کتب پر تبصروں کے مسائل/یاسر جواد

منیر نیازی صاحب کے دارو کا کما حقہ بندوبست ہو جاتا تو شاید آج دو چار ’’ممتاز‘‘ اور مشہور تمغہ یافتہ شاعر موجود نہ ہوتے جنھیں اُن کے لکھے ہوئے ’’فلیپس‘‘ نے ممتاز کر دیا۔ وہ بس یونہی لکھ دیتے تھے، اور ساتھ ساتھ کلبیت کا مظاہرہ بھی کرتے۔ مرحوم شمیم عارف صاحب، رشید امجد اور دیگر بھی اِس جرم میں شریک رہے ہیں لیکن اُس کی وجہ کسر نفسی اور حلقہ پروری تھی۔ (آخر یہاں صدارتوں اور تمغوں وغیرہ سب کی بنیاد حلقہ پروری ہی تو ہے) نتیجتاً اِن حضرات نے بھی کچھ ڈھلے ڈھلائے فقرے لکھنا شروع کر دیے جن کا کچھ بھی مطلب نہیں تھا: مثلاً، ان کا ایک اپنا جہانِ معنی ہے اور تفہیم کی بہت سی ممکنہ جہات لیے ہوئے ہے۔ اِن کے کلام یا تحریر میں ’’عصری شعور‘‘ جھلکتا ہے۔ یہ آگے چل کر بہت سے جہان دریافت کریں گی۔
لہٰذا لکھنے والوں، بالخصوص شعرا نے بھی کائنات اور اِس طرح کی دیگر ناسا کی تصاویر میں دیکھی ہوئی اشیا کو اپنے مجموعوں کے ناموں میں داخل کر لیا۔ خیر ہمیں کیا! لگے رہیں، یہ خود لذتی ہے۔ مجھے یہ پوسٹ لکھنے کا خیال سنجیدہ لکھاری اسامہ صدیق کے بیان کردہ کچھ اصولوں کو پڑھ کر آیا۔ وہ اصول درست ہیں، لیکن اُن کے پیچھے کچھ عوامل ہیں، جنھیں میں بھی بخوبی جانتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ کہ تبصروں کو ادبی تنقید کہنا مشکل ہے، اور شاید ہی کوئی شخص اسامہ صاحب کی طرح پوری طرح پڑھ کر تبصرہ کرتا ہے۔ ہمارے ہاں ’’جستہ جستہ‘‘ کی بیماری ہے۔ بڑے بڑے ادیب حلقۂ یاراں کی وجہ سے کتب کی تقاریب میں مدعو ہو جاتے ہیں اور کتاب ابھی پڑھی نہیں ہوتی یا پڑھنی ہی نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں، ’’راستے میں آتے ہوئے جستہ جستہ دیکھی ہے….۔‘‘ اور پھر کوئی ادبی قصہ سنا کر سائیڈ پر ہو جاتے ہیں۔ مصنف بھی خوش، محفل بھی بن گئی۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی رائٹر بہ مشکل ہی اُس کتاب کو ہدفِ تنقید (منفی معنوں میں) بناتا ہے جو اُس کے اپنے ہی پبلشر نے چھاپی ہو۔ یعنی اگر میں نے پبلشر ایکس سے اپنی کتاب چھپوائی ہے اور اُس نے کسی مصنف کا کچھ اور چھاپا ہے (خواہ paid) تو مجھ پر فرض ہو جاتا ہے کہ اُس کی تعریف کروں۔ اگر تنقید کر دی یا فضول یا ناقص تحریر قرار دیا تو بس! پبلشر نے فوراً اُس کا لنک متعلق رائٹر کے ساتھ شیئر کر کے ساتھ تیلی لگا دینی ہے۔ پھر آپ دونوں ہمیشہ کے لیے دشمن بن گئے۔
سوم، اگر ہمیں ’’تبصرے‘‘ کے لیے کتاب مفت مل گئی تو بس اب ایک لفظ بھی پڑھے بغیر ’’مثبت‘‘ تبصرہ فرض ہو گیا۔ چنانچہ ایسے/ایسی مبصرین کاغذ، جلد، ٹائٹل وغیرہ کی تعریف کرتے اور دیباچے میں سے ہی چند لائنیں پڑھ کر ’’حق‘‘ ادا کرتے/کرتی ہیں۔
اِس کے علاوہ ہم اپنے پرانے دوستوں کی کتابوں کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا سکتے۔ تنقید کا مقصد ایک مکالمے کی راہ ہموار کرنا ہوتا ہے، لیکن ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اور سچی بات ہے کہ منفی تنقید کسی کو اچھی بھی نہیں لگتی۔ میں نے تو اسی لیے تبصرہ کرنا یا کچھ تنقیدی لکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ رہے سہے چند سو قاریوں کو گمراہ کرنے کی بجائے تقیہ اختیار کیا جائے؟ قارئین کو خود اس کے متعلق سیکھنا چاہیے۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply