کنیڈا دا پھیرا(2)-سلمان خالد

گزشتہ   شب قدرے مہنگے داموں بُک کیا گیا “کورٹ یارڈ بائے میریاٹ ہوٹل” قریباً فارغ ہی نکلا۔ صفائی کا معیار کچھ خاص نہیں تھا، شاور ایریا، فرشی ٹائلز اور ٹب عمارت کی تزئین و مرمت بارے غیر تسلی بخش صورت حال کی گواہی دے رہے تھے۔ ناشتہ چوں کہ شاملِ بکنگ نہیں تھا تو گیارہ بجے کے چیک آؤٹ ٹائم سے ایک گھنٹہ قبل یعنی دس بجے تک بستر میں کروٹیں بدلنے کو ترجیح دی گئی اور گرم پانی سے تھکان کُش شاور لینے اور آرام دہ ٹراؤزر و ہوڈی زیبِ تن کرتے ہوئے بچوں کی مدد سے ہوٹل کمرے سے ایس یو وی میں سامان وغیرہ ری لوڈ کیا اور پارکنگ سے نکلنے سے قبل فیملی سمیت حلوہ پوری اور پراٹھوں چنوں وغیرہ کی گوگل سرچ شروع کر دی۔ میری فیورٹ مددگار حلال کھابوں، مساجد وغیرہ تلاش کرنے والی ایپ Zabiha Halal کچھ عرصہ قبل ایپل نے اپنے ایپ سٹور سے ہٹا دی تھی تو آ جا کر گوگل، Yelp سرچ یا ٹِک ٹاک و انسٹا گرام فوڈ ولاگر انفلوئنسر کی ریکمنڈیشنز پہ مغز ماری کی، مگر کوئی سمجھ نہ آئی۔ اہلیہ نے بچوں سے اُن کی چوائس پوچھی تو دختر امیمہ کے پسندیدہ امریکی ریستوران iHop کے نام قرعہ نکلا، جو ہوٹل کے قرب میں ہی واقع ڈالسن ایوینیو پہ واقع تھا۔

پارکنگ لاٹ سے عوام دیکھ کر تھوڑا آئیڈیا ہو گیا تھا کہ یہ ہسپانوی اکثریتی آبادی ہے۔ داخلی دروازے کھڑے استقبالیہ پر مینجر نے خوش آمدید کہہ کر دس منٹ انتظار کا وقت مانگا۔ باری آنے پر مسکراہٹ سجائے خاتون سرور کی معیت میں پانچ نشستوں والے کارنر کیبن میں نشست افروزی ہوئی اور مینیو کارڈز میں سے سبزیوں، انڈے اور مچھلی والے آئٹمز کی کانٹ چھانٹ کے بعد اُسے آرڈر دے دیا گیا۔ ننھا عمر ریستوران کے کِڈز مینیو کے ساتھ فراہم کردہ crayons سے ڈرائنگ پیپر میں رنگ بھرنے میں مصروف ہو گیا۔ Ada نامی ہسپانوی نژاد خاتون سرور نے آتے جاتے ہماری میز پر متعدد بار کافی، کریمرز، پانی اور سافٹ ڈرنکس وغیرہ ری فِل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ آئی ہاپ کی نیم کڑوی ہاؤس بلینڈ کافی زبان و دہن سے حلق میں اترتے ہی جسم و روح میں فرحت بخش اور تھکان کُش اثر رکھتی ہے اور میری فیورٹ ہے۔ ناشتے میں Pablano Omelette میں تیز ہالا پینئو اور سرینو مرچ، پگھلتی چیڈر پنیر، تتّے تَوے پہ ہلکے تیل میں روسٹ شدہ مشروم، پیاز، بونے (چیری) ٹماٹر، رنگ برنگی شملہ مرچ کے ساتھ Avocado لپیٹ کر جب سامنے آیا تو اشتہائے بھوک نے بذریعہ دھواں طبیعت کو ایک دم فریش کر دیا۔ پھر دو عدد خستہ ٹوسٹ کے ہم راہ دو فرائی انڈے بھی میز پہ دھرے گئے۔ انناس، سٹرابیری، بلیو ببری، خربوزے اور تربوز کی چند قاشیں علیحدہ کٹوری میں پیش کی گئیں۔ امیمہ نے امریکی طرز کے Pancakes، Waffles کے اوپر کریم اور چاکلیٹ جب کہ عبداللّٰہ نے پچیس کلو کیچپ کے ساتھ فرنچ فرائز، ہیش براؤن (آلو کے قتلوں کی ٹِکّی سمجھ لیجئے) اور گرما گرم بھاپ اُڑاتے میدے کے بنے بسکٹس نوشِ جاں کیے۔ ننھے عمر نے محض آلوؤں کے فرنچ فرائز پہ اکتفا کیا۔ Ada نامی سرور بار بار نیپکنز، کٹلری سمیت کافی و پانی کے ری فِل کرتی چلی جا رہی تھی، حتیٰ کہ سب نے سیر ہو کر ناشتہ کر لیا۔ میں نے بِل لانے کا کہا تو واپسی پر آئی ہاپ کی سگنیچر کافی دو عدد ڈسپوزیبل کپ میں ساتھ لے آئی۔ سچ پوچھیے تو میری طرف سے اُس نے گویا معیاری سروس کا میدان مار لیا تھا۔ کہنے لگی یقیناً آپ سفر میں ہیں تو اِن cups میں کافی دیر تک گرم رہے گی۔ میں نے فوری طور پر ایک بڑا ہرا نوٹ اضافی ٹِپ کے طور پر بِل کے ساتھ مع کریڈٹ کارڈ لَف کیا مگر وہ موبائیل مشین میز پر ہی لے آئی۔ اب میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا کہ میں اُس کی بہترین ٹاپ نَاچ سروس کا جواب نہ دیتا۔ چنانچہ میں نشست سے اٹھا اور ریستوران مینجر کے پاس جا کر اُسے Ada کو بلوانے کی درخواست کی، وہ بےچارہ سمجھا کہ شاید کوئی کمپلینٹ وغیرہ ہو گی تو اُس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، مگر میں نے اُسے ریلیکس کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی اِس میزبان نے آؤ بھگت میں نہایت پروفیشنلزم کا مظاہرہ کیا ہے ہو سکے تو اِسے ترقی دیں اور مسکراتے ہوئے اضافی فقرہ اچھالا کہ “ہو سکے تو اِس کی تنخواہ میں بھی اضافہ کر دیں”۔ مینجر اور Ada دونوں کھکھلا کر ہنس پڑے اور خاتون مینجر کو “ایہہ کم تے چھیتی کریں پراواء !” کہہ کر آگے دوبارہ کسی اور میز کی جانب بڑھ گئی۔
مجھے اچھا بھی لگتا ہے کہ جب کوئی آپ کو اچھی سروس دے تو اُسے appreciate کیا جائے اور سچ بتاؤں تو اندرو اندری بُرا بھی لگتا ہے جب گھٹیا سروس دینے پہ کسی کھچ کی بینڈ بجانی پڑ جائے۔ شاید میرے نزدیکی حلقہ احباب میرے جزا وار رویے کی تائید اور سزا وار برتاؤ کی مخالفت کرتے ہوں، مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ جب میں گھر سے باہر کسی بھی leisure یا pleasure ایکٹویٹی کے لیے جاتا ہوں تو اُس کا مقصد ایک اچھا ٹائم پاس ہوتا ہے۔ ایسا شاذ ہی ہوا مگر جب کسی نے میرے ہی خرچے پر میرے Good Time کی “پیپنی” بجانے کی کوشش کی تو میں نے اُسے آسانی سے جانے نہیں دیا۔ اِن مواقع پہ میری فیملی کو بھی علم ہوتا ہے کہ یہ اب “جَٹ جَٹکے ماڈ” میں چلا گیا ہے سو اب سامنے والے کی خیر نہیں، بالخصوص کسی بھی قسم کے تمسخرانہ یا نسل پرست رویے پر تو عاجز نے تمیز و شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے نا  صرف امریکہ بلکہ جنم بھومی میں بھی ہرجانہ وصول کیا ہے۔ بخدا یہ کوئی بڑھک یا خودنمائی نہیں بلکہ نہایت عاجزی سےعرض کر رہا ہوں کہ کبھی کبھار کہیں نہ کہیں میں اپنے بچوں کے سامنے ایسا ضرور کرتا ہوں۔ مقصد انہیں یہ نکتہ سمجھانا ہوتا ہے کہ جب تُم سمجھو تُم حق پر ہو توخود کے لیے آواز اُٹھاؤ؛ اور جب کوئی تمہارے ساتھ اچھی طرح پیش آئے تو اُس کی عزت و توقیر کو کئی گنا بڑھا کر لوٹاؤ کہ یہ دونوں رویے اسباقِ زندگی کے لازم و ملزوم ابواب ہیں۔

ریستوران سے باہر نکلتے ہی ملحقہ روڈ پر گیس سٹیشن سے ایندھن ٹینک فُل کیا اور کنیڈے کی جانب سفر شروع ہو گیا۔ ملحقہ برانچ روڈ نیٹ ورک سے ہائی وے 17 کو جوائن کرنے کی دیری تھی کہ اچانک ساؤنڈ کلاؤڈ ایپ پر دماغ کے عقبی حصے سے البانوی نژاد برطانوی گلوکارہ “دعا لیپا” کی دھنیں اچھل کود کر سامنے آ گئیں۔ مزید کمی موسم کے سہانے پن میں برکھا کی چھماچھم برستی بوندا باری اور رہی سہی کسر سُحابی دھند کی اوٹ سے نگاہوں میں کھُبتے قدرت کے شان دار پربت و کوہ ساروں سے ملاقات نے پوری کر دی۔ بخدا اپنی چوتھی محبت ریاست مونٹینا سے ملحقہ آئیڈاہو کے اُن لمحوں کی یاد دوبارہ تازہ ہو گئی جب 2016 میں مَیں نے بلند و بالا پُل کنارے ایس یو وی روک کر نیچے گزرتے بادلوں کو پہلی مرتبہ آنکھوں کے رَستے روح کی گہرائیوں میں محفوظ کر لیا تھا۔ ایسے خوب صورت، نشاط آفریں اور برودت آمیز نظاروں کی لطافت میں سامنے آتے امریکی روڈ سسٹم کے طویل شاہراتی پیچ و خم نے چار چاند لگا دئیے۔ کینیڈا کے مقابلے میں امریکی شاہراہیں عموماً ہر آٹھ دس میل کے بعد ڈرائیور کو مستعد و چوکنا رکھنے کے پیشِ نظر یوں ڈیزائین کی گئی ہیں کہ اگلے دو سے تین میل Curve (خمیدہ پن) کی صورت لیے ہوں گے۔ جب کہ کینیڈا میں مجھے بارڈر کراس کرتے ہی کوئی پچاس ساٹھ میل کی سیدھی روڈز پہ سفر کرنے کا تجرِبہ رہا جو مجھے امریکہ شاہراتی آرکیٹیکٹ سے بہ نسبت کم درجہ لگیں مگر یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کیوں کہ ایسی روڈز پہ اکثر لمبی ڈرائیو کے بعد خمارِ نیند میں حادثوں کا خطرہ بہرطور موجود رہتا ہے۔ انہی سوچوں کے مابین اچانک باہیں پھیلائی کُھلی وادی نے استقبال کیا تو بلند چوٹیوں پہ نصب قطار اندر قطار بادبانی چکیاں (Windmills) کا شان دار منظر دیکھنے کو ملا، گویا لائل پوری زبان میں “پیہے” (پیسے) پورے ہو گئے۔

ہولے ہولے امریکہ و کینیڈا میں واقع دنیا کی چار بڑی جھیلوں یعنی Lake Erie, Lake Michigan, Lake Huron اور Lake superior کی دھنوں سے یکجا شدہ شوریدہ سَر ‘نیاگرا فالز’ کا بارڈر نزدیک آتا جا رہا تھا۔ 2018 میں دنیائے آب شار میں ایک منفرد نام نیاگرا فالز کی امریکی طرف آ چکا ہوں اور ویسے بھی پچپن میں “پائین کلارک کینٹ” عرف سُپر مین کو کنیڈے والی سائیڈ سے ایک نیانے کی جان بچاتے بھی دیکھ رکھا ہے سو اِس مرتبہ میرا ارادہ بھی اس آب شاری نظارے کو کینیڈا سائیڈ سے دیکھنے کا تھا (جس کا تذکرہ و تفصیل آئندہ اقساط میں آئے گا)۔ ایس یو وی میں بیٹھے بیٹھے امریکی و کینیڈا بارڈر کراسنگ کرنا بھی ایک الگ تجرِبہ ہے۔ کنیڈے آلے امیگریشن افسر و افسرنیاں کھنڈ مِشری جیسے بول اور مِٹّھے و رَس مِسے لہجے سے آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ اگلی گاڑی گزرنے کے بعد جب خاتون بارڈر سکیورٹی آفیسر نے کیبن سے ہاتھ نکال کر آگے آنے کا اشارہ کیا تو میں نے ایس یو وی کے چاروں شیشے نیچے گراتے ہوئے تمام فیملی ممبران کے پاسپورٹ کارڈز اُس کی جانب بڑھا دئیے۔

نمانی نے مسکراتے ہوئے پوچھا: کنیڈا کیا کرنے جا رہے ہو؟

کہا: چار جولائی کی چھٹیاں ہیں تو سوچا کچھ کھابے شابے کھائے جائیں اور سیر سپاٹا اور ایک فیملی سے ملاقات

پوچھا: رہو گے کہاں؟
کہا: ہوٹل بُک کرنا ہے مگر ابھی نہیں کیا، بس آپ جناب کی اجازت مل جائے تو بارڈر کراس کرتے ہی بکنگ ڈن کرتا ہوں۔
مسکرا کر بولی: آ جاؤ فیر کنیڈے۔۔۔ویلکم۔
کہا: شکریہ!

اہلیہ جو یہ سب منظر دیکھ رہی تھیں، بولیں: ہو گیا آپ کا؟
اچانک چونک کر پوچھا: کیا ہو گیا؟
بولیں: باجی سے سوال و جواب کا سیشن۔۔۔۔ ختم ہو گیا آپ کا؟
پوچھا: کیا مطلب ہے آپ کا؟
بولیں: نہیں نہیں! بس آپ کانوں تک کھِلی باچھوں کو اب واپس لے آئیے اور نارمل ہو کر گاڑی آگے بڑھائیے۔۔۔۔پلیززز!!

Advertisements
julia rana solicitors

خفت مٹانے کو گاڑی آگے بڑھانے کو ایکسیلریٹر پر پاؤں دیا تو گئیر لگانا بھول گیا،نتیجتاً انجن نے خالی خولی غراتے ہوئے خجالت میں مزید اضافہ کر دیا۔ قرین قیاس ہے کہ ایک مرد کی ایسی بےبسی پر باہر اور اندر بیٹھی دونوں خواتین یقیناً چیزہ لے رہی ہوں گی مگر شاید وہ دونوں ہی نہیں جانتیں۔۔۔
ایسا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply