علیجاہ میگنیر ایک صحافی ، جو پچھلے چالیس سال سے مشرق وسطی کے معاملات پر لکھ رہے ہیں۔یہ آج کل بلیجیم کے شہر برسلزمیں رہائش پذیر ہیں۔
انہوں نے اپنی ایک تحریر کے زریعے انکشاف کیا کہ فلسطینی لیڈر کو اسرائیل نے اپنی جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی بدولت ہٹ کیا ہے۔
اسرائیل نے (ایک خیال اور ریسرچ کے مطابق) حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ کو واٹس ایپ پر ایک پیغام بھیجا۔ غالباً یہ ایسا لگتاتھا کہ واٹس ایپ کی طرف سے یہ میسج بھیجا گیا ہے۔ اس میسج میں ایک جدید ترین اسپائی ویئر انسٹال تھا جو میسج کھلتے ہی فوراً ایکٹیویٹ ہو جاتا ہے۔ اس سپائی ویر کی خوبی یہ ہے کہ یہ اُس موبائل کی ایکوریٹ لائیو لوکیشن بتا دیتا ہے، جس کی مدد سےڈرون جا کر اپنے نشانے پر میزائیل ہٹ کر دیتا ہے۔ اس سافٹ ویئر نے اسرائیلی انٹیلی جنس کو اپنے صحیح پوزیشن بتائی اوراسرائیل یا کسی نزدیکی جگہ سے ڈرون میزائیل کے ساتھ اُڑا اور جا کر اپنے ٹارگٹ کو ہٹ کیا جس وقت ہٹ کیا گیا اس وقت ہانیہ اپنےبیٹے کے ساتھ بات کر رہا تھا، یا ختم کر چکا تھا۔
سافٹ ویر انالسٹ کا خیال ہے کہ یہ اسپائی ویئر اسرائیل کی سائبر انٹیلی جنس فرم NSO گروپ کے اسرائیل سے تیار کردہ پیگاسس سافٹ ویئر سے ملتا جلتا ہے۔ پیگاسس اسمارٹ فونز میں گھس کر فون کا سارا ڈیٹا حاصل کر لیتا ہے۔ جن میں پیغامات،تصاویر اور مقام کے ڈیٹا تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے، حتی کہ فون یوزر کے علم کے بغیر فون کے کیمرہ اور مائیکروفون کو بھی کنٹرول کر سکتا ہے
اس اسپائی ویئر کا نام پیگاسس کے نام پر رکھا گیا ہے، جو یونانی افسانوں میں ایک پروں والے گھوڑے کا نام تھا۔ پیگاسس عام طورپر ٹیکسٹ میسجز پڑھنے، کال اسنوپنگ، پاس ورڈز جمع کرنے، لوکیشن ٹریکنگ، ٹارگٹ ڈیوائس کے مائیکروفون اور کیمرے تک رسائیاور ایپس سے معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ خیال رہے کہ ہندوستان نے بھی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل سے یہ سافٹ ویر حاصل کیا تھا۔
الجزیرہ کی بیس جولائی 2021 کی ایک رپورٹ کے مطابق ، اس وقت کے انفارمیشن منسٹر فواد چودھری کا کہنا تھا کہ اس وقت کےپرائم منسٹر عمران خان کا بھی اسی سافٹ ویر سے فون ہیک کیا گیا تھا۔
میٹا (واٹس ایپ) گروپ اور ایپل نے امریکہ میں ایک کیس فائل کیا ہوا ہے کہ اس سافٹ ویئر کمپنی کو روکا جاے کہ وہ کسی بھی قسم کا سپائی وائرس ان کے ہارڈ ویئر یا سافٹ ویر غیر قانونی طور پر انسٹال نہ کریں ۔ اس دونوں کیسیز کا کوئی فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا ہے۔
ہندوستان کی عدالت میں بھی ایک کیس درج ہے جس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اس سافٹ ویر کے ذریعے ہندوستانی ریاست اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی ، کیجروال اور دیگر لیڈروں کی جاسوسی کر رہئی ہے۔
اس قسم کی جدید ٹیکنالوجی کسی بھی انسان جس کے پاس موبائل فون ہو اس کی ریئل ٹائم نگرانی کر سکتی ہے اور اگر ضرور ت پڑے تو ڈرون کے ذریعے اپنے ٹارگٹ کو ایکوریٹ نشانہ بنا کر ہٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ ٹول کسی بھی انٹیلی جنس آپریشنز کے لیےایک بیش قیمت ایجاد ہے۔ اس اسپائی ویئر کا کامیاب استعمال آج کی دنیا کے تنازعات اور خاص کر دہشتگردی میں استعمال ہونےوالی سائبر جنگی حکمت عملیوں سے دہشتگردی کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آج کل کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے لیے اس طرح کے ڈیجیٹل ٹولز کیوں اتنے اہم ہو گئے ہیں ان ٹولز سے کسی بھی فرد کی انٹیلی جنس آسانی سے حاصل ہو جاتی ہے اور یہ ٹولز بغیر کسی بھی سیکورٹی فرد کے جانی نقصان کے ، دہشتگردوں پر ٹارگٹڈ حملوں کر سکتے ہیں۔ اور یہ ٹولز بہت تیزی سے اہمیت اختیار کر رہے ہیں۔
اسماعیل ہانیہ کا قتل اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ یہ ڈیجیٹل ٹولز دہشتگردوں کو بے اثر اور ختم کرنے میں کتنے کارآمد ہیں۔ اس قتل سے یہ بات بھی واضع ہوتی ہے کہ مستقبل میں ریاستیں اپنے مخالفین اور دہشتگردوں کو ختم کرنے میںکس حد تک جا سکتی ہیں۔مگر دوسری طرف یہ اندیشہ بھی ہے کہ اس قسم کے ٹولز ظالم ریاستوں کو اپنے سیاسی مخالفین کیجاسوسی کرنے اور ان کو ختم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ ان طاقتور نگرانی کے آلات سے ریاست جہاں ریاست کی حفاظتکر سکتی ہے تو دوسری جگہ اس سے غلط فائدہ بھی اُٹھا سکتی ہے۔ اس کا غلط استعمال اس سافٹ ویر کے بارے میں اہم خدشات کوجنم دیتا ہے۔
نادان جذباتی پاکستانیوں سے ایک سوال ہے کہ کیا آپ کسی بھی کھانے پینے کی پراڈکٹ کا بائکیاٹ کر کے اور اپنے ملک کو آگ لگاکر، آج کل کے جنوں کی ٹیکنالوجی سے مقابلہ کر سکتے ہیں؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں