹہلاتے دو بچوں کے مکالمے کو اتار رہا تھا اس نے باآسانی اپنا دامن جذبات سے بچاتے ہوئے یہ گیند اپنے قاری کی کوٹ میں پھینک دی اور اپنے کئی افسانوں کے اختتام کو لیکر درست رائے کا بوجھ پڑھنے والوں پر چھوڑ کر پتلی گلی میں ایسے روپوش ہوگیا جیسے “بانسری کی موت” نامی افسانے میں فضلو سے ملنے والی عورت!

تو کیا ایسے افسانے لکھ کر، ایسی کہانیاں اوراق پر اتار کر حفیظ تبسم خود بھی اس دنیا میں واپس لوٹ پائے گا جیسا “جباری ننگل والا” والا چاہتا رہا؟

آخر اپنی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے گزر کر اب حفیظ نے کس صورت میں “جنم روپ” لیا ہے؟

حفیظ کے دھان پان سے وجود میں، سوچوں کی حمایت میں کتنی ہی اور کہانیاں ہونگی جسے وہ کھود، کھرچ یا نوچ کر نکالتا رہا تو “موت کی حمایت میں” نامی سُچے افسانے جیسا کیا کیا اور نکلے گا (نیک خواہشات)۔۔

حفیظ نے یہ سبھی افسانے مختلف اوقات میں اتارے، پھر بھی اس کے پاس کچھ چیزیں ہو بہو رہیں، خاص کر یا حیران کن طور پر “کتّا” اس کے افسانوں میں ایک ایسی علامت کے طور پر مستعمل ہے جسے وہ جب چاہے جس صورت میں ڈھال لیتا ہے، اس نے چار الگ الگ افسانوں میں کتے کو لیکر، ان کی حرکات وسکنات سمیت کچھ سطریں بارہا دہرائیں، ایسے ہی، ایک مخصوص لڑکی کا کردار، جس کے پاس کتا ہے، کچھ افسانوں میں وہ سب لڑکیاں بس ایک ہی لڑکی لگتی ہیں، بعینہ اسی طرح قصہ گو کردار، وہ بھی مختلف مقامات پر اپنی اسی ہیت میں براجمان رہے حفیظ نے انہیں زیادہ چھیڑ چھاڑ یا بدلاؤ سے باز رکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

شاید اس سب کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حفیظ تبسم کہانی کے ساتھ زیادہ چھیڑ چھاڑ اور کھینچا تانی کے حق میں نہیں ہے، وہ ایک لَے کو جسے وہ بناتا ہے اسی کو بہنے دیتا ہے اور اپنا ذاتی عمل دخل یا اپنی رائے بیچ مکالمے یا کہانی میں کوسوں میل دور چھوڑ آتا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ حفیظ کا انداز کہانی کے بیان میں قصہ گوئی سے مشابہ ہے، حجت تام کے طور پر یہ تسلیم ہے کہ حفیظ نے نظم اور تنقید کے بعد جب نثری میدان میں اپنے ہونے کا بغل بجایا ہے تب اس کے پاس لاحاصل سطر ایک بھی نہیں ہے
حفیظ تبسم کے قلم کے لئے بہت محبت
حفیظ تبسم کے نام بہت احترام

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply