۱۔ زمانہ قدیم کے سیاحوں اور ماضی قریب کی یورپی قوموں نے اِس جزیرے کو رنگا رنگ ناموں سے نوازا۔
۲۔ نگمبو قدیم تہذیب میں سانس لیتا لنکا کے ساحلوں کا ایک خوبصورت شہر۔
۳۔ بچے دو۔سکینڈری لیول تک تعلیم لازمی۔کتابیں یونیفارم سب مفت
سچی بات اب آپ سے تو کوئی پردہ نہیں۔دل کے دُکھڑے پھولنے پھرولنے کو بھلا کس کے پاس جانا ہے ہمیں۔آپ ہی کے پاس نا۔تو کہنے دیجئیے کہ سری لنکا جیسے دیس کا سیر سپاٹا تو اوپر والے نے ہماری جھولی میں کچھ جھونگا سٹائل سے ہی ڈالا تھا کہ جو دراصل اُس کی اپنی فطرت کا غماّز نہیں۔بھئی اسکی خوبی تو بندہ جوڑ ے پلی پلی اور رام لنڈھائے کُپّا سے جڑی ہوئی ہے۔ہاں اِسے ہم اپنے محلے کی ہٹی والے پھا شیدے کے کھاتے میں ڈال سکتے ہیں کہ جسے مولا نے اپنے وصف کا پھورا سا (تھوڑا سا) عنایت کیا تھا کہ وہ محلے کے سبھی بچوں کو چھولے والے چونگے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی کھٹی میٹھی اضافی مچھی والی گولی بھی عنایت کرتاتھا۔تو یہ بھی بس ویسی ہی عنایت تھی۔
اب جس عزیز رشتہ دار نے سُنا۔ناک بُھوں چڑھایا۔
‘‘لو انگلینڈ جاتیں۔امریکہ کا ٹکٹ کٹاتیں۔اٹلی کا چکر لگاتیں۔تمہاری قسمت میں تیسری دنیا کے پاکستان کی طرح دہشت گردی کے مارے یہ سستے سے ملک دیکھنے ہی رہ گئے ہیں۔’’
بڑا دل خراب ہوا۔منہ پھاڑ کر جوابی حملہ تو کیا۔
‘‘ارے تم بدذوقوں کو کیا پتہ۔ کیسا فطرت کی رعنائیوں سے بھرا پُرا دیس ہے۔’’
ساتھ ہی سانپ کے پھن کی طرح اِس سوال نے بھی سر اٹھایا کہ ‘‘لو میاں یہ اوپر والا تو ہمارے ساتھ ہاتھ کرگیا ہے۔ماٹھے سے ،غریبڑے سے لوگوں کو اپنے مزاج کے برعکس بس چونگے پر ہی ٹرخا گیا ہے ۔پر اب کوئی زور زبردستی تھوڑی تھی اس کے ساتھ۔چلو شکر جو بھی وہ دے۔ سو بسم اللہ۔’’
پروگرام میں اونٹ گھوڑے جوتنے والی مشقت کا بھی ذرا دخل نہ تھا۔بس کمرے میں بیٹھے بیٹھے ساری معلومات اور مہرالنساء سے گٹ مٹ ہوئی۔اٹھے ۔پیسے کھیسے میں ڈالے اور ٹریولنگ ایجنسی کے دفتر جا دھمکے ۔ٹکٹ ہاتھ میں آیا تو رشک آیا۔بے اختیار ہی ہونٹوں سے نکلا۔
‘‘ارے کیا ہی اچھا ہو اگر دنیا کے دوسرے ممالک بھی ایسے ہی فیاض بن جائیں۔کمبخت ماروں نے اپنے ملکوں پر کتنے پہرے بٹھا رکھے ہیں۔ایسے ایسے بھاری بھرکم قفل اُنکے بوتھوں پر چڑھا دئیے ہیں کہ بس بندہ تو انہیں کھولتا کھولتا ہی ہپوہان ہوجاتاہے۔
اب طے تو یہی ہوا تھا کہ پہلا پڑاؤ کولمبو میں ہو گا کہ مرکزی شہر ہے۔مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے۔پی آئی ائے کی فلائٹ سے کراچی پہنچے۔
کراچی ائیر پورٹ کی چھوٹی سی رنگ رنگیلی دنیا نیشنل جیو گرافک چینل کی کسی سکرین کی طرح نظر آئی تھی جس پرجیسے ایک botanical پروگرام چل رہا ہو۔اُس کے پستہ قد پودوں پر ترو تازہ طوطے رنگے گراس ہوپروں کیطرح ائیر لنکا کی چار فضائی میزبانیں جب اچانک ہنستی کھلکھلاتی اُچھلتی پُھدکتی سبز پھولدار ٹخنوں کو چھوتے تنگ سے سکرٹ پہنے نمودار ہوئیں تو پھر میرے جیسی تماشہ بین کیلئے کہیں ممکن تھا کہ وہ اپنی چھوٹی سی گردن پر ٹکے سر کی دو حیرت زدہ آنکھیں اُنکے تعاقب میں دُور تک دوڑاتی نہ جائے۔ میں یہی کام کررہی تھی۔جب ایک شوخ سی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔
‘‘ہرگز ہرگز اتنی خوبصورت نہیں ہیں کہ جنہیں یوں ٹکٹکی باندھ کر دیکھا جائے۔’’
اس درجہ بے تکلفی سے یہ بات کہنے والا خوش پوش اور خوش شکل سا ایک نوجوان تھا جو میری ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا اپنی چمکتی آنکھیں میرے چہرے پر جمائے مجھ سے خاموش زبان میں پوچھتا تھا۔
‘‘بُوجھیں تو ذرا میں کون ہوں؟’’
خوشگوار سی حیرت میری آنکھوں اور چہرے پر پھیل گئی ۔مگر یاداشتوں کے پٹارے میں تیز رفتاری سے ہاتھ چلانے کا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ شناسائی کے کسی سر پیر کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔خوش طبع لڑکا بھی مجھے زچ کرنے پر تُلا ہوا تھا۔ پھر اُسنے راستہ دکھانا شروع کر دیا اور جیسے آناً فاناً میرا چہرہ ہنسی کی پھوار میں بھیگ گیا۔
‘‘تو تم ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور کنیز اعجاز کے بیٹے ہو۔’’
اب یہ جاننے پر کہ میں سری لنکا جا رہی ہوں اُسنے معلومات کا انسائیکلوپیڈیا کھول دیا۔
‘‘پہلے نگمبو جائیے۔ قدیم تہذیب میں سانس لیتا ایک خوبصورت ساحلی شہر۔ ائیر پورٹ کولمبو اور نگمبو کے عین درمیان میں ہے۔ ’’
چلیے ٹرین کا کانٹا بدلا گیا۔
ایر لنکن فلائٹ کا وقت تو گیارہ بجے تھا۔پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ ابھی تو بیچاری کولمبو سے کراچی آنے والی ہواؤں کے شانوں پر لہراتی راستے کے پینڈے مارنے میں مصروف ہے۔ یوں ٹیک آف کوئی ایک بجے ہوا۔ کولڈ ڈرنک کے بعد جو کھانا دیا گیا وہ نہ قبول صورت تھا اور نہ ہی قبول سیرت ۔ بس کانٹے چمچے کے ساتھ شور شرابا کرنے والی بات تھی۔ جہاز میں بہت سی سیٹیں خالی تھیں پر ہر قطار میں کوئی نہ کوئی سر نظر آتا تھا ۔اس لیے کہیں لیٹ کر تھوڑی سی نیند لینے کی عیاشی کا بھی کوئی سوال نہ تھا۔
شب کے آخری پہر بندرا نائیکے ائیر پورٹ پر میرے قدموں نے سمندروں میں گھری اس پُر اسرار سی سرسبز زمین پر قدم رکھتے ہی مدھم سی زرد برقی روشنیوں میں لپٹے اجنبی سے آسمان پر ایک خاموش نظر ڈالتے ہوئے کہیں دل میں عجیب سے ہیجان آمیز احساس کی اثر آفرینی کو محسوس کیا۔
کلیرنس کے مراحل تھکا دینے والی بوریت والے تھے کہ سارے میں آبنوسی رنگ بکھرا ہوا تھا اورپیتھوگُلے قسم کے نقش ونگار اُن پر براجمان تھے۔ کہیں کوئی نظر نواز چہرہ دامن دل کو نہیں کھینچتا تھا اور آنکھ مایوس ہو ہو کر پلٹتی تھی۔
جب جہاز لینڈ کررہا تھا اور منظر اتنا خوبصورت تھا کہ میری یادوں کی پٹاری سے ماریگنولی Marignolli کے احساسات کے نمائندہ یہ اشعار فوراً ہی نکل آئے تھے۔
میں سمندر وں کے پانیوں میں محو سفر تھا
میری بصارتوں میں ایک پہاڑ ابھرا تھا
عظمتوں کے پیرہن زیب تن کیے ہوئے
میں سیلون کے ساحلوں پر لنگرانداز ہوا
جنت اور سیلون میں کتنا فاصلہ ہوگا
بس تھوڑا سا ہی شاید چند قدموں کا
شاید یہ بھی جنت کا ہی کوئی ٹکڑا ہو
ہواؤں کے دوش پر بہتی
چند مترنم آوازیں
لگتا ہے یہ کِسی آسمانی فوارے کا دل کش گیت ہے
جو میرے کانوں میں رس گھول رہا ہے
یہ کائنات کا کیسا دل کش ٹکڑا ہے
زمانوں بعد اس وقت میں بھی کچھ ویسی ہی کیفیت میں تھی۔مگر اب مجھے ہنسی آرہی تھی۔ہائے ماریگنولی نے یہ سب نہیں دیکھا تھا۔صرف ساحلوں اور نظاروں پر مرمٹا تھا۔
کرنسی بدلوائی تو سو ڈالر نے پرس کو گویا گلے گلے تک رجا دیا۔ نو ہزار آٹھ سو چھیانوے روپے۔ عیش ہو گئی۔
گھڑی نہ میرے پاس تھی نہ مہرالنساء کے پاس۔ کسی سے پوچھنے پر پونے چار کا پتہ چلا۔ اندھیرے میں رکشوں ،ٹیکسی میں سفر کرنے کی بجائے ہم نے پو پھٹنے کا انتظار کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔
اب سوچا کہ نماز پڑھ لوں۔ ایک دوسے جگہ کے بارے استفسار سے مجھے اپنے احمق ہونے کا شدید احساس ہوا۔
دس بارہ فیصد مسلمان اقلیت والا ملک بھلا ایسے مفت کے رولے رپوں میں کیوں پڑے گا۔ ایک خالی کمرے میں گھُس کر قبلے کا تعین کیے بغیر اﷲ اکبر کہتے ہوئے نیت باندھ لی تھی۔ اور جب دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تھے یہ سوال میرے ذہن سے نکل کر میری ہتھیلیوں پر بکھرتا میرے سامنے مجسم ہو گیا تھا ۔
عرب تاجر صدیوں سے جنوبی ایشیا کے ان دور اُفتادہ جزائر کے ساحلوں پر اپنے سمپان (جہاز نما آبی کشتیاں) میں لنگر انداز ہوتے تھے۔ یہ قول کے سچے اور وعدے کے پکے لوگ تھے۔انکی ناپ تول کے پیمانے صیح اور پورے ہوتے تھے۔انکی چیزیں خالص اور سُتھری ہوتیں۔ مقامی آبادی اُنکی آمدکی منتظر رہتی تھی۔تو انہوں نے اسلام کے پھیلاؤ کے لیے کیوں کام نہیں کیا؟ آج یہاں 12% 10,مسلمانوں کا وجود تو کوئی خاص معنی نہیں رکھتا۔
جب واپس آئی۔ مہر النساء کالہجہ گلے گلے تک تلخی سے بھراہوا تھا۔
‘‘باہر نکل کر جائزہ لو ۔ اب یہیں سڑنے کا ارادہ ہے کیا۔’’
Exit والی لمبی راہداری میں قدم دھرتے ہی مجھے احساس ہوا جیسے انجانے میں میرا ہاتھ کہیں شہد کی مکھیوں کے چھتے پر پڑ گیا ہے اور میں چاروں طرف سے انکے حصار میں گھر گئی ہوں۔
ہوٹلوں کے ایجنٹوں اور ٹورسٹ گائیڈوں نے مار حشر کر دیا۔میری” ایوریج ایوریج “کی تکرار کچھ اِس شدت سے ہوئی کہ سمجھ لیا گیا کہ جس سے ماتھا پھوڑ رہے ہیں نہایت غریبڑی سی پارٹی ہے۔
چلو اچھا ہوا بیچاروں کو حقیقی چہرہ نظرآگیا اور گھنیرے بادلوں کی طرح چھائی بھیڑچھٹ چُھٹاگئی۔اب نگمبو کے لیے 10 ڈالر پر کمرہ اور 500 سری لنکن روپوں پر سواری کا طے ہونے پر ہم سامان اُٹھا کر عمارت سے نکل آئے۔
باہر ایک ہا ہا کار مچی ہوئی تھی۔ گاڑیوں کا شور اور سری لنکن پولیس کے خونخوار چہرے دہلائے دیتے تھے۔ فضا پر ابھی بھی اندھیرے کا کہر سا چھایا تھا۔
‘‘اﷲ ان کی صبح کِس موڑ پر بیٹھی ہے کہ نمودار ہونے میں نہیں آرہی ہے۔ ’’
گاڑی میں بیٹھتے ہی ہماری آنکھیں بند ہو گئی تھیں۔ اسوقت صرف اور صرف بستر کی طلب تھی۔ جب گاڑی رُکی تو نیند کے غبار سے اٹی ہوئی آنکھوں نے کمرے کو کُھلتے خود کو اس میں داخل ہوتے اور بیڈ پر گرتے ضرور دیکھا تھا پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی تھی۔
یہ نغمگی سے بھرپور کسی پرندے کی دل کو موہ لینے والی چہکار تھی جس نے مجھے جگا دیا۔ مدہوش سی کیفیت سے جب ذرا نکلی تو جست لگا کر اُٹھی اور باہر آ گئی۔
کس قدر نکھری ہوئی صبح تھی۔ پام، ناریل کے قد آور جھومتے درختوں پر سورج کی روشنی کسی دل پھینک عاشق کیطرح واری صدقے ہوہو جاتی تھی۔ اجنبی دیس کی ہواؤں کے روم روم میں پھولوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ فضا ہریالی اور سبزے کے گہرے رنگوں سے جیسے دُلہن کیطرح سجی تھی۔ لان میں بانسوں سے بنے شیڈ کے نیچے غیر ملکی جوڑے ناشتہ کرتے تھے۔
فضا کے اس الوہی حسن نے مجھے بے چین کر کے رکھ دیا۔ جاگرز پہن کر میں باہر نکل آئی۔
” رندھایاRandiya ہوٹل۔ ـ”
میں نے زیر لب نام دہرایا۔ اردگرد کی نمایاں چیزوں کو ذہن میں محفوظ کیا سڑک کا نام پروٹوٹاPorutotaروڈ چند بار دہرایا ۔ذرا آگے جاکر احساس ہوا تھا کہ ہوٹل کا کارڈ لینا چاہیے تھا۔بہرحال آنکھوں اور دماغ دونوں کو چوکس کیا۔ تھوڑا سا ڈپٹا بھی کہ دھیان رہے واپسی تیر تکلے کی سیدھی سیدھی ہونی چاہیے۔بھٹکنے کی کوئی رعایت نہیں ۔
چھوٹے چھوٹے بچے صاف ستھری یونیفارم میں اپنی ماؤں کی چھتر چھاؤں تلے سکولوں کیطرف رواں دواں تھے۔ بغیر آستین کے بلاؤز اوراونچے کھلے سکرٹ پہنے عورتوں کی مسکراہٹ دوستانہ تھی۔ مگر عجیب بات تھی پاؤں بیشتر عورتوں کے ننگے تھے۔
نگمبوکی مین سڑک کی کیا بات تھی۔ لشکارے مارتا اسکا سیاہ چہرہ ہر قسم کے داغ دھبوں سے پاک دورویہ درختوں کی ہریالی کے غازے اور شاندار ہوٹلوں، دوکانوں اور مکانوں کے زیورات سے سجا سنورا کیسا دلکش نظر آیا تھا۔ ساتھ ساتھ کچے راستے ماہی گیروں کی بستیوں کیطرف نکلتے تھے جن میں داخل ہو کر قدرت کا پُر ہیبت شاہکار سمندر نظر آتا تھا۔
میں سحر زدہ سی پیازی مائل ساحلی ریت پر چلتی گئی۔ دودھیا جھاگ اُڑاتی شوکریں مارتی لہریں اندر ہی اندر وٹیں بناتی کناروں پر آکر پانیوں میں تحلیل ہو جاتیں۔
تاحد نظر پھیلے ہوئے اس سبزی مائل سلسلے پر جھکے ہوئے نیلے آسمان میں بیٹھا ہوا کوئی کتنا زبردست ہے کہ جب تک اس کا جی چاہے ان مچلتی ،تڑپتی لہروں کو اپنی حد میں رہنے کے لیے نکیل ڈالے رکھے اور جب تماشا دیکھنے کا موڈ بنے تو ان کی رسی ڈھیلی کر دے۔
کون جانے کتنی صدیوں سے یہ اکھاڑ پچھاڑ کا کھیل جاری ہے۔صورت گری نے کیا کیا روپ آپنائے۔تیرہویں صدی کی آخری دہائی کا وہ اطالوی جہاں گرد مارکوپولو جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنوب مغرب کے اِن سمندروں میں پھرتے پھراتے ایک دن انہی ساحلوں کی طرف آنکلا تھا۔اپنی کتاب”Book Of Wonders”میں لکھتا ہے کہ وہ اور اس کے ساتھی تو گنگ کھڑے قدرت کے اِس شاہکار کو دیکھتے تھے۔
زمانہ آج کا ماڈرن ہو یا ماضی بعید کا انسان کے اندر ہمیشہ کائنات کے اسرار کھوجنے، اُسے تسخیر کرنے کے رحجانات رہے۔کشیتوں میں ہی چینی سیاح آئے،پھر یونانی آئے۔پہلے نے اِسے خزانوں کی زمین کہا دوسرے نے “لال یاقوتوں کے جزیرے “کا نام دیا۔ایسی ہی کسی منچلی قوم نے اِسے تمبا پانیTamba panniکا نام دیا۔اس کا مطلب اس کے ساحلوں کی تانبے رنگی مٹی سے تھا۔
” سراندیب جیسا” جیسا نام عربوں نے دیا،قریبی زمانوں کے سیاح کم،قبضے اور لوٹ مار کرنے والی بدنیت قومیں زیادہ تھیں۔یہ پرتگیزوں کو بھی بڑا بھایا تھا۔سیلووCeilao نام اُنکا تھا۔زیلن Zeilan خیر سے ڈچ قوم اور سیلون انگریزوں کے عطا کردہ تھے۔
1948میں اس کے اصلی باسیوں نے آزاد قوم بن کر 22 مئی 1972کو اِسے سری لنکا بنا دیا۔
ناموں میں کیا رکھا ہوتا ہے۔جو کہتے ہیں قطعی غلط ہے۔جنہوں نے اِسے نام دئیے۔ سوچ سمجھ کر اس کے اوصاف دیکھتے ہوئے دئیے اور بھئی کیا خوب دئیے۔جزیرہ تو واقعی ایسا ہی ہے۔
پُروا میں خنکی تھی۔ ماحول میں حُسن فطرت کا رس تھا اور میری آنکھیں عقیدتوں کے اظہار کے لیے بند تھیں۔ پھر جیسے آوازوں اور قہقہوں کے شور نے جگا دیا۔ چینی یا جاپانی جان پڑتے تھے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں۔ ہیلو ہائے ہوئی۔ سب جاپانی طالب علم تھے۔ لڑکیوں کے گال یوں جیسے کچی ملائی کے لیپ میں ڈوبے ہوئے۔ نازکی کا وہ حال کہ مانو پھونک مارو تو اُڑ جائیں۔ سب یار دوست جزیروں کے باسی ایک اور جزیرے میں موج میلہ کرنے آئے تھے۔ محبت بھری باتیں اور انداز سبھی من موہنے تھے۔
اب ناشتے کی طلب واپسی کے لیے بضد تھی۔ ماہی گیروں کے گھروں میں جانے اور عورتوں مردوں سے گپ شپ کرنے کا ارادہ پھر پر رکھتے ہوئے ہوٹل چلی آئی۔ برآمدے میں کرسی پر بیٹھی نک سُک سے تیار مہر النسا مجھ پر نظر پڑتے ہی جیسے غصے کے کھولتے کڑاہے میں کُود پڑی تھی۔
‘‘سویرے سویرے تمہاری مٹر گشت شروع ہو گئی ہے۔ یہاں بُھوک سے دم نکلا جا رہا ہے۔’’
میں نے جیسے کانوں میں کڑوا تیل ڈال لیا اور چپ چاپ چلتی بانسوں کے شیڈ کے نیچے جا کر بیٹھ گئی۔ بیرا رشتے دار نکلا یوں کہ باپ پاکستانی اور ماں سری لنکن تھی۔ ناشتے میں انناس کے دو قتلے، سلائس، جیم اور مکھن ملا۔ قہوہ کپ میں انڈیلا تو لگا جیسے پتی کا تو ٹچ ہی دیا گیا ہو۔
‘‘میاں ہم تو چائے کے گھر میں بیٹھے ہیں۔ بھاپ اُڑاتی خوشبوئیں بکھیرتی وہ چائے کدھر ہے جس کا ‘اے حمید ’ دیوانہ ہے اور جس کے تذکرے پڑھ پڑھ کر ہم بھی سری لنکا بھاگے چلے آئے ہیں۔’’
ڈٹ کر ناشتہ کیا گیا۔ نئی بنائی گئی چائے کے دو کپ پیئے۔ پھر چھاتے ہاتھوں میں پکڑے اور چل پڑے۔
سری لنکا کو اگر دنیا کے نقشے پر دیکھا جائے تو یہ کسی نازنین کے رُخسار پرگرے کسی خوبصورت آنسو کی صورت دکھائی دیتا ہے اور اگر اسکی صورت گری کا مشاہدہ اسکی ملکی سطح پر کیا جائے تو لگتا ہے جیسے یہ کسی ماہ جبین کے کان کا وہ بُندہ ہے جسے بنانے والے نے بہت مہارت اور محنت سے نچلی گولائی کے ساتھ ساتھ بالائی حصے کی باریکی کو ڈیزائن کرتے ہوئے تراشا ہو۔
نگمبو سری لنکا کے مغربی ساحل کا ایک حد درجہ خوبصورت، فشنگ ٹاؤن اور کاروباری مرکز ہے۔ ہلکی سی ایک جھلک نے ظاہری حُسن کو تو آشکارہ کر دیا تھا۔ پر ناک نقشے سے تفصیلی آشنائی ابھی باقی تھی۔
آسمان نیلگوں نیلاہٹوں کے ساتھ اس درجہ شفاف تھا کہ اسکی طرف دیکھتے ہوئے ایک پُر ہیبت سے اسرار کے رگوں میں دوڑنے کا احساس ہوتا تھا۔ دھوپ کی کیفیت کسی مٹیار کی نوخیز چیختی چنگھاڑتی جوانی کی طرح ہی تھی۔ یوں اسکے ساتھ ساتھ کبھی سراٹے مارتی، کبھی گدے ڈالتی اور کبھی لہریوں کی صورت ہوائیں بھی کسی نک چڑھی مٹیارن کیطرح جو اپنی حریفوں کو تالیاں بجاتے ہوئے ٹھینگے دکھاتی ہیں جیسی تھیں۔
چھاتے ضرور کھولے تھے پر بند کرنا پڑے کہ تیزبُلھے کی ایک ہی مار نے اُنکے حُلیے بگاڑنے کی پوری کوشش کی تھی۔ بیچارے لاہور جیسے شہر کی مست خرام ہواؤں کے عادی ایسی ماردھاڑ کو کب برداشت کرنے کے موڈ میں تھے۔
نگمبو کا سی سٹریٹ کا علاقہ Lewis palace کہلاتا ہے۔ اسکی تنگ سی سڑک پر تین میل تک چلتے رہے۔ عالیشان ہوٹل ، کیتھولک چرچ، ریسٹورنٹ، گھریلو دستکاریوں کی دُکانیں سرخ ڈھلوانی چھتوں والے پینٹ ہوئے گھر وں کے مناظر نظروں میں یوں نمایاں ہوئے تھے جیسے املتاس کے پھولوں کا رنگ ایکدم آنکھوں میں کھُب ساجاتا ہے۔ کہیں کسی کسی دوکان پر ہم نے تانکا جھانکی بھی کی۔
ساحلی علاقوں کی خاص سوغات ڈاب اپنے اندر توانائی کا خزانہ لیے ہوئے ہے۔ سُن رکھا تھا کہ اور پڑھا بھی تھا کہ تھکن بلاٹنگ پیپر کیطرح چوس لیتی ہے۔ اب ایسے میں دودو پینا تو ضروری ہو گیا تھا۔ کھوکھے والے کے کاٹنے کا انداز پاکستانی فلموں جیسا بڑھکیں مارنے والا ہر گز نہ تھا۔سچ مچ ہی بڑا جارحانہ تھاکہ گنڈاسے کے ایک ہی وار سے کھوپڑی اُڑا کر دس قدم دُور پھینکی تھی۔
اب صرف کچے ناریل کا پانی پینے پر ہی اکتفا نہ تھا۔ بلکہ قریب ہی سیمنٹ کی ایک تھڑی پر بیٹھ کر اسکا اندرونی گودا شہدوں کیطرح یوں کھرچ کھرچ کر کھایا کہ جیسے اسے کھا کر جوان ہی تو بن جانا ہو۔
‘‘چلو فشنگ ولیج چلا جائے ۔’’ میں نے کہا۔
یہ مچھیروں کی بستی جدھر سے ہم آئے تھے اُس طرف تھی۔ اب بس میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔ بس کیا تھی جیسے کینکا رڈ طیارہ ہو۔ تنگ سی سڑک پر گولی کی طرح بھاگی جاتی تھی۔ سٹیرنگ تو ظالم کے ہاتھوں میں جیسے کھلونا سا بنا ہوا تھا۔
پہلے میں نے سوچا کہ ایسے سر پھرے اور من چلے تو ہر جگہ ہی ہوتے ہیں۔یہ سانولا سلونا سا تحفہ بھی انہی میں سے ایک ہوگا۔پر نہیں جی بعد میں جب سری لنکا کے مختلف شہروں کی سڑکوں پر بس پیمائی کی تو عقدہ کھلا کہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔کوئی آدھ انچ بھی دوسرے سے کم نہیں ہاں زیادہ ہی ہوگا۔ایسے ویسے من موجی اور آپ پُھدرے سے پاکستانیوں کو بھی پیچھے چھوڑ بیٹھے تھے۔کمبختوں کا بس نہیں چلتا تھا کہ بسوں کو بگٹٹ بھگاتے بھگاتے سمندر میں ہی جا کر دم لیں۔
جہاں اُترے۔ وہیں سے کئی راستے مچھیروں کی بستیوں کیطرف نکلتے تھے۔ سرکیوں اور پلاسٹک کی چادروں سے بنے شیڈوں کے نیچے آبنوسی رنگتو ں والے مرد اور عورتوں کا ایک ٹولہ بات بات پر ٹھٹھے لگاتالمبے چوڑے جال کی ڈوریوں کو گانٹھنے میں لگا ہوا تھا۔ موٹی موٹی عورتوں کے گالوں کی اُبھری ہڈیوں پر اندرونی صحت مندی کی چمک کا ایک لشکارہ سا تھاجو فی الفور آنکھوں پر گرتا تھا۔ گداز ننگی پنڈلیاں اور سڈول ننگے بازو سامانِ وحشت نظر تھے۔
جب پاس بیٹھے تو پتہ چلا کہ مرد کیا یہ بظاہربھدّی بھدّی سی ناک والی عورتیں بھی ٹوٹوں میں انگریزی بول کر اپنا آپ ظاہر کر سکتی ہیں۔ بڑا کھلا ڈلا ماحول تھا۔ قہقہے اور چہلیں تھیں۔قریب رکھا ٹرانسنٹر زور شورسے بج رہا تھا۔ابھی موبائلوں والا عروج نہیں آیا تھا۔
شاید کوئی نیا گانا شروع ہوا تھا۔جیسے وہاں طوفان سا آگیا۔عورتیں چٹکیاں بجاتے ہوئے بولوں کو دہرانے لگیں۔بڑے مزے کا منظر تھا۔کچھ دیر بعد جب میں نے گیت کے بارے پوچھا تو پتہ چلا کہ محبت کرنے والا اپنی محبوبہ سے معافی مانگ رہا ہے۔اُسے آنسو پونچھنے کیلئے کہہ رہا ہے۔اُسے ترغیب دے رہا ہے کہ وہ اُسے اپنے ساتھ کہیں لے جائے ۔
میں ہنس پڑی۔
‘‘یہ تو اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے۔تمہارے ہاں کیا ایسا ہوتا ہے؟’’
عورتیں کھلکھلا کر ہنسیں۔بڑے ٹھسّے سے گالی نکالی اور مردوں کی ماں بہن ایک کردی کہ یہ ہوتے ہی کمینے ہیں۔یہ سب گانوں میں ہے۔عملی زندگی میں ایسا کہاں؟کیسی دھڑلے والی عورتیں تھیں ۔
مجھے اپنے وطن کے شمال کا ایک واقعہ یاد آیا تھا۔ شاہراہ ریشم کے ایک ضلع چلاس میں اپنے سیر سپاٹے کے دوران ایک گھر کے سامنے ایک بہت خوبصورت لڑکی کو دیکھا۔ خوبانی کے پیٹر تلے بیٹھی بابو سر ٹاپ اپنے گرمائی مستقر جانے کیلئے سامان پیک کررہی تھی۔باتیں ہونے لگیں۔بچوں کا پُوچھا ۔جواب تھا بچہ نہیں ہے بارہ سال ہوگئے ہیں۔شوہر کے رویے اور سلوک بابت بات کی کہ دوسری شادی کرنے کا تو نہیں کہتا۔میں تو حیران رہ گئی تھی اس کا جواب کیسا کرارا تھا کہ مانو جیسے میرے بوتھے پر کھّلا(جوتا) پڑے۔
‘‘ارے بچہ نہیں ہوا تو مولا کی مرضی۔بندے کا کیا قصور؟ہاں بھڑوا نیا بیاہ کرے گا تو میرے لئیے بندوں کی کیا تھوڑ۔’’
واہ کیا بات تھی۔یہ اعتماد ہم جیسی پڑھی لکھی عورتوں میں کہاں تھا؟میں نے اپنے آپ سے کہاتھا۔
‘‘ کتنا کما لیتے ہیں روزانہ؟’’
سوال پر ایک بڑا قہقہہ اور ہاتھ کا بڑا سا پھیلاؤ اُن جھونپڑیوں کی طرف ہوا جو ساحل کے ساتھ ساتھ تاحد نظر تک پھیلی تھیں ۔ موٹے موٹے سیاہ ہونٹوں پر ہنسی کے ساتھ ساتھ آنکھوں نے کہا۔
‘‘دیکھ لیجیے کتنی کمائی ہے۔’’
ذرا فاصلے پر مچھلی بیچتی اور عورتیں بھی دوکانداری چھوڑ کر شیڈ تلے آ گئیں۔ تھوڑی سی گپ شپ اُنکے ساتھ رہی۔رنڈی رونے تو ایک جیسے ہی تھے مہنگائی کے،عورتوں کا وہی پرانا پسندیدہ گلہ شکوہ۔
بچوں کی تعداد پوچھنے پر پتہ چلا کہ حکومت کی خاصی سختی کے باوجود بھی نمبر اکثر بڑھ ہی جاتا ہے۔ بڑی کمبختیں تھیں۔سیاہ مسوڑوں سے جھانکتے موتی جیسے دانتوں اور چمکدار آنکھوں سے چھلکتی معنی خیز مسکراہٹیں بہت سے فسانے سُناتی تھیں۔
تعلیم، یونیفارم اور کتابوں کی فراہمی سب حکومت کی ذمہ داری ہے۔ بچے کو ہر صورت سکول جانا ہے۔ حکومت کا حکم ہے ۔اس حکم کی پاسداری کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے؟جاننا چاہا اور جواب تھا۔ فائدے اور بھلے کی بات کیوں نہ مانیں۔
کہیں سینے میں “کاش” کی ہوک اُٹھی تھی۔ مجھے یاد آیا تھا حکومت نے ضلع چلاس اور اس کی تحصیلوں میں بچوں کے لیے ضروری سکول جانے اور وظائف کے اجرا ء کا اعلان کیا اور اس کی تکمیل کے لیے زور زبردستی بھی ہونے لگی ۔ایک دن ایک مقامی نوجوان لڑکا ہیڈ ماسٹر کے کمرے میں داخل ہوا اور بولا۔
‘‘ تم کو سکول لگانا ہے تو لگاؤ۔پر شام کو لگاؤ نا بابا۔یہ سویرے سویرے کا سلسلہ تو ہم کو مافق نہیں۔’’
ہیڈ ماسٹر نے رسان سے کہا۔
‘‘ سکول تو صبح ہی ہوتا ہے نا بیٹے۔’’
بیٹے کا بچہ لڑکا تلملا کر بولا۔
‘‘ہم سویرے کو ادھر سکول آئے گا تو اُدھر بکریاں تمہارا باپ چرائے گا۔’’
دیسی پیاز کی بیرونی پرت جیسے رنگ والی ریت پر کھڑی یہ بستی خوشحالی اور غریبی دونوں طبقوں کی عکاس تھی۔ غریب جھونپڑیوں میں کیا کھانے پکانے کی جگہ اور کیا سونے کی یہ دیڑ دیڑ ریت ہی ہر جا پردان تھی۔ ہاں البتہ پھولوں سے سجے آنگن اور پلاسٹک کی شیٹوں سے ڈھنپے فرش اور کمروں میں میز کرسیوں اور کھانے پینے کے برتن بھانڈوں اور جام چٹنیوں کے جار بتاتے تھے کہ یہاں مکین کھاتے پیتے بھی ہیں۔پر یہ کیسے لوگ تھے۔پھولوں، پودوں سے محبت کرنے والے موسیقی سے پیار کرنے والے کہ ہر جھونپڑی اور ہر گھر میں ٹرانسنٹر بجتا تھا اور گیت فضاؤں میں بکھرتے تھے۔پوری بستی میں ایک بھی جھونپڑی ایسی نہ تھی جہاں بوگن ویلیا کی بیلیں نہ ہوں۔شیشوں کی بوتلوں اور جاروں میں منی پلانٹ کی بیلیں نہ سجی ہوں۔
گھروں میں جھانکتے ،مردوں عورتوں سے باتیں کرتے، مچھلی کی بُو سونگھتے کتنا فاصلہ طے کر آئے تھے۔ پھر ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ کے سامنے پڑی آرام دہ کُرسیوں پر ڈھے گئے۔میرے سامنے لامحدود وسعتوں والا سمندر تھا۔ سانپ کیطرح بل کھا کھا کر چلنے والی ہواؤں کی خنکی اور مستی تھی۔ شوریدہ سر لہروں کا بہت دور سے وٹیں بنا بنا کر آگے تک بڑھنے اور پھر واپس لوٹ جانے کا ایک مسلسل عمل تھا۔
یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے میں صرف یہی سوچے چلے جا رہی تھی کہ اگر یہ لہریں کہیں غضب میں آ جائیں تو چٹائیوں، بانس، ناریل کے گھاس پھونس اور مٹی گارے سے بننے والی یہ جھونپڑیاں اور اُنکے مکین کتنی دیر مزاحمت کریں گے؟
‘‘تمبیلی پئیں گی؟’’ ریسٹورنٹ کے سولہ سترہ سالہ لڑکے نے پاس آکر پوچھا۔
‘‘تمبیلی؟ استفہامیہ انداز میں اُسے دیکھا گیا۔
اُس نے آنکھوں اور ہاتھوں کے اشارے سے میری پشت پر ناریل کے قد آور درختوں سے ٹپکتے گولڈن پھل کی طرف اشارہ کیا۔
‘‘اچھا تو یہاں یہ تمبیلی ہے۔ بنگلہ دیش میں ڈاب ہے۔’’
ہم سے تھوڑے فاصلے پر ایک جرمن فیملی کی عورت اور لڑکیاں چڈیوں اور ننھی مُنی سی براہ میں سمندر میں غوطے مارنے، ریت پر سستانے اور تمبیلی پینے میں جُتی ہوئی تھیں۔ نہ انہوں نے ہمیں منہ لگایا اور نہ ہی ہم نے چاہت میں اُچھل کود کی۔دور اُفق اور سمندر کو ملتے دیکھتے، ہواؤں کے جھُلاروں میں مستی سے بے خود ہوتے گھونٹ گھونٹ تمبیلی پیتے پیتے ‘‘گیارہ بجے ہیں’’ کا سن کر حیرت زدہ سے ہو گئے۔
‘‘لو نور پیرکے ویلے سے خجل خواری میں جُتے ہیں اور ابھی صرف گیارہ ہوئے ہیں۔ یہ اجنبی جگہوں پر سمے تو جیسے پیر ہی پسار لیتا ہے۔ سمٹنے میں ہی نہیں آتا۔
‘‘ہائے یہ تو ٹی ٹائم ہے۔اچھی سی چائے کا کپ۔یار بہت طلب ہورہی ہے۔چلو کہیں چلتے ہیں۔’’
خدا کا شکر ہی تھا کہ مہرانساء میری طرح اچھی چائے کی شوقین نہیں عادی تھی۔اب اِدھر اُدھر چھوٹے موٹے ریسٹورنٹ کی تلاش ہوئی۔پھر سوچا ہوٹل چلتے ہیں۔وہاں درختوں کے نیچے بیٹھ کر اچھی سی چائے کا لُطف اٹھائیں گے۔تھوڑا آرام بھی ہوجائے گا۔رکشے میں بیٹھے اور ہوٹل آگئے۔
چائے ،تھوڑا سا آرام اور پھر آوارہ گردی۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں