تاریخ؛
کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے ہم پر سو سال حکومت کی، اس عرصے میں تین نسلیں پروان چڑھ جاتی ہیں۔ جہاں انگریز نے یہاں کی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے وہیں وہ اس خطے کو بہت کچھ دے کر بھی گیا۔ بلوچستان میں کہیں بھی ریل کا سفر کر کے دیکھ لیں آپ خود سمجھ جائیں گے کہ یہاں ریلوے ٹریک بچھانا کتنا مشکل ہے اور یہ کام گورے 1887 میں مکمل کر گئے۔ اس راستے پر مختلف پہاڑوں کو کاٹنا، پُل بنانا، بغیر پانی کے بیابانوں میں کام کرنا ایک جان جوکھوں کا کام ہے جس میں یقیناً آدھی سے زیادہ محنت ہندوستانی مزدوروں کی ہے جو قابل تحسین ہے۔
انگریز سرکار نے موجودہ بلوچستان کے علاقوں میں جتنے بھی ریلوے ٹریک بچھائے وہ سب اسٹریٹجک نوعیت کے تھے۔ یہ لائنیں خالصتاً فوجی مقاصد کے لیے بنائی گئی تھیں جو آج عوام الناس کو بھی فائدہ پہنچا رہی ہیں۔
کوئٹہ چمن لائن سمیت ٹرانس بلوچستان، کوئٹہ زاہدان ریلوے بھی ایک اسٹریٹجک فوجی روٹ کے حصے کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ 1857 میں ولیم اینڈریو (چیئرمین سندھ، پنجاب اور دہلی ریلوے) ایک وفد کے ساتھ برطانوی وزیر اعظم لارڈ پامرسٹن سے ملا اور بولان پاس سے ایک ریلوے لائن تعمیر کرنے کا خیال پیش کیا۔ لیکن تب اس پر زیادہ توجہ نا دی گئی۔ شاید اس وقت دفاعی نقطہ نظر پیشِ نظر نا تھا۔
اٹھارویں صدی کے اختتامی دور کی بات ہے جب دور اندیش برطانیہ سرکار کو برفانی ریچھ روس سے خطرہ محسوس ہوا کے وہ گرم پانیوں کی تلاش میں افغانستان کے راستے ہندوستان پر حملہ کرے گا، یوں اس کی حکمرانی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ہندوستان پہ قابض برطانوی حکومت نے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر کرنے اور وہاں اناج و سامان رسد پہنچانے کا بندوبست شروع کر دیا۔
اب بلوچستان جیسے علاقے میں افغان سرحد پر سامان کی ترسیل کوئی خالہ جی کا گھر تھوڑی تھا کہ سوچا اور ہو گیا۔ اس کے لیئے سب سے اہم ذریعہ ریل تھی، سو انگریز سرکار نے افغانستان کے شہر قندھار تک ریلوے لائن بچھانے کی منصوبہ بندی شروع کر دی جسے ”قندھار سٹیٹ ریلوے” کا نام دیا گیا۔
اس مقصد کے لیے دو راستے تجویز کیے گئے تھے، ایک درہ بولان کے ذریعے کوئٹہ تک اور دوسرا سبی اور ہرنائی سے کوئٹہ۔ چونکہ ہرنائی کے راستے کو براڈ گیج جبکہ بولان کو تنگ گیج کے لیئے موزوں مانا جاتا تھا سو پہلے تو سبی سے براستہ ہرنائی، کوئٹہ تک ٹریک بچھایا گیا جو موسمی حالات کی وجہ سے دیرپا ثابت نا ہوا تو بولان کے ذریعے کوئٹہ کو تسخیرکرنے کا منصوبہ زیرِ غور آیا۔
1879 میں وائسرائے ہند کی منظوری کے بعد زمین کی خرید شروع کی گئی۔ اس وقت بلوچستان ایک علیحدہ صوبہ نہیں تھا بلکہ یہاں مختلف ریاستیں ہوا کرتی تھیں۔
بیشتر ٹریک ریاست قلات سے گزرنا تھا سو خان آف قلات سے ایک اقرار نامہ لکھوایا گیا۔ چونکہ 14 مئی 1854 کو مستونگ میں ہوئے ایک معاہدے کے تحت انگلشیہ سرکار نے خان آف قلات کو ایک آزاد حکمران کے طور پر تسلیم کر لیا تھا نیز قلات کی ریاست کے جنوب سے لس بیلہ اور بحیرہ عرب تک بھی خان آف قلات کی اتھارٹی تسلیم کی گئی تھی سو یہ کام آسانی سے ہو گیا۔
خان قلات سے ٹریک بچھانے سمیت اسٹیشنوں کے لیے ارضی حاصل ہو چکی تو
لارڈ لٹن کے حکم پر سر رچرڈ ٹمپل نے اس علاقے کا دورہ کیا اور 1879ء میں رُک تا سِبی لائن بچھانے کا کام شروع کرنے کا حکم دیا۔
جیکب آباد سے سبی کی طرف کئی مزدوروں کی محنت سے 134 میل لمبی ریلوے لائن بچھائی گئی اور جنوری 1880ء کو اہلیانِ سبی نے نارتھ ویسٹرن ریلوے کے اسٹیم انجن کو بھاپ اڑاتے سِبی میں داخل ہوتے دیکھا۔
سِبی سے چھپر گھاٹی؛ 1880 کی دہائی کے اوائل میں درہ بولان کے شدید اتار چڑہاؤ کی وجہ سے انجینیرز نے ریلوے لائن کو سبی سے ناری گھاٹی تک، خفیہ طور پہ ”ہرنائی روڈ امپروومنٹ سکیم” کے نام سے بچھایا اور ڈرامائی انداز میں اسے شمال کی طرف چھپر گھاٹی (جو اب ضلع زیارت میں واقع ہے) سے کوئٹہ تک لے گئے۔ قندھار تک لے جانے کا ارادہ موقوف کرتے ہوئے اسے ”سندھ – پشین اسٹیٹ ریلوے” کا نام دیا گیا۔ یہ لائن سبی سے ہرنائی، شاہرگ، کھوسٹ، زردالو، خنائی، بوستان اور کچلاک کئی پلوں کو عبور کرتے ہوئے کوئٹہ پہنچاتی تھی۔ اس علاقے میں ہونے والی مُسلسل ارضیاتی تبدیلیوں نے حکام کو ایک نئے راستے سے دوسری لائن بچھانے پر مجبور کر دیا۔ لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب نے اس راستے کو تب بھی متاثر کیا تھا
جب اسے بنایا جا رہا تھا، اب اس کے لیے متبادل لائن کی ضرورت تھی اور یہ صرف درہ بولان کے ذریعے ہی ممکن نظر آتا تھا۔
مشہور سیاح اور لکھاری جناب سلمان راشد ڈان میں چھپے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ؛
”اصل میں، سبی سے لائن مغرب کی طرف جھول کر رند علی گاؤں تک پہنچتی تھی (اس دور کے برطانوی نقشوں پر رِندلی)۔ یہاں یہ کنڈلانی گھاٹی سے ہو کر ہِرک تک جاتی تھی۔
جیسے ہی 1885 میں موسم گرما شروع ہوا، لائن ایک انچ آگے بڑھنے لگی۔ شدید گرم ہوا کے جھونکوں میں مزدوروں نے کام کیا اور شومئی قسمت کہ تعمیراتی کیمپوں میں ہیضہ پھوٹ پڑا جس کے نتیجے میں کئی سو مزدور ہلاک ہو گئے۔ اسی سال نومبر کے وسط تک، یہ لائن سمندر سے 1,400 میٹر کی بلندی پر ہِرک پہنچ گئی۔ اب ایک اور مشکل پیش آئی۔ دوزان گھاٹی کے ذریعے ہِرک اور کولپور کے درمیان 12 کلومیٹر کے فاصلے کے اندر اونچائی ڈرامائی طور پر بڑھ کر 1,790 میٹر تک پہنچ گئی۔ اتنے کم فاصلے کے اندر 390 میٹر کی یہ اونچائی اتنی شدید تھی کہ اس وقت کا سب سے طاقتور انجن بھی کسی ٹرین کو نہیں لے جا سکتا تھا۔
ایک منصوبہ جو زیرِ غور آیا، یہ تھا کہ ہِرک اور کولپور کے درمیان ایک چھوٹی میٹر گیج (تین فٹ اور تین انچ چوڑی) لائن ڈالی جائے۔ کولپور سے کوئٹہ جانے والی لائن کو پھر سے براڈ گیج ہونا تھا لیکن اس میں بھی کئی جھول تھے، خیر سبی سے دوزان تک اعلیٰ سطح براڈ گیج لائن بچھانے کے منصوبے بنائے گئے۔
1888 میں اس لائن پر نئے پُلوں اور سرنگوں پر کام شروع ہوا لیکن دو سال بعد ایک بہت بڑا سیلاب پل، گرڈرسمیت سب بہا لے گیا۔ یہ راستہ بھی چھپڑ گھاٹی والے راستے کا بھائی ثابت ہوا۔ اب ایک اور متبادل کی ضرورت تھی. یہ لائن اب کسی قدر اونچی وادی مشکاف کے ذریعے بنائی جانی تھی جو سبی اور ہڑک کے درمیان واقع ہے۔”
درہ بولان؛
مشکاف سے آگے چونکہ بولان کا پہاڑی علاقہ شروع ہو جاتا ہے جہاں راستہ نکالنا مشکل تھا۔ قابل انجینئرز کی زیر نگرانی ان پہاڑوں میں کم و بیش بیس سرنگیں بنائی گئیں اور ریلوے ٹریک کو گزارا گیا۔ بولان سمیت دیگر دریاؤں اور ندیوں پر پُل تعمیر کیئے گئے اور سخت موسمی حالات کے بعد یہ لائن 1887ء میں کوئٹہ پہنچ گئی۔
جب درہ بولان سے گزرنے والے ٹریک کو 1889 کا سیلاب بہا کر لے گیا تو کچھ عرصے بعد ایک اور ٹریک زیادہ اونچائی پر بنایا گیا لیکن وہ بھی پانی کے آگے ٹک نا سکا۔ موجودہ دور کا ٹریک بولان میں ریلوے لائن بچھانے کی تیسری کوشش تھی جو بالآخر کامیاب ہوئی اور یہ ٹریک ابھی تک پاکستان ریلویز کے زیر استعمال ہے۔
یہاں ولیم ایج کو یاد نہ کرنا بھی نا انصافی ہو گی۔
برطانوی ہندوستان میں پلا بڑھا ولیم لیولین ایج، اپنے باپ کی فوج میں ملازمت کی وجہ سے نصیرآباد، جھانسی، شاہجہان پور، رانی کھیت، مراد آباد، آگرہ اور دیولالی میں مقیم رہا۔ ولیم نے سول انجینئرنگ کی اور ہندوستان ریلوے میں بھرتی ہو گیا۔ 1885 میں موجودہ سوڈان، افریقہ میں اپنی خدمات سر انجام دینے کے بعد اسے بولان تا کوئٹہ ریلوے لائن کی تعمیر نو کے لیئے بطور انجینیئر، شمال مغربی ہندوستان میں تعینات کر دیا گیا۔ ولیم جین کی وفات 1924 میں نمونیا کے باعث آسٹریلیا میں ہوئی تھی۔
جتنی مشکل سے یہ ٹریک بچھایا گیا ہے اتنی ہی مشکل اس کی مرمت بھی ہے۔ اس ٹریک کے ساتھ کہیں کہیں آپ کو پرانے ٹریکس کی ترک شدہ سرنگیں اور ریل بیڈ بھی اب بھی نظر آ جاتے ہیں۔ جیسے کاسکیڈ سرنگ کے نیچے، پُل کے بالکل آگے میٹر گیج لائن کی ایک چھوٹی سی سرنگ ہے۔
درہ بولان کی بات کریں تو یہ اپنے آپ میں ایک عجوبہ ہے۔
ریل کے ذریعے لگ بھگ 63 میل لمبا یہ درہ برصغیر کے اہم ترین راستوں میں سے ہے جہاں سے کئی افواج و قافلوں کا گزر ہوتا رہا ہے۔ اس کے شرقی کونے پر ڈھاڈر ہے جو انتہائی گرم علاقہ ہے (جس کا درجہ حرارت 51 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے) جبکہ دوسرے کونے پر کولپور جیسا ٹھنڈا شہر واقع ہے جہاں سردیوں میں یخ بستہ ہوائیں چلتی ہیں۔ سردیوں میں اپنے مال مویشیوں سمیت بہت سے گلہ بان اسی درے سے گزر کر کچھی کے میدانوں میں پہنچتے ہیں۔
مشکاف بولان روٹ سے کوئٹہ ریلوے ٹریک شروع ہونے کے بعد بھی اپ اور ڈاؤن ٹرین چھپر رفٹ کے ذریعے ہفتے میں ایک بار چلتی رہی۔ پھر، جولائی 1942 میں، نقشے پہ موجود اس کالی لکیر کو مٹانے کے لیے گھاٹی میں سیلاب آیا۔ چونکہ بولان پاس ٹریک کامیابی سے چل چکا تھا سو برطانیہ سرکار کو اس روٹ میں اب کوئی دلچسپی نہ رہی۔
اگر قدرتی آفات نے چھپر گھاٹی کو تباہ نہ کیا ہوتا تو درہ بولان سے ریلوے لائن کبھی نا بچھائی جاتی اور ہم جیسے ان نظاروں سے محروم رہ جاتے۔
یہاں ایک اور دلچسپ چیز کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ کوئٹہ سے واپسی پر بُلندی سے نیچے آنے والی کوئی ٹرین اگر بے قابو ہو جائے تو اسے روکنے کے لیئے چار مختلف مقامات پر ایسی لائنز بچھائی گئی ہیں جو پہاڑوں کی بلندی پر جا کہ ریت میں دھنس جاتی ہیں۔ یہ مچھ، دوزان، ہرک اور آبِ گم کے پاس ہیں۔ انہیں تکنیکی طور پہ ”کیچ لائن” کہا جاتا ہے لیکن عام بول چال میں اسے ”دوزخ یا جہنم لائن” کہا جاتا ہے۔ بالفرض اگر کسی ٹرین کی بریک فیل ہوجائے تو ڈرائیور اسے اونچائی پر جانے والی جہنم لائن پہ ڈال دیتا ہے تاکہ اس کی رفتار کم ہو جائے اور یہ آگے جا کر رک جائے۔
بلوچستان سے گزرنے والا یہ ٹریک کچھی کے زرخیز میدانوں، سبی کے بیابانوں، بولان کے دروں اور پہاڑی سرنگوں سمیت کولپور و مچھ میں کوئلے کی کانوں کے قریب سے گزرتا ہے جہاں خوبصورت پل، ندی نالے، پہاڑ، سرنگیں، وادیاں اور درے کیا ہی پر لطف و دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں۔
آئیے، ہم ایک کے بعد دوسرے اسٹیشن پر چلتے ہیں اور ان کی تاریخ کھنگالتے ہیں۔
ڈیرہ اللہ یار؛ جیکب آباد اسٹیشن پہ جیسے ہی ریل کی سیٹی بجی میرا جوش و خروش بڑھ گیا۔ اگلا اسٹیشن ڈیرہ اللہ یار تھا جہاں میں محمود بھائی کو لگ بھگ ڈیڑھ سال بعد مل رہا تھا۔ اللہ اللہ کر کے ڈیرہ اللہ یار آیا اور ہمیں یار کا دیدار نصیب ہوا۔
جیکب آباد کے پاس واقع بلوچستان کا چھوٹا سا ضلع جعفر آباد، جعفر آباد سمیت ڈیرہ اللہ یار (جھٹ پٹ) کی تحصیل پر مشتمل ہے ۔ ضلع کا نام تحریک آزادی کے سپاہی اور قائداعظم کے ساتھی ”سردار جعفر خان جمالی” کے نام پر رکھا گیا ہے۔ صدر مقام ڈیرہ اللہ یار کو پہلے جھٹ پٹ کہا جاتا تھا لیکن مقامی سردار ”میر اللہ یار کھوسہ” کی وفات کے بعد اِسے ان کے نام سے موسوم کر دیا گیا۔
میرا دوست محمود کھوسہ اپنے قبیلے کی آںکھ کا تارا ہے۔ یوں تو اس شخص سے دوستی سوشل میڈیا پہ ہوئی تھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ یاری میں بدل گئی۔ بلوچستان میں سیلاب آیا تو میں نے محمود بھائی اور ان کے دوستوں کے ساتھ مل کر اس علاقے کا دورہ کیا اور جھل مگسی میں ایک میڈیکل کیمپ لگایا۔ ساتھ ہی دریائے مُولا کے کنارے حسین نظاروں کا لطف بھی اٹھایا۔
بس تب سے محمود کھوسہ سے ایک اپنائیت والا تعلق بن گیا اور آج موصوف اسٹیشن پہ ہمارے لیئے ناشتہ لیئے منتظر تھے۔ ٹرین رکی اور ہم بغل گیر ہوئے۔ چونکہ یہ بلوچستان کا پہلا اسٹیشن تھا سو یہاں ٹرین کی چیکنگ کی گئی اور ایف سی کے جوان اپنے آلات سمیت ٹرین میں سوار ہوئے جنہوں نے ٹرین کو بحفاظت کوئٹہ پہنچانا تھا۔ ایک حساس علاقے میں ٹرین کی حفاظت کے لیئے یہ بہترین قدم تھا۔
ڈیرہ اللہ یار سے ٹرین چلی تو ہم دوسرے ڈبے میں جا بیٹھے جو قدرے خالی تھا۔ انڈہ، پراٹھا اور لسی کا ناشتہ کرتے ہوئے محمود بھائی کو دعائیں دیں۔ ناشتے کے بعد ہم دونوں اپنے ڈبے میں پہنچے اور ساتھیوں سے گفتگو شروع کی۔
چمن کے چمونے؛
ہم دونوں کے علاوہ کمپارٹمنٹ میں چمن سے تعلق رکھنے والے چار پٹھان لڑکے تھے جن کی عمریں لگ بھگ چودہ سے سولہ سال تک تھیں۔ چاروں آپس میں بھائی تھے اور بہاولپور کے صادق پبلک سکول میں پڑھتے تھے۔ یہ چھٹیوں میں گھر واپس اپنے والد کے پاس جا رہے تھے۔
مجھے ان سے بات کر کے اور ان کے خیالات جان کے شدید خوشی ہوئی۔
سب سے پہلے تو یہ بات اپنے آپ میں ایک انوکھی اور زبردست تھی کہ چمن میں ڈرائی فروٹ کا کاروبار کرنے والا ایک پٹھان، تعلیم سے اتنی محبت رکھتا ہے کہ اپنے چاروں بیٹے دوسرے صوبے میں پڑھنے بھیج دیئے، وہ بھی صادق پبلک جیسے ایک تاریخی اور بہترین تعلیمی ادارے میں ۔ بلوچستان میں تعلیم و شعور کی یہ آگاہی میں نے آگے بھی جگہ جگہ محسوس کی۔
ایک نوجوان اگرچہ تعلیمی نظام سے کچھ نالاں تھا لیکن پھر بھی باپ کا خواب پورا کرنا چاہتا تھا۔ چھوٹے والا عزت اللہ، جو گول مٹول اور معصوم سا تھا، اسے انگریزی بولنے اور سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اس کی فرمائش پر میں نے قریباً پون گھنٹہ اُس سے انگریزی میں دلچسپ گفتگو کی جس میں پاکستان کی سیاحت، تعلیمی نظام، امریکی جنگیں، افغانستان کی صورتحال، میرے بلوچستان کے سفر اور کوئٹہ سے میری محبت جیسے موضوعات شامل تھے۔ وہ انگریزی میں سوال کر کے بڑا محظوظ ہو رہا تھا اور میرا وقت بھی اچھا گزر رہا تھا۔ ٹرین کچھی کے زرخیز میدانوں سے گزر رہی تھی اور میری نظریں باہر گزرتے مناظر پر تھیں۔
جاری ہے۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں