یہاں جن دوکانداروں نے اردو یا بنگالی ملازم رکھے ہوئے ہیں (میں نے یہاں انڈین ملازم نہیں دیکھے) وہاں خریداری کرنا آسان ہے ورنہ زبان کیوجہ سے بڑی مشکل ہو جاتی ہے۔ ایک دوکان پہ میں بھاؤ تاؤ کر رہا تھا کہ دوکان دار بولا واللہ اندین کنجوس۔
بیگم تنک کے بولی الحمدللہ وی آر پاکستانی
میں نے اس کا ہاتھ جھٹک کر کہا رہن دے ایڈی تو چاچا پاکستانی! چنگا بھلا انڈینز کا نام لگ رہا ہے تم لگنے دو۔
یہاں چیز تبدیل کرانے یا واپس کرانے پہ مائنڈ نہیں کرتے۔ حیرت ہے کہ جنرل اسٹورز پہ ایوری ڈے ٹی وائٹنر نہیں ملتا بلکہ یہ جانتے ہی نہیں۔ میڈیکل اسٹورز پہ بغیر نسخے کے بھی دوائی مل جاتی ہے دوائیاں بہت مہنگی ہیں برانڈڈ میڈیسن تو بہت ہی مہنگی ہیں۔ یہاں ویاگرا بھی لیگل ہے۔ پاکستان میں پتا نہیں کیوں بین ہے عیاش تو کہیں نا کہیں سے لے ہی لیتے ہیں ضرورت مند پریشان ہوتے ہیں یا غیر معیاری لینے پہ مجبور ہیں، باقی حکیموں کے ہاتھ چڑھ جاتے ہیں۔ البتہ پاکستان میں ایک کمپنی نے ایور لانگ کے نام سے ایک بہترین دوا لانچ کی تھی مگر جسٹس ثاقب نثار نے وہ بین کر دی تھی شاید اُس کو اس سے بھی فائدہ نہیں ہوا تھا اور اس نے “کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے” کے فارمولے پہ عمل کرتے ہوئے کْھتی میں مْوت دیا۔
جگہ جگہ پر ایک خوشبو عود العنبر کے آؤٹ لیٹس تھے مگر اتنی برانچز کے باوجود میں نے ان میں کوئی خاص گاہکی نہیں دیکھی۔
کئی چیزیں جو میں نے مدینہ سے خریدی تھیں مکہ میں ان کے ریٹس ڈبل دیکھے۔ مجھے یہاں اَن سلے کپڑے کی کوئی دوکان نظر نہیں آئی ۔ بلکہ بینکس بھی نظر نہیں آئے اور نہ ہی جگہ جگہ اے ٹی ایم مشینز نظر آئیں اگرچہ ضرور ہوں گی۔
سونے کے زیورات کی دوکانیں جگہ جگہ ہیں لیکن ہر گریڈ کا سونا پاکستان سے دس پندرہ ہزار مہنگا ملتا ہے اور ہے بھی ریڈِش۔ ڈیزائنز کے بڑے پیسے ہیں یعنی کسی زیور کے ڈیزائن کے سونے کے علاوہ تیس چالیس ہزار الگ سے مانگتے ہیں ۔
یہ کہنا کہ نماز کے وقت دوکانیں کھلی چھوڑ کر چلے جاتے ییں کہیں نہیں دیکھا البتہ کسی دوکان پہ بھی سکیورٹی گارڈ بھی نہیں دیکھا۔ حاجیوں کی بلڈنگز میں اسکولز کے اسکاؤٹس سکیورٹی پر مامور تھے مگر یہ محض خانہ پری کے لئے تھا اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور ہمارا والا چودہ پندرہ سال کا گْپلْو سا بچہ تھا سارا دن پب جی کھیلتا رہتا تھا اور مانگ تانگ کے سگریٹس پھونکتا رہتا، میں نے ایک بار اس کی تصویر بھی لگائی تھی مگر یار لوگ ہور پاسے ٹر پئے اس لئے ڈیلیٹ کر دی۔
مکہ میں فیس بک فرینڈ Faizan Ahmed ملنے کے لئے تشریف لائے اور اپنے ساتھ سگریٹ کے پیکٹ، پان، ڈرائی فروٹس اور بہت کچھ لے کر آئے اور شکریے کا موقع فراہم کیا۔ ویسے میں پاکستان سے بھی ڈرائی فروٹ ساتھ لے گیا تھا اور آف سیزن میں پہلی بار اتنا ڈرائی فروٹ کھایا تھا کہ طبیعت اُکتا گئی، اب نام لینے کو بھی جی نہیں چاہتا اتنی گرمی میں ڈرائی فروٹ کھانا اور اوپر سے اِن پْٹ اتنا اور آؤٹ پٹ ندارد۔۔
فیضان بھائی مریدکے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہاں حرم میں ٹیکنیکل جاب کرتے ہیں۔ پھر ان کو ڈینگی ہو گیا اور دوبارہ ملاقات نہ ہوسکی۔میں نے پوچھا کہ یہاں بھی ڈینگی ہوتا ہے؟
بولے ہاں ان دنوں میں حاجیوں کی بھرمار کی وجہ سے صفائی کمپرومائزڈ ہو جاتی ہے اس لئے۔
میں بولا اے وی ساڈے تے پا دیو!
عزیزیہ مکہ کا ایک نواحی علاقہ ہے۔ حج کے دنوں میں نوے فیصد حاجی یہیں رہتے ہیں یہ حرم سے کوئی آٹھ کلومیٹر دور ہے مگر حرم کی حدود میں ہے بلکہ خانیوال کے ایک بابا جی جو ساتواں حج کر رہے تھے عمرے کے علاوہ ایک دن بھی حرم نہیں گئے اور وہیں قریبی مسجد میں نماز پڑھ لیتے اور کہتے تھے کہ پتر ایہہ وی حرم وچ اے ایتھے وی لکھ نماز دا ثواب مِلدا اے۔ میرے خیال سے تو بابا جی کو سال کے سال گلے میں ہار ڈلوانے کا شوق تھا۔
یہاں جا بجا ہاسٹل ٹائپ بلڈنگز بنی ہوئی ہیں چار پانچ سو لوگوں کی گنجائش والی۔ سنٹرلی ایئر کنڈیشنڈ تو نہیں ہیں البتہ رومز میں ونڈو اے سی لگے ہوئے ہیں۔ یہ بلڈنگز سال میں صرف ایک بار کرائے پر جاتی ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ حج اتنا مہنگا کیوں ہے تو ذرا خود سوچیے کہ آخر کروڑوں روپے مالیت کی اس بلڈنگ کا کتنا کرایہ ہوگا جو سال میں ایک بار کرائے پہ چڑھنے سے بھی مالک کو وارے کھاتا ہے۔
ہماری بلڈنگ کےچھ فلور تھے اور مالک نے ہر فلور پہ دو بڑے ویزی کولر رکھے ہوئے تھے جس میں ہر وقت ٹھنڈے پانی کی بوتلیں موجود رہتی تھیں جو بلڈنگ مالک کی طرف سے حاجیوں کے لئے مفت تھیں اور اس سائز کی بوتل بازار سے آدھے ریال کی ملتی تھی۔میں نے موٹا موٹا حساب لگایا تو ایک مہینے میں اس کی تقریباً پچاس سے ساٹھ ہزار بوتلیں لگی ہوں گی اللہ اسے اجر عظیم سے نوازے۔
یہ سہولت ہر بلڈنگ میں نہیں تھی وہاں پر ہر فلور پہ بس ایک ایک واٹر ڈسپنسر نصب تھا۔ ہماری تو موج تھی ہم تو جب چاہتے پورا ایک پیٹ اٹھا کر کمرے میں لے آتے اور جب بلڈنگ سے باہر نکلتے دو تین بوتلیں اٹھا کر نکلتے۔
اللہ کی شان ہے کہ جس ملک میں پانی کی شارٹیج ہے وہاں پینے کے لئے اس قدر وافر مقدار میں پانی موجود ہے کہ آپ پاکستان میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ بوتلوں سے پانی پی پی کر یہ حالت ہوگئی ہے کہ اب گلاس میں پینا عجیب لگتا ہے۔ تقریباً روز ہی ایک بڑا ٹینکر بلڈنگ کے انڈر گراؤنڈ ٹینک میں پانی بھر جاتا۔ واش رومز میں الیکٹرک گیزر نصب تھے اور ذرا سے اشارے پر ٹونٹی سے اتنا سڑا ہوا گرم پانی نکلتا کہ اپنی ٹونٹی خطرے میں پڑ جاتی۔
ساری بجلی انڈر گراؤنڈ ہے بجلی جانے کا تصور بھی نہیں ہے بس ایک دن کسی فنی خرابی کی وجہ سے بجلی گئی تھی مگر فور اً بلڈنگ کا جنریٹر آن ہوگیا یعنی کبھی کبھار کے لئے بھی جنریٹر موجود تھا اور بڑا ہیوی جنریٹر تھا جس نے اے سی بھی چلا دیئے۔ چھت پر پانچ چھ آٹو میٹک واشنگ مشینز رکھی ہوئی تھیں جہاں خواتین کپڑے دھو لیتیں اور کپڑے سکھانے کے لئے تاریں بھی لگی ہوئی تھیں بازار سے لانڈری فی کلو کپڑوں کے حساب سے ہوتی ہے۔
جن لوگوں نے سرکاری قربانی کے پیسے جمع نہیں کروائے تھے وہ بڑے پریشان رہے کیونکہ پتا چلا کہ یہاں پر کئی پاکستانی قربانی کے نام پر بڑا فراڈ کرتے ہیں۔ مناسب قربانی کے دام سات سو ریال ہیں تو وہ لوگوں کو چار پانچ سو میں پھنسا لیتے ہیں اور قربانی بھی نہیں کرتے۔ سمجھدار لوگوں نے راجعی بینک یا ایک دو قابلِ اعتماد ٹرسٹوں میں قربانی کے سات سو بیس ریال جمع کروائے۔
جتنا سنتے تھے اس کے برعکس میں نے یہاں کوئی پاکستانی گداگر نہیں دیکھا بلکہ بہت ہی کم گداگر دیکھے وہ بھی کالی عورتیں اور انکے بچے تھے۔
البتہ مدینہ میں اپنے ہوٹل کے باہر سگریٹ پی رہا تھا کہ ایک شخص میرے پاس آیا اور سگریٹ مانگی میں نے دے دی اور پوچھا کہ تم کہاں سے ہو؟ بولا میں جموں کشمیر بھارت سے ہوں۔ کیا آپ میرے ساتھ ایک نیکی کریں گے؟
میں چوکنا ہو گیا اور کہا بولو
بولا میرے گھر میں راشن نہیں ہے آپ۔۔
میں نے اسکی بات کاٹ کر جیب سے لائٹر نکالا اور کہا ادھر دو میں سگریٹ لگا دوں۔
اس نے سگریٹ مجھے تھمائی تو میں نے اسے دوبارہ پیکٹ میں ڈالتے ہوئے کہا چل بھاگ گروسری کے! تْو ضرور کوئی پاکستانی ہے۔ سالے تو مدینہ آ کر بھی بھوکا ہے تو پھر بھوکا ہی رہ۔
وہ یکدم پلٹا اور تیز تیز قدم اٹھاتا نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
بس یہ ایک مانگنے والا تھا جسکے لہجے اور انداز سے مجھے اس پر پاکستانی ہونے کا شبہ ہوا
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں