لیجیے تمام کتھا مکمل ہوئی، اب آخری دن تھا اس میں کچھ آرام بھی کرنا تھا اور پیکنگ وغیرہ بھی۔
پہلے تو گن گن کے اس دن کا انتظار ہو رہا تھا مگر یہ دن آیا تو یقین مانیں کہ دل پہ عجب سی اداسی چھانے لگی، ہوا دراصل یوں کہ کچھ لوگ جن کا طوافِ وداع رہ گیا تھا وہ اس دن حرم جانے لگے تو میں نے بھی جانے کا کہا لیکن پتا چلا کہ جب ایک بار طواف وداع کر لیا ہو تو پھر دوبارہ نہیں جانا چاہیے۔ اس سے دل اور اداس ہو گیا۔
یہ کیفیت خود میرے لئے بھی اجنبی تھی کیوں کہ میں پہلے مدینہ آیا تھا وہاں مدینہ کا موسم اور مسجد نبوی کا انتظام اتنا پیارا اورsamooth تھا کہ کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہوئی دوسری طرف جیسے ہی مکہ آیا تو موسم گرم اور حرم میں ایک عجیب سی بے ترتیبی اور دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑا اور بار بار مدینہ یاد آنے لگا پھر کسی نے بتایا کہ بھئی مدینہ جمال ہے اور مکہ جلال ہے۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ میں حرم پاک سینڈروم کا شکار ہوگیا اور آج ( آخری دن) یہ کیفیت امڈ امڈ کر باہر آ رہی تھی اور بالآخر مجھے یہ تسلیم کرنا پڑا کہ واقعی جو ایک بار یہاں آتا ہے وہ دوبارہ یہاں آنے کی آرزو دل میں لئے واپس جاتا ہے۔ یوں بھی میں نے حساب لگایا ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ عبادت کی خواہش حج میں نہیں بلکہ عمرے میں پوری کی جا سکتی ہے کیونکہ ایک تو حج میں رش زیادہ ہوتا ہے دوسرا آپکی رہائش حرم سے دور ہوتی ہے تیسرا اس موقع پہ آپ کا زیادہ فوکس حج پہ ہوتا ہے اور ان دنوں میں موسم بھی گرم ہوتا ہے اور گرمی میں انسان نسبتاً سست ہو جاتا ہے۔ انشاء اللہ پھر کبھی سردی کے موسم میں عمرہ کرکے یہ حسرت پوری کرنے کی کوشش کریں گے۔
آج دن میں کچھ سو لئے کچھ آس پاس کے کمرے والوں سے الوداعی ملاقاتیں کیں۔ سرکار کی طرف سے ایک الیکٹرونک ترازو بھی مہیا کیا گیا تھا جو کبھی کسی فلور پر ہوتا تو کبھی کسی پر۔ اسے ڈھونڈ کر اپنے سامان کا وزن پورا کیا۔
ایئر بلیو کی طرف سے فی پیسنجر چالیس کلو کارگو اور سات کلو ہینڈ کیری کی اجازت تھی۔ آب زم زم ہمیں فی کس ایک بوتل اپنی منزل پہ پہنچنے پر ملنا تھا۔
ہمارے پاس چالیس کلو کھجور اور بیس بیس کلو کے دو سوٹ کیس تھے جو ہم نے منٰی جانے سے پہلے ہی پیک کر لئے تھے مگر جب بھی اہلیہ سے ہینڈ کیری کے وزن کا کہا تو ایک ہی جواب ملا وہ تو خالی پڑے ہیں ان کا کیا وزن کرنا۔
لوگوں نے سرکار کی طرف سے پینے کو دئیے گئے زم زم کو پینے کے بجائے سوٹ کیسوں میں ٹھونس لیا جبکہ جہاز میں لیکیوئڈ لیجانے پر پابندی ہے۔ میں نے وہ پی لیا تھا اور ساتھیوں سے کہا کہ آپ بھی پی لیں بیس بوتلوں کا وزن اوور ویٹ ہو جائے گا پھر کیا کرو گے۔ تو ہمارے الحاج ( وہی لڑکا جو بار بار تخلیہ مانگتا تھا اسکا دوسرا حج تھا ) نے کہا فکر نہ کرو بیس تیس ریال وزن کرنے والے کے ہاتھ پہ رکھ کر نکل جائیں گے میں پچھلی بار بھی لے گیا تھا ۔میں نے کہا بیٹے اسی لئے میں تمہیں مفتی قوی کہتا ہوں۔
رات کے آٹھ بجے کراچی کی فلائٹ والوں کی جدہ روانگی تھی اور دس بجے ہماری جبکہ وہ دس بجے اور ہم بارہ بجے روانہ ہو سکے۔ بیچ میں بلڈنگ والوں نے اسپیکر پہ اعلان کر کر کے دماغ پولا کر دیا اور جو آرام کرنے کا سوچا ہوا تھا حرام کر دیا۔ اوپر سے ہمارے قریشی صاحب اتنے وہمی تھے نہ خود سوئے اور نہ ہمیں سونے دیا اور کمرے کا دروازہ کھلا رکھا کہ کہیں ہمیں چھوڑ نہ جائیں جس سے اسپیکر کا سارا شور کمرے میں آتا رہا۔
ایک اچھا کام یہ تھا کہ آپ نے اپنا کارگو کمرے کے باہر کوریڈور میں رکھ دینا تھا جسے عملے نے ٹیگ کرکے آپ کو کوپن دے دیا اب آپ نے صرف ہینڈ کیری ساتھ لے جانا تھا کارگو خود فلائیٹ والوں نے ٹرک کے ذریعے لے کر آنا تھا۔ باہر نکلتے ہوئے باری باری ملازمین کو مناسب ٹپ دی اور اللہ حافظ کہا۔
صبح اذانوں کے وقت جدہ ایئرپورٹ پہنچے اور نماز پڑھ کے باہری لاونج میں براجمان ہوگئے یہاں ایک سہولت تھی آپ واش روم کے باہر سگریٹ پی سکتے تھے۔
ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد بورڈنگ کے لئےاندرونی لاونج چلے گئے حالانکہ یہ فلائٹ کا وقت تھا اور شیڈول بورڈ پہ فلائٹ بھی رائٹ ٹائم تھی مگر ہمارا سامان کا ٹرک ابھی تک نہیں پہنچا تھا جیسے ہی سامان آیا ہم اسے لے کر اندر چلے گئے اور کارگو انکے حوالے کرکے بورڈنگ ٹکٹ لئے اب اصل مرحلہ ہینڈ کیری کے وزن کرنے کا شروع ہوا یقین کریں لوگوں نے پورے پورے ہینڈ کیری وہیں لاونج میں پھینکے اور ان میں وہ زم زم کی بوتلیں بھی تھیں۔
اب ہماری باری آئی سامنے ایک بنگالی لڑکا وزن کرنے پہ مامور تھا جب میں نے اپنا ہینڈ کیری اسے دیا تو اس کا وزن چودہ کلو ہوا یعنی لمٹ سے ایگزیکٹ ڈبل ، دوسرا بھی ایسے ہی تھا جبکہ ایک اضافی شولڈر بیگ جو میرے کندھے پہ تھا وہ سات کلو کا ہوا۔ یعنی جو ٹوٹل چودہ کلو ہونا چاہیے تھا وہ پینتیس کلو ہوا۔
اب میں نے خشمگیں نظروں سے اپنی حاجن کو گھورا تو وہ سہم کر بولی ان کا کانٹا ہی خراب ہے۔ میں نے کہا تم سے کتنی بار انکا وزن کرنے کو کہا تھا مگر تم نے ایک ہی رٹ لگا رکھی تھی کہ وہ تو خالی پڑے ہیں تو یہ کیا پھر ہوا کا وزن ہے۔ میں نے بنگالی سے التجا کی کہ ہولا ہاتھ رکھے یا کوئی ترکیب بتائے تو اس نے کورا سا جواب دیا اور بولا کہ پرلے کاونٹر پہ بڑے صاحب سے بات کریں میں کچھ نہیں کر سکتا۔
میں اپنا سا منہ لے کر لائن سے نکل آیا اور پھر بیگم کی بات کو ذہن میں لا کر ایک اور کانٹے پہ لے جا کر دوبارہ وزن کیا اور دوبارہ بھی وہی رزلٹ آیا ۔
میں نے حاجن سے کہا کہ اب کرو انکو خالی، نکالو کیا نکالتی ہو۔ اس نے بوجھل دل سے پہلے اپنے دو گاؤن نکالے جو حج کے لئے سلوائے تھے پھر دو پرانی بیڈ شیٹس تھیں جو ہم نے مزدلفہ رات گزارنے کے لئے رکھی تھیں وہ نکالیں میرا ایک ٹراؤزر اور شرٹ جو میں رات کو پہنتا تھا ایک تھرماس جو ٹھنڈے پانی کے لئے رکھا تھا پانچ سات زم زم کی بوتلیں جو بیگم نے اپنے کوٹے کی بچائی تھیں دو قرآن پاک تھے پھر ایک استری تھی۔ اسکو پھر تولا تو صرف چھ سات کلو ہی کم ہوا تھا۔
جب ہم نے استری نکالی تو وہاں کے دو پاکستانی ملازم جو حلیے سے کلاس فور کے لگ رہے تھےاسے للچائی نظروں سے دیکھنے لگے۔ میں نے انہیں اشارہ کیا کہ ادھر آؤ، وہ آگئے تو میں نے انہیں وہ استری اور قرآن پاک تھما کر پنجابی میں کہا کہ استری تم لے جاؤ اور یہ قرآن چاہے تو ساتھ لے جاؤ ورنہ یہاں کی مسجد میں رکھ دو اور تمہارا یہاں کیا فائدہ ہے کہ تمہارے ہوتے ہوئے یہاں ہمیں ایک جھانٹ برابر بنگالی چھوکرے نے آگے لگایا ہوا ہے۔
اس کے دل میں پتا نہیں کیا آئی اس نے کہا کہ آپ لائن میں لگو میں جب اشارہ کروں گا تم آگے آ جانا۔ بیگم نے یہ سنا تو جھٹ سے کچھ سامان واپس بیگ میں اڑس لیا ( اسکی اس ہاتھ چالاکی کا مجھے گھر آ کر معلوم ہوا جب اس نے رات کو مجھے سونے کے لئے وہی ٹراوزر دیا)
میں لائن میں لگ گیا وہ بندہ بنگالی کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیاجب اس نے اشارہ کیا تو میں سامان لے کر فوراً آگے ہوا اس نے اسی وقت ایڑی مار کے ایک بیگ اپنی طرف کھسکا لیا جو اس کا دوسرا ساتھی کچھ دور لے گیا اور باقی وزن کے لئے اس نے بنگالی کے کان میں کچھ گٹ مٹ کی اس نے ہمیں پاس کردیا۔ میں احسان مند ہو کر کچھ خدمت کی پیشکش کی مگر اس نے انکار کردیا اور سامان ہمارے حوالے کر دیا۔ میں نے انکا شکریہ ادا کیا اور آگے چل دیا اندر داخل ہوتے ہی ایک کاونٹر پر دو عربی خواتین تھیں جنہوں نے ہمیں دو قرآن پاک ہدیہ کردئیے جو بالکل انکے ساتھ کے تھے جو ہم باہر چھوڑ کر آئے تھے میں اللہ کی شان پہ بڑا حیران ہوا۔
ہمارے پیچھے قریشی صاحب بڑے ملول آ رہے تھے کیونکہ وہ اپنا بہت سارا سامان چھوڑ کر آ رہے تھے انہوں نے میرے منع کرنے کے باوجود مکہ سے بہت ساری شاپنگ کی تھی اور وہ اتنے دل برداشتہ تھے کہ انہوں نے وہ ہدیہ لینے سے بھی انکار کر دیا۔
اس کے بعد ہم ایک لائن کے پیچھے چل دئیے جو جہاز کی طرف رواں دواں تھی اب جہاز والوں نے ہمارے سامان کی اسکیننگ شروع کی ہم اپنی اسکیننگ کروا کے لاونج کی جانب آئے تو میں نے محسوس کیا کہ ہمارے اور قریشی صاحب کے علاوہ کوئی ملتان کا مسافر نظر نہیں آ رہا میں نے ذرا کنفرم کرنے کے لئے وہاں براجمان لوگوں سے پوچھا تو بولے کہ یہ اسلام آباد کی فلائٹ ہے میں گھبرا کے واپس پلٹا تو بیگم عملے کے ایک بندے سے الجھ رہی تھی وہ اسے کہہ رہا تھا کہ بیگ کھول کے سامان چیک کرواؤ ۔
میں نے اسے کہا کہ ہمارا سامان واپس کرو ہم غلط لاونج میں آ گئے ہیں ہماری فلائٹ کا وقت ہو گیا ہے مگر وہ عربی تھا ہماری بات نہیں سمجھا خیر ٹھیک ٹھاک توتکار کے بعد ہم اپنا سامان اٹھا کر اسے گھورتے ہوئے وہاں سے نکل آئے وہ بھی ہمیں کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
ہمارا لاونج اوپر تھا ہم بھاگم بھاگ اوپر پہنچے اور دوبارہ اسکیننگ کے لئے اپنا سامان اسکینر پر رکھا۔ میں نے بیگم سے پوچھا کہ میرا بیلٹ کہاں ہے؟
بولی پتا نہیں
میرے ہاتھوں کے طوطے اڑر گئے کیونکہ اس میں میرا والٹ پڑا تھا جس میں پندرہ سو ریال اور پچیس ہزار پاکستانی روپے اور میرا لائسنس آئی ڈی کارڈ اور سارے ڈیبیٹ کارڈز بھی تھے۔
میں الٹے پیر واپس ہوا اب مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ تلاش کہاں سے شروع کروں۔ میں اللہ کا نام لے کر بھاگتا ہوا پہلے اسی اسلام آباد والے لاونج میں پہنچا اور قطار کو توڑ کر سیدھا اندر چلا گیا وہاں وہی دشمن موجود تھا میں نے سیدھا اس کے آگے جا کر ہاتھ جوڑ دیئے۔ اور بولا معافی برادر میرا بیلٹ یہاں رہ گیا ہے اور میری فلائٹ بالکل تیار ہے میرا پاسپورٹ بھی انہوں نے رکھ لیا ہوا ہے آپ مہربانی کریں۔
پہلے تو وہ لائن توڑنے پر جز بز ہوا مگر اللہ اس کا بھلا اس نے سامان میں سے بیلٹ اٹھا کر کہا کہ یہ ہے؟
بیلٹ دیکھ کر میری جان میں جان آئی اور میں نے تقریباً جھپٹ کر اس کے ہاتھ سے اپنا بیلٹ پکڑا اور اور اس کے گھٹنوں کو چھو کر واپس بھاگ لیا۔
واپس پہنچا تو حاجن بیچاری سوکھنے ڈلی ہوئی تھی بیلٹ دیکھ کر اس کے بھی اوسان بحال ہوئے۔
پھر کچھ دیر کے بعد ہم جہاز میں تھے۔ یہ پہلے والے جہاز کی نسبت کافی اچھا اور بڑا جہاز تھا ہمیں آگے پیچھے سیٹیں ملیں، میں نے سوچا کہ اچھا ہی ہے مکہ میں بھی یہی مرنا تھا لوگ حرم سے واپسی پر بس میں اپنی بیگمات کے ساتھ بیٹھ جاتے اور بلڈنگ تک پہنچتے پہنچتے مرنے والے ہو جاتے تھے۔
میری والی سیٹوں پر ایک مرد اور دو خواتین تھیں مرد نے ریکوئسٹ کی کہ ہماری فیملی ہے ہماری ایک سیٹ پیچھے ہے آپ اس پر چلے جائیں۔ مرد سے مکہ میں میری اچھی سلام دعا ہو گئی تھی اس لئے انکار نہ کیا اور پیچھے چلا گیا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایمرجنسی ڈور کے ساتھ کی تینوں سیٹیں خالی ہیں یہاں ایمرجنسی ڈور ہونے کی وجہ سے سیٹوں میں کافی اسپیس ہوتی ہے۔ دو گھنٹے تاخیر کے بعد جیسے ہی جہاز اڑا اور پرواز اسموتھ ہوئی میں اٹھ کر ان سیٹوں پہ آ گیا اور بیگم کو بھی وہاں بلا لیا۔ تیسری سیٹ خالی تھی جہاں شہزاد بھٹی صاحب کچھ دیر کے لئے ہمارے پاس آگئے اور خوب گپ شپ رہی پھر وہ واپس اپنی سیٹ پر چلے گئے۔ لنچ کے وقت لنچ سرو ہوا جو بہت بہتر تھا۔
پانچ بجے ہم نے ملتان لینڈ کیا ائیر پورٹ کی مسجد میں ظہر عصر ادا کی آرام سے ایگزٹ ہوگیا ہمیں وہاں دو بوتل آب زم زم کی ملیں ۔ باہر بھائی اور بیٹا ہمیں لینے کے لئے آئے ہوئے تھے وہاں سے روانہ ہوتے ہی زبردست بارش شروع ہو گئی ہم نے ایک ہوٹل پہ رک کر کچھ منورنجن کیا اور بارش تھمتے ہی سفر دوبارہ شروع کیا اور الحمدللہ بخیر و عافیت نو بجے گھر پہنچ گئے جہاں اہل محلہ و خانہ نے پھولوں سے ہمارا استقبال کیا۔ بس پہلا دن ہی بارش کی وجہ سے خوشگوار رہا مگر اس کے بعد سے تادم تحریر وہ گرمی ہے کہ نہ پوچھیں۔ لوگ مجھے مکے کی گرمی کا پوچھتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ حاجی اس سے تو بچ گیا تھا مگر اس سے مشکل ہے ۔
پھر وہ مہمان آئے کہ الاماں والحفیظ ! یوں لگتا تھا کہ وطن عزیز میں میں اکیلا ہی حاجی ہوں ۔کل سے کچھ فرصت ہوئی ہے اس لئے لکھنے میں بھی تعطل آتا رہا ۔ مزید اور بھی آنے کے خواہش مند ہیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ حج بھی یہیں ہے اور حاجی بھی، ویسے بھی دو ہزار پچیس تک ہمارا والا ماڈل لیٹیسٹ رہے گا لہذا آپ موسم اچھا ہونے پر آجائیں آپکی ویسی ہی خاطر تواضع ہوگی۔
ساتھ رہنے کا شکریہ اللہ نگہبان !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں