قصہ میرے اغواء کا(1)-عارف خٹک

جون 20، سال 2008 تھا۔ میں کابل سے براستہ طورخم پشاور کی طرف رواں دواں تھا۔ میں  نے اس وقت خاکی پتلون اور جیبوں والی جیکٹ پہنی ہوئی تھی، جیسے ہی طورخم بارڈر پہنچا۔ اس زمانے میں سرحد پر باڑ نہیں لگی تھی اس لئے خصوصی افراد کو طورخم کے بیچ قائم ایک برساتی نالے پر بنے  پُل پر  امریکی چیک پوسٹ تک رسائی حاصل تھی۔ میں جیسے ہی اس چیک پوسٹ پر پہنچا تو ایک نیگرو امریکی نے ٹھیٹ پشتو میں خبردار کیا۔

“پہ قلارہ پہ قلارہ ایکسیڈنٹ او نکے”۔ مطلب آرام سے کہیں اپنا ایکسیڈنٹ نہ کروا بیٹھنا۔
میں حیر ت سے اس نیگرو کو دیکھ کر مسکرایا۔ جوابا ًوہ بھی مسکرایا۔ میں فوراً گاڑی سے اترا اس سے ہاتھ ملایا۔ اس نے دائیں ہاتھ میں دبی ہوئی نسوار کی پڑیا بائیں ہاتھ منتقل کی۔ میرا قہقہہ چھوٹ گیا۔ جوابا ًوہ ہنسا۔ ہم دونوں بات چیت کرنے لگے۔ ازراہ مذاق اس نے پوچھا۔
” نسوار کھاؤ گے یا چرس؟”۔
میرا قہقہہ ایک دفعہ پھر بلند ہوا۔ میں نے گلے میں لٹکا ہوا کیمرہ نکالا۔ ساتھی ڈرائیور کو دیا کہ ایک تصویر ہوجائے۔
یاد رہے یہ ساری کاروائی سرحد پار کھڑے خصہ دار، ایف سی  اہلکار اور ٹیکسی ڈرائیور دیکھ رہے تھے۔
سرحد جیسے ہی پار کی۔ ایف سی والوں نے بیگ کھولا اور میرا شجرہ نسب پوچھا۔ پاسپورٹ دکھایا۔ یاد رہے اس زمانے میں بغیر ویزہ کے آنے جانے کا کوئی اتنا خاص تکلف نہیں تھا۔ ہم جیسے لوگ جن کا انشورنس ہوتا تھا ان کیلئے ویزہ ضروری ہوتا تھا۔ اس ساری کاروائی کے دوران ایف سی کے پاس ایک سادہ لباس اہلکار کھڑا مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔ شکل سے وہ مقامی نہیں لگ رہا تھا اس لئے میں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ تلاشی اور پاسپورٹ کے عمل سے فارغ ہوکر میں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور کیساتھ پشاور تک آؤ  باؤ  کیا بالآخر کرائے پر ہم راضی ہوئے۔ ڈرائیوروں کی بھیڑ بھاڑ سے بچتے ہوئے میں اپنی ٹیکسی میں بیٹھ کر سکون کی سانس لینے لگا۔ میوزک کیلئے جیسے ہی ڈیش بورڈ کی طرف نگاہ گئی۔ تو میرا ڈرائیور میری نیت سمجھ گیا۔ میرے پوچھنے سے پہلے مجھے آگاہ کیا۔
“اوپر لنڈیکوتل سے کارخانو مارکیٹ پشاور تک مقامی طالبان کی اجارہ دری ہے اس لئے میوزک پر پابندی ہے”۔

اس زمانے میں زیادہ تر مقامی طالبان جو تحریک طالبان کا حصہ نہیں بنے تھے۔ لنڈیکوتل سے لیکر پورے خیبر ایجنسی پر ان کی مکمل عملداری تھی۔ یہ وہ گروہ تھا جو مفتی منیر شاکر کی مدعیت میں وادی تیراہ کے لشکر الاسلام کے جھنڈے تلے حنفی بریلوی گروہ آخوندزادہ کیساتھ برسرپیکار تھے۔ لشکر اسلام والے کٹر دیوبندی فرقے سے تھے، مفتی منیر شاکر کٹر دیوبندی نظریات کا حامل تھا۔ جنہوں نے افیون کی کاشت کو شرعی قرار دیا تھا، حنفی بریلویوں کا شدید دشمن تھا۔ سینکڑوں لوگ اس جنگ میں کام آئے۔ بالآخر فتح مفتی شاکر کی  ہوئی۔ جن میں بعد میں کافی سارے طالبان رہنماؤں کا ظہور ہوا۔ مگر سب سے بڑی شخصیت منگل باغ کی ابھری جو باڑہ بس کا ایک کنڈیکٹر تھا اور عوامی نیشنل پارٹی کا سپورٹر تھا۔ بعد  میں حیرت انگیز طور پر  انھوں نے ایک اَن دیکھی طاقت حاصل کی اور منگل باغ سے پشاور کینٹ کی  مسیحی اقلیت تک بھی محفوظ نہیں رہی۔ اس زمانے میں پشاور کے گلوکاروں نے گانا بجانا مکمل چھوڑ دیا تھا۔ وہ جس کو چاہتا پشاور صدر سے دن دیہاڑے اٹھا لیتا تھا حالانکہ پشاور صدر کا پورا علاقہ آرمی کنٹونمنٹ بورڈ کا حصہ ہے۔

julia rana solicitors london

جاری ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply