رحمان کو بچپن سے ہی جنگلی حیات سے محبت تھی۔ اس نے ہمیشہ افریقہ کے سفاریوں کی تصویریں دیکھی تھیں اور خواب دیکھا تھا کہ کبھی وہ بھی وہاں جائے گا۔ لیکن غربت اور معاشی مشکلات نے اس کے خوابوں کو حقیقت بننے نہیں دیا۔ مگر اس نے کبھی اپنے شوق کو مرنے نہیں دیا۔
کراچی کی گلیوں میں رہتے ہوئے، رحمان نے اپنے گردوپیش کی قدرتی زندگی میں خوبصورتی تلاش کرنا شروع کی۔ اس کا روز مرہ کا سفر ایک چھوٹے سے محلے کے پارک سے شروع ہوتا تھا، جہاں وہ صبح سویرے پرندوں کی چہچہاہٹ سننے جاتا تھا۔ اسی پارک میں اس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی جو روز وہاں آتی تھی۔ اس کا نام صبا تھا، اور اس کی حرکتیں رحمان کو ایک گلہری کی طرح لگتی تھیں۔ وہ اسے چھپ چھپ کر دیکھا کرتا تھا اور سوچتا تھا کہ ایک دن اپنا دل کھول کر اس کے سامنے رکھ دے گا۔
رحمان کو صبا کی معصومیت اور چہرے کی روشنی بہت پسند تھی۔ وہ اسے اپنے خوابوں کی دنیا کا حصہ سمجھتا تھا۔ ایک دن، وہ پارک میں بیٹھا ایک چمکدار سبز طوطے کو دیکھ رہا تھا جب اس کی نظر صبا پر پڑی جو مٹی کے برتنوں پر بیٹھے پرندوں کو دیکھ رہی تھی۔ اس منظر نے رحمان کے دل کو مزید گرمجوشی دی۔
رحمان نے اپنے علاقے کی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوشی تلاش کرنا سیکھ لیا تھا۔ کبھی وہ نیویارک کی گلیوں میں دوڑتے چوہوں کے بارے میں پڑھتا تھا، تو کبھی اس کی ملاقات اپنے گھر کے صحن میں پھنسی ہوئی مکڑی سے ہوتی تھی۔ ان تمام مناظر نے اسے یہ سکھایا کہ ہر کسی کی اپنی سفاری ہوتی ہے، خواہ وہ افریقی جنگلوں کی بجائے شہری جنگلوں میں ہو۔
ایک دن، اس کے ایک دوست نے اسے دو ماسائی چادر کے کپڑے تحفے میں دیے۔ اس نے ان کپڑوں کو اپنی دیوار پر لٹکا دیا، جیسے وہ افریقہ سے واپس آیا ہو۔ یہ کپڑے اس کے لیے یادگار بن گئے کہ ہر شخص کی اپنی کہانی ہوتی ہے اور ہر کہانی کی اپنی خوبصورتی ہوتی ہے۔
مگر پھر ایک دن، ایک بے رحمی کا واقعہ پیش آیا۔ رحمان، جو ہمیشہ قدرتی زندگی کی خوبصورتی تلاش کرتا تھا، اپنے گھر کے قریب ایک بڑے روڈ پر چلتے ہوئے ایک تیز رفتار گاڑی کی زد میں آ گیا۔ وہ وہیں دم توڑ گیا، اور اس کے ساتھ ہی اس کے خواب بھی دم توڑ گئے۔ لوگ اس کی لاش کے گرد جمع ہو گئے، لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ وہ ایک ایسا شخص تھا جو دنیا کی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی خوشی تلاش کرتا تھا۔
صبا کو جب یہ خبر ملی تو وہ پارک میں اس جگہ گئی جہاں رحمان اسے دیکھا کرتا تھا۔ وہاں اسے دو ماسائی چادر کے کپڑے دیوار پر لٹکے ہوئے ملے۔ وہ چادر اب اداسی کی علامت بن گئی تھیں، کہ رحمان کی زندگی کی سفاری ایک بے وقت اور المناک انجام کو پہنچی۔ صبا نے ان کپڑوں کو دیکھا اور آنکھوں میں آنسو بھر لائی ۔ وہ جان گئی کہ رحمان اسے کتنا چاہتا تھا، مگر اب وہ کبھی اسے اپنے دل کی بات نہیں بتا سکے گا۔
اس کی کہانی، جو خوشی اور محبت کی تلاش کی تھی، ایک چونکانے والے اور غمگین موڑ پر ختم ہو گئی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں