دیکھیں بات یہ ہے کہ تاریخ ایک چٹیل میدان ہے جس کی مٹی کو ہمیشہ خون سے ہی نرم کیا گیا ، کبھی وہ خون اپنوں کا ہوتا تو کبھی بے گانوں کا ۔ الغرض تاریخ ہمیشہ ہی لہو کے قطروں سے لکھی گئی ہے ، لکھی جا رہی ہے اور لکھی جاتی رہے گی۔ ۔لیکن تاریخ اگر بار بار دہرائی جائے تو یہ بات قوم کے سوئے ہونے پر دلالت کرتی ہے اور ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ساتھ نیا بہت ہی کم ہوتا ہے ، جو بھی ہو رہا ہے ایک زمانے سے ہوتا آ رہا ہے اور اب بار بار دہرایا جاتا ہے چاہے پھر وہ جانوں کے قتل کی داستان ہو یا عقلوں پر پردہ ڈالے جانے کا معاملہ ۔
ہم بار بار ایک ہی پراسس سے گزرتے ہیں اور بالآخر کمین گاہ تک پہنچ جاتے ہیں پھر جب پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو جاتی ہے ، اور یوں ہی لوگ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ، ماضی قریب میں ایسے ہی بہت سے لوگ آئے اور گزر گئے لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ آگے کا لائحہ عمل کیا ہوگا ، یا یوں کہیے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟
اور یہ سوال تہران حادثے سے پہلے ہی بڑے حلقوں میں زور وشور کے ساتھ اُٹھ رہا تھا ، کیونکہ ترکیہ اور مقبوضہ فلسطین کی حکومت کے درمیان کچھ زبانی جنگ ہوئی تھی اور اس کے بعد سوال یہی تھا کہ اب کیا ہوگا ، لوگوں کی نظریں دونوں ملکوں کی وزارتوں کی طرف تھیں کہ ادھر تہران میں ایک سرپرائز ہو گیا۔ ۔جو یقیناً ایک بڑی جارحانہ تنظیم کیلئے بڑا دھچکہ ہے ، جس کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ اب اس تنظیم کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
کیونکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ تنظیموں کا جنگوں میں بڑا کردار رہا ہے ، اور اب یہ کردار مزید اہمیت کا حامل ہو گیا ہے جو یقینا ًاس حادثے کے بعد تنظیموں کو یہ سوچنے پر ضرور مجبور کرے گا کہ اب لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے ، جارحیت کی سیاست مزید جاری رہے گی یا مصلحتوں کو مقدم رکھا جائے گا اور مل بیٹھ کر بطورِ تنظیم سے زیادہ بطورِ امت کے کام کی طرف توجہ دی جائے گی۔
اسی طرح دیگر مسلم ممالک پر بھی بڑی ذمہ داری ہوگی کہ وہ پینترا بدلنے کی طرف توجہ دیتے ہیں یا تاریخ کی بے آب و گیاہ زمین کو ایک بار پھر اپنوں کے لہو سے سینچے جانے کا تماشا یونہی دیکھتے رہیں گے۔
چونکہ حادثہ تہران میں ہوا ہے اس لئے ایران کی انتظامیہ کی طرف بھی نظریں اٹھی رہیں گی کہ ایک بار پھر لبوں کے علاوہ دیگر اعضاء کو بھی ہلایا جائے گا یا پھر اس کیلئے پھر کوئی بہانا تراش کر پڑوسی مسلم ملک کو نشانے پر رکھا جائے گا اور فی الحال کیلئے مذمتی یا دھمکی آمیز بیان پر اکتفا کیا جائے گا۔
البتہ جہاں تک سعودیہ کا معاملہ ہے تو بڑی حیران کن بات ہے کہ کچھ دوست یونہی سعودیہ کو میدان میں کھینچنے پر تُلے ہوئے ہیں کہ:
“اگر یہ حادثہ سعودیہ میں ہوتا تو۔۔۔”
بھئی ، اگر یہ ہو جاتا تو فلاں قسم کے لوگ فلاں قسم کا کہرام مچا دیتے ، یہ کافی بچکانہ باتیں لگتی ہیں۔
اگر یہ پاکستان میں ہو جاتا تو پھر کیا ہوتا؟ ، ترکیہ میں ہوتا تو کیا ہوتا؟ ، امارات میں ہوتا تو کیا ہوتا؟ ، مصر میں ہوتا تو کیا ہوتا؟۔۔۔الخ!اس طرح کے توہمات تو خوب گڑھے جا سکتے ہیں لیکن شاید ہم ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ توہمات پر بھی پہاڑ کھڑے کریں ،ہمارے سامنے پہلے ہی بڑے بڑے پہاڑ ہیں پہلے ان کو سر کر لیں اس کے بعد اس طرف بھی آ جائیں گے۔
اور جس طرح ہم پاکستان کے بارے میں باوجود ایٹمی طاقت ہونے کے یہ نہیں سوچ رہے کہ ہمارا کوئی ردِ عمل ہوگا یا نہیں، اسی طرح دیگر ممالک کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیجیے ، کیونکہ حکومتوں کے فیصلے حکومتیں ہی کریں تو بہتر ہے۔
اس لئے فی الحال فتوے بازی سے دامن بچائیے ، خاموشی سے دیکھیے کہ اونٹ کس طرف بیٹھتا ہے ، آپ اور میں اس مقام پر نہیں کہ ان سارے معاملات میں عملی طور پر کوئی حصہ ڈال سکیں اس لئے دعاؤں اور التجاؤں کا سہارا لیجئے ، اس امت کیلئے ، امت کے حکمرانوں کیلئے ، اسلام اور مسلمانوں کیلئے خوب دعائیں کیجیے۔رب رحیم سے بہتر سے بہترین کا سوال کیجیے ، ہم حقائق سے کوسوں دور ہو سکتے ہیں لیکن وہ علوم الغیوب ہے ، ما کان اور وما یکون کا جاننے والا ہے ، اس سے بہترین مانگیے ، اور اس سے اس کا حکم مانگیے ، اس کا انتخاب مانگیے یقینا وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔۔۔۔اور ایک دعا کو خوب کثرت سے پڑھئے اس سے بہت سی گتھیاں سلجھ جاتی ہیں:
“اللھم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابہ!
مولاء کریم! حق کی حقانیت واضح کر کے اس کی پیروی کی ہمت دے اور باطل کا بطلان عیاں فرما کر اس سے بچنے کا حوصلہ عطا فرما!”
pc;Theatlantic
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں