ٹرین ٹو کوئٹہ- ایک مسافر کی داستان(3)-ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

ڈیرہ مراد جمالی؛

ڈیرہ اللہ یار کے بعد ٹرین ضلع نصیر آباد کے شہر ڈیرہ مراد جمالی جا رکتی ہے۔ نصیر آباد کا پرانا نام ”ٹمپل ڈیرہ” تھا جو 1891 میں سبی کے پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ایچ ایم ٹمپل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ناموں کے حوالے سے بلوچستان کے کچھ اضلاع میں بہت کنفیوژن ہے جیسے ضلع جعفرآباد کا صدر مقام ڈیرہ اللہ یار ہے تو ضلع جھل مگسی کا گندھاوا، ضلع چاغی کا دالبندین اور ضلع کچھی کا ڈھاڈر۔ یہاں باقی صوبوں کی طرح تمام اضلاع کے نام صدرمقام پہ نہیں رکھے گئے۔
ڈویژنل صدر مقام ہونے کے باوجود ڈیرہ مراد جمالی شہر کی حالت قابل افسوس ہے۔ یہ شہر کیا یہ پورا ڈویژن ہی انتہائی پسماندہ ہے۔ تعلیم و صحت کے مسائل کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر بھی تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ حالانکہ نصیر آباد ڈویژن کے علاقے بلوچستان کے سب سے زرخیز علاقے شمار کیئے جاتے ہیں، لیکن ان کے منتخب نمائندے بالکل بھی عوام دوست نہیں لگتے۔

یہاں سے ٹرین کچھ چھوٹے اور متروک شدہ اسٹیشنوں کو کراس کرتی ہے جو کسی بیوہ کی مانگ کی طرح اُجڑے نظر آتےہیں۔
ان میں نٹال، بختیارآباد ڈومکی، ڈمبولی، مٹھڑی، ڈنگرہ اور وزیرانی ریلوے اسٹیشن شامل ہیں۔
اس ویرانے سے گزر کے ایک بجے ٹرین نے سبی جنکشن پہ بریک لگائی۔

سِبی؛

سبی، بلوچستان کا ایک اہم ڈویژنل و ضلعی صدر مقام اور شہرہے جو ذین ، بھمبور اور دنگن کے پہاڑی سلسلوں سے گھرا ہوا ہے۔ 1878ء میں دوسری برطانوی افغان جنگ کے بعد انگریز وں نے سبی کو بذریعہ ریلوے لائن 1890ء میں جیکب آباد سے ملایا۔ 1903ء میں سبی کو ضلع بنایا گیا اور یوں سبی بلوچستان کا قدیم ترین ضلع بھی ہے۔ نصیرآباد، کوہلو، ڈیرہ بگٹی اور زیارت کے بعد جب ہرنائی کو بھی سبی سے علیحدہ کر کے ضلع بنا دیا گیا تو یہ رقبے میں کافی سُکڑ گیا۔ موجودہ ضلع، سِبی اور لہڑی، دو تحصیلوں پر مشتمل ہے۔
یہاں کا موسم بلوچستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت بہت مختلف ہے۔ اسے پاکستان کا گرم ترین شہر کہا جاتا ہے جہاں گرمیوں میں عمومی درجہ حرارات 52 یا 53 ڈگری سینٹی گریڈ تک جاتا ہے۔ یہ سوچ کہ میرا دل چاہتا ہے کہ سبی کے لوگوں کو ان کی ہمت پر سلام پیش کروں۔
اس دن بھی یہاں شدید گرمی تھی، درجہ حرارت لگ بھگ انچاس تھا۔ اسٹیشن پہ لوگ ٹھنڈا پانی اور شربت خرید رہے تھے۔ مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو نہلا رہی تھیں۔ بوڑھے اور نوجوان وضو کر رہے تھے۔ قریب ایک مسجد سے جمعے کے خطبے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ میں نے بھی وضو کیا اور اسٹیشن کے ایک درخت کی چھاؤں میں نماز ادا کی۔ بھئی اس نماز کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔
سبی جنکشن، کوئٹہ ریلوے ڈویژن کا آغاز ہے جہاں سے دو ریلوے لائنیں نکلتی ہیں۔ ایک لائن براستہ مشکاف، آبِ گم، مچھ، کولپور سپیزنڈ ، کوئٹہ اور بوستان جنکشن سے چمن بارڈر تک جاتی ہے جبکہ دوسری ریلوے لائن سبی سے دریائے ناڑی کے ساتھ ساتھ بابر کیچ، سپن تنگی، ہرنائی، ناکُس، شاہ رگ، خوست اور زردالو تک جاتی ہے۔
2006 میں یہ ریلوے لائن تخریب کاروں کے ہاتھوں پلوں کے تباہ ہو جانے کی وجہ سے بند ہو گئی تھی۔ لیکن گزشتہ سال اسے دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ ایک مقامی کے مطابق ایک دن چھوڑ کے ایک دن، ٹرین سبی ہرنائی تک جاتی ہے۔
ٹرین سبی سے چلی تو یہاں لوکو شیڈ کے قریب ”سبی ریلیف ٹرین” کھڑی نظر آئی جو کسی حادثے کی صورت میں جائے حادثہ پر امدادی سامان لے کر جاتی ہے اور مدد فراہم کرتی ہے۔ سبی کا لوکو شیڈ کوئٹہ ڈویژن کا دوسرا فعال ترین لوکو شیڈ ہے۔ یہاں سے روزانہ صبح پائلٹ انجن کے ذریعے ایف سی بلوچستان کے روزمرہ استعمال کا سامان بھی بھیجا جاتا ہے۔

سبی سے کوئٹہ کے بیچ آٹھ ریلوے سٹیشن ایسے ہیں جو اب بند کر دیئے گئے ہیں۔ یہاں اکثر مسافر ٹرین کو کسی دوسری ٹرین کے ساتھ کراسنگ کے لئے روکا جاتا تھا۔ ریلوے ٹریفک کا بوجھ کم ہونے کی وجہ سے ان اسٹیشنوں کو بند کر دیا گیا ہے جنہیں ریلوے کی اصطلاح میں بلاک ہٹ کہا جاتا ہے۔
ان میں ناڑی بینک، وسیپور، گڈالر، کوہسار، لالا جی، چدرزئی، سر بولان اور کوریڈور اسٹیشن شامل ہیں۔ ان میں زیادہ تر پنیر اور پیشی اسٹیشن کے درمیان واقع ہیں۔
سبی سے ٹرین نکلی تو دل بلیوں اچھلنے لگا کیونکہ اس کے بعد ہی میرا پسندیدہ ٹریک شروع ہونے والا تھا اور کئی سرنگیں اس مسافر کی منتظر تھیں۔

ناڑی بینک؛

سبی کے بعد موسم واضح طور پہ بدلتا محسوس کیا جا سکتا تھا۔
ناری دریا پار کرتے ہی ناڑی بینک نامی ایک گم نام سا اسٹیشن آیا۔ ناری بینک، کوئٹہ کی طرف ضلع کچھی (سابقہ نام بولان) کا پہلا اسٹیشن ہے۔ اس کے مغرب میں ڈھاڈر شہر ہے جس کے جنوب میں ایک عظیم ترین تہذیب کے آثار موجود ہیں جو ”مہرگڑھ” کے نام سے جانی جاتی ہے۔
مہرگڑھ کے مقام پر جو آثارِ قدیمہ دریافت ہوئے ہیں وہ نہ صرف بلوچستان بلکہ جنوبی ایشیاء میں پتھر کے زمانے کے سب سے قدیم آثار مانے جاتے ہیں۔ 1874 میں فرانسیسی ماہرین نے پاکستانی ماہرین کے تعاون سے یہاں کھدائی شروع کی جو دس سال تک جاری رہی جس سے مہرگڑھ کی تہذیب کو سمجھنے اور جاننے میں کافی مدد ملی۔ تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ بلوچستان کا علاقہ پہلے خشک اور بنجر نہ تھا بلکہ یہاں کثرت سے بارشیں ہوا کرتی تھیں۔ یہ ٹیلے اس دور میں آباد تھے اور ان بستیوں کے گرد کھیت کھلیان تھے۔
سب سے اہم بات جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ مہرگڑھ ہی خطے کا وہ علاقہ تھا جہاں سب سے پہلے گندم اور جو کاشت کی گئی۔ افسوس کہ اس جگہ کو وہ شہرت نا مل سکی جو ہڑپہ اور موئنجودڑو کے حصے میں آئی۔
واپس ناری بینک پہ چلتے ہیں جہاں ریل ہماری منتظر ہے اور مشکاف جانے کو تیار ہے۔
مشکاف؛ مشکاف، ناری بینک کے بعد والا اسٹیشن ہے جسے کراس کرنے کے بعد ٹرین بلوچستان کے ہیبت ناک و چٹیل پہاڑی علاقے میں داخل ہو جاتی ہے۔ اصل میں یہی وہ جگہ ہے جہاں سے ہمارا خوشگوار سفر شروع ہوتا ہے۔ مشکاف کے بعد درہ بولان کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے جس میں مختلف جگہوں پر پہاڑی سرنگیں بنائی گئی ہیں۔
ٹرین مختلف ندی نالوں کو پار کر کے جب ان پہاڑی سرنگوں سے گزرتی ہے تو سفر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ تبھی اس ٹریک پر ریل کا سفر میرا پسندیدہ ترین ہے۔

پہروکُنری؛

مشکاف کے بعد پانچ سرنگوں سے گزر کے پہرو کنری کا نام نظر آتا ہے۔ کتنا پیارا اور منفرد نام ہے۔ بلکہ آگے آنے والا ہر اسٹیشن اپنے آپ میں منفرد اور دلچسپ نام رکھتا ہے چاہے وہ پنیر ہو، دوزان یا پھر سپیزند ۔ کہتے ہیں کہ پہرو ندی کے شمال میں واقع اس گاؤں کا نام ایک عورت کے نام پہ رکھا گیا ہے۔ پہروکنری ہمیں تو بڑا بھایا لیکن شاید ٹرین کی اس سے نہیں بنتی۔ یہ اسٹیشن آج کل ریلوے کراسنگ کے لیئے ہی استعمال ہوتا ہے۔
پنیر؛

یہاں سے ریلوے ٹریک شمال کا رخ کرتا ہے اور ذرا آگے جا کر پنیر کا اسٹیشن آ جاتا ہے۔ کتنا دلچسپ نام ہے پنیر، جیسے ڈںمارک کا کوئی اسٹیشن ہو۔ یہ ضلع کچھی کا ایک چھوٹا سا خوبصورت اسٹیشن ہے جس کے قریب کوئی آبادی نہیں ہے۔
پنیر سے کچھ آگے پنیر سرنگ آتی ہے جو اس راستے کی سب سے لمبی سرنگ ہے۔ یہاں جب ٹرین داخل ہوتی ہے تو کچھ منٹ کے لیئے گھپ اندھیرا چھا جاتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس سرنگ سے نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔ مزید پانچ سرنگوں سے گزر کے آپ کو ایک پَیشی بھگتانی پڑتی ہے۔
پَیشی؛ پنیر کے بعد جس جگہ ٹرین کی پَیشی پڑتی ہے وہ یہ چھوتا سا قصبہ ہے ۔ چھوٹی چھوٹی کٹی ہوئی پہاڑیوں کے بیچ بنایا گیا یہ ننھا سا اسٹیشن دریائے بولان کے قریب واقع ہے اور دریا کیے دوسری جانب ”بی بی نانی” کا مشہور مقام ہے جہاں لوگ پکنک منانے جاتے ہیں۔ پیشی اسٹیشن کے قریبی پل پر جب ٹرین مڑتی ہے تو یہ منظر دیکھے لائق ہوتا ہے تبھی یہی منظر پاکستان ریلوے کی ٹکٹ پر بھی چھاپا گیا ہے۔

آبِ گُم ؛ پیشی سے ہو کر ٹرین دریائے بولان کو پار کرتی ہے اور شمال میں واقع بلوچستان کے اسٹیشن آبِ گُم پہنچتی ہے۔ اگرچہ یہ ایک فارسی نام ہے لیکن مطلب صاف واضح ہے، گمشدہ پانی۔ نام کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کے اس جگہ دریائے بولان ریت میں کہیں غائب ہو جاتا ہے۔ 1886 میں تحصیل مچھ کے اس قصبے میں ایک خوبصورت اسٹیشن بنایا گیا تھا جہاں کوئٹہ جانے والی ٹرین کو دوسرا انجن لگایا جاتا ہے۔ یہاں سے کولپور تک پٹڑی ڈبل کر دی گئی ہے۔
سطح سمندر سے اس کی بلندی 658 میٹر ہے اور یہاں سے ٹرین کو دو انجن کھینچتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ آگے اونچائی بڑھتی جاتی ہے اور ٹرین کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ آبِ گُم میں آب شاید گم ہو جائے لیکن سوئی گیس کے کافی ذخائر پائے گئے ہیں جو اس خطے کی حالت بدلنے میں ہنوز ناکام ہیں۔
آبِ گُم کے بعد ریلوے ٹریک اور مرکزی سڑک ہمسفر بن جاتے ہیں جو راستے میں ایک دوسرے کو کراس کرتے رہتے ہیں۔ کچھ آبادی کے آثار نظر آتے ہیں اور یہاں بلوچستان کی دلچسپ روزمرہ زندگی دیکھنے کو ملتی ہے۔

مَچھ؛

ایک دو لمبے موڑ مُڑ کر ٹرین مچھ پہنچتی ہے جو کچھی ضلع کی ایک تحصیل اور آخری اسٹیشن ہے۔
سطح سمندر سے نو سو نوے میٹر بلند مچھ اسٹیشن سبی کے بعد سب سے بڑا اور شاندار اسٹیشن ہے جسے 1880 میں سوئزرلینڈ کے ایک ریلوے اسٹیشن کے طرز پرتعمیر کیا گیا تھا۔
1929 میں تعمیر کی گئی مچھ جیل، پاکستان کی سب سے بڑی جیل ہے جہاں بے شمار سیاست دانوں کے علاوہ خطرناک قیدیوں کو رکھا جاتا ہے، اس لیئے یہاں کے اسٹیشن پر بھی ایف سی کی بھاری نفری تعینات رہتی ہے۔
چونکہ یہ علاقہ کوئلے کے وسیع ذخائر رکھتا ہے سو 1883 میں یہاں سے کوئلہ نکالنے کا کام شروع ہوا۔ اب بھی آپ کو اسٹیشن کے آس پاس پہاڑوں پر کوئلے کی کانیں نظر آ جائیں گی۔
ایک اور دلچسپ بات کہ 1935 میں آنے والے تباہ کن زلزلے کا مرکز بھی یہی شہر تھا جس میں کوئٹہ شہر تباہ و برباد ہو گیا تھا۔
مچھ کی آبادی لگ بھگ پانچ ہزار نفوس پر مشتمل ہے جس میں مسلمان اور ہندو شامل ہیں۔ یہاں کی پہاڑیوں میں ایک خاص نسل کی بھیڑ پائی جاتی ہے جس کی اون ملائم اور ریشہ لمبا ہوتا ہے۔ اس نسل کو ترقی دے کر بہتر اون مہیا کرنا ایک نہایت منفعت بخش صنعت کی بنیاد بن سکتا ہے۔

ہِرک و دَوزان؛ مچھ کے بعد ٹرین دریائے بولان کا پل پار کرتی ہے اور ہِرک نامی ایک چھوٹے سے اسٹیشن کو کراس کرتی ہے۔ یہاں سے آگے ریلوے ٹریک دریا کے ساتھ ساتھ چلتا ہےاور یہی درہ بولان کا مرکزی علاقہ ہے جہاں یہ تنگ سے درے کی صورت نظر آتا ہے۔
دریائے بولان پر بنے ریلوے پُلوں کو اس علاقے کی تیز ہواؤں کی بدولت ”وِنڈی برج” کہا جاتا ہے۔ آگے ”پیر پنجا” (ایک بزرگ کا نام جن کا مزار سڑک کنارے واقع ہے) اور ”ونڈی کارنر” نامی سرنگیں آتی ہیں جن سے گزر کے ٹرین دوزان کے اسٹیشن کو تنہا چھوڑ کر اپنا راستہ ناپتی ہے۔
دوزان کا چھوٹا سا پہاڑی اسٹیشن اپنے نام کی طرح خوبصورت ہے جس کے بعد مشہور زمانہ ”میری جین” سرنگ آتی ہے جس کی کہانی سنائے بغیر ہم آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

میری جین، سرنگ نمبر 16 اور گمشدہ قبر؛ یہ کہانی ہے سرنگ نمبر 16 کی۔
بلوچستان کے ایک خوبصورت اور چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن دوزان سے اگے واقع سولہ نمبر سرنگ کو ”میری جین” کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔
بولان وادی کے فرش پر بچھائی گئی پٹڑی جب بارشوں سے تباہ ہو گئی تو اسے اونچائی پر بچھانے کے لیئے نئے ٹریک اور سرنگوں پر کام شروع کیا گیا۔
یہاں کام کرنے والے انگریز عملے میں ایک انجینیئر ایف ایل او کیلہن (F L O’Callaghan) بھی تھا جس کی بیوی میری جین، اپنے شوہر کی محبت میں برطانیہ سے اس دور دراز علاقے میں اس کے ساتھ رہنے آئی تھی۔
کہتے ہیں کہ 1894 میں اس سرنگ کی تعمیر کے دوران جب دھماکہ ہوا تو ایک پتھر کہیں سے انہیں آ لگا (کچھ کے مطابق پتھر پہاڑ سے گرا تھا)۔ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے وہ جانبر نا ہو سکیں اور موقع پر ان کی موت ہو گئی۔
حالانکہ ان کے تابوت کو برطانیہ بھیجا جا سکتا تھا لیکن بی بی سی کے مطابق کیلہن نے ان کی اس قربانی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیئے انہیں سرنگ کے اوپر پہاڑ کی چوٹی پر دفنانے کا فیصلہ کیا۔ میری جین کی اس قربانی کے پیشِ نظر انگریز سرکار نے اُس سرنگ کا نام انکے نام سے موسوم کر دیا جہاں یہ حادثہ پیش آیا تھا۔
مقامی لوگوں کے مطابق بہت پہلے سرنگ کے اوپر ان کی قبر بھی موجود تھی لیکن دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے آج ایک سو تیس سال بعد اس کا سراغ لگانا بھی مشکل ہے۔
شاید بولان کی اِس سرنگ سے گزرنے والی ٹرین کو میری جین کی روح
اس پہاڑ سے دیکھتی ہو گی اور بلوچستان کے معصوم بچوں کی طرح ٹرین کو ہاتھ ہلاتی ہو گی.
جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply