منہ طرف ‘یورپ شریف'(2)-ندیم اکرم جسپال

پیرس کا ٹریفک لندن جیسا ہی ہے،ہاں اس سے قدرے بے ترتیب مگر کھلی سڑکوں کی وجہ سے لندن والے تماشے نہیں ہوتے۔ہم قریب چالیس منٹ میں آئفل ٹاور کے سائے میں واقع ایک مشہور پاکستانی ریسٹورنٹ پہ تھے۔کھانے کے آخر میں میٹھے کی باری آئی تو گلاب جامن کے ساتھ قلفی منگوائی گئی۔ایسی شاندار قلفی تو پاکستان میں نہ ملے۔وہاں بیٹھے ہی اس قلفی کی اتنی تعریف کی کہ اگلی بار جب میزبان یہاں لے آئے تو اسے پتہ ہو کہ ساتھ قلفی بھی منگوانی ہے۔
ریسٹورنٹ سے نکل کے ہم آئفل ٹاور کی طرف چل دئیے۔پیرس میں اولمپکس کا موسم چل رہا تھا سو اکثر سڑکیں بند تھیں۔معمول سے بہت زیادہ پولیس تھی اور میری حیرت کو پولیس کے پاس جدید ترین بندوقیں بھی تھیں۔ہم آئفل ٹاور کے اطراف گلیوں میں پیدل ہی چل رہے تھے۔شاندار کھلی گلیاں تھیں جن میں سڑک کے اطراف میں کھلے ڈُھلے فٹ پاتھ تھے۔ زیادہ تر کیفے اور بارز کے باہر بیٹھنے کو بڑی شاندار جگہ بنی ہوئی تھی۔درمیان میں سڑک،پھر فُٹ پاتھ اور اس کے ساتھ کیفے کے باہر میز لگے تھے مگر ہر شئے اتنی ترتیب میں تھی کہ کرسیاں پیدل چلنے والوں کا راستہ نہیں روک رہیں اور پیدل والے گاڑیاں روک روک سڑک نہیں کراس کررہے تھے۔
پیرس کی اونچی عمارتوں کی بالکونیوں میں پڑے رنگ برنگے پھول اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگارہے تھے۔شہر گھومتے میرے دماغ میں موازنہ ہی چلتا رہا،ہر بات پہ موازنہ اچھا نہیں ہوتا مگر کیا کریں ہمارے ہاں جس  کا دل کرتا ہے وہ کبھی لاہور کو پیرس سے ملا دیتا ہے کبھی کراچی کو۔خیر لاہور کو پیرس سے کیا ملانا،پیرس کی اس سے بڑی کوئی توہین نہیں ہوسکتی۔یہ تو ایسا ہی ہے کہ میں بھی موبائل سے چار فوٹو بنا کے خود کو مہدی بخاری ہی کہنا شروع کردوں۔یہ اس فنکار سے کتنی بڑی زیادتی ہوگی،اس کے فن کی اس سے بڑی توہین کیا ہوگی ۔بس لاہور اور پیرس میں بھی اتنا ہی فرق ہے۔تفصیل میں کیا جانا کہ پیرس کی گلیوں میں پھول اور خوشبو تھی،تزئین و آرائش تھی،ترتیب تھی، رنگینی تھی۔
خیر یہ دل جلانے کی بات ہے۔پاکستان کیا لندن کا پیرس سے کوئی مقابلہ نہیں۔لندن اپنی جگہ بہت شاندار ہے مگر اتنا تنگ کہ وہم ہوتا ہے کہ میرے اوپر گِر رہا ہے،گھٹن ہوتی ہے۔ٹریفک کا وہ حال ہے کہ لوگ اپنی رینج روور گھر کھڑی کرکے ٹرینوں میں لیلے بکروں کی طرح سفر کرتے ہیں۔پیرس اس سے قدرے مختلف ہے۔
آئفل ٹاور سے نکلے تو پیرس کے مشہور شاپنگ مال گیلری لافایت(امید ہے میں نے ٹھیک ہی لکھا ہوگا)پہنچے۔باہر سے اجاڑ نظر آنے والی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرکے مال میں پہنچے۔یہ مال تھا یا مالا مال۔دنیا کا شاید ہی کوئی ہائی اینڈ برانڈ ہو جو یہاں موجود نہ ہو۔میرے ورگہ مڈل کلاسیہ وہاں جاکے باقاعدہ انتہائی غریب محسوس کرتا ہے۔آپ ہی اندازہ لگائیں کہ اگر میری ہفتے کی تنخواہ کسی جوتوں کے جوڑے پہ یا کسی ٹی شرٹ پہ لکھی ہو تو میں نے کیسا محسوس کیا ہوگا۔انتہائی غریب۔وہ تو بھلا ہو میرے میزبانوں کا،شاید میری شکل سے میری غربت کا اندازہ لگا چکے تھے،جاتے ہوئے مہنگے پرفیوم مجھے گفٹ کردئیے۔
پیرس میں شاپنگ مالز کے اندر دکانیں الگ الگ نہیں ہوتیں،کسی طرح کی دیوار انہیں الگ نہیں کرتی بلکہ اوپن ایریا میں ہر برانڈ کا ڈسپلے ہوتا ہے۔آپ انکی سیٹنگ اور برانڈنگ سے سمجھ جاتے ہیں کہ اب گوچی کا سٹور ختم ہوا ایل وی کا شروع ہو چُکا ہے۔اسی شاپنگ مال کے خوشبوؤں کے خانے میں پہنچے تو دنیا ہی الگ تھی۔اس کی چھت ایک گنبد تھا جو پانچ منزلوں کے اوپر تھا۔زمینی منزل پہ دنیا کی مہنگی اور مشہور ترین خوشبوؤں کی دُکانیں تھیں اور اوپر پانچ منزلوں میں ایسا شاہانہ طرز تعمیر تھا جو دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔میرے اندر کا فوٹو گرافر جاگا،آڑے تِرجھے کیمرے سے چند تصاویر اور ویڈیوز نکالیں۔ پہلی بار بڑی شدید خواہش ہوئی کہ کاش میں کوئی سینامیٹاگرافر ہوتا تو اس شاندار آرٹ سے انصاف کر سکتا۔ہر منزل پہ درجنوں در بنے ہوئے تھے اور ان میں اتنی باریکی سے سنہری تزئینوں آرائش کا کام تھا کہ گمان ہورہا تھا جیسے کوئی شاہی محل ہو۔گنبد کا اوپری حصے میں مختلف رنگوں ،ساخت اور ہجم کے نگ جڑے ہوئے تھے۔ہر منزل پہ سفید رنگ کی روشنائیاں اور ہلکے سنہری رنگ کی روشنائیاں الگ ہی سماں باندھ رہی تھیں۔
یہاں چوتھی منزل پہ ایک شیشے کا پُل سا بنا تھا جو در سے پندرہ بیس فٹ باہر نکلا ہوا تھا۔یہاں کھڑے ہو کے آپ گنبد کو تقریباً ہر زاویے سے دیکھ سکتے ہیں۔اس پُل پہ ہجوم قابو کرنے کے لیے داخلہ کے لیے رجسٹریشن کا نظام تھا۔بس ایک کیو آر کوڈ ہے جسے سکین کرکے آپ نے اپنا نام اور ساتھیوں کی تعداد بتانی تھی۔دس بارہ کی اڈیک کے بعد ہماری باری آگئی۔اس پل سے منظر بڑا لاجواب تھا،آپ بھیڑ سے الگ اکیلے گنبد کے بیچے کھڑے ہوتے ہیں۔شکر ہے جلدی ہی گوری میم نے ہمیں واپس بُلا لیا ورنہ میں تو قریب قریب بادشاہ والی فیل چُک رہا تھا۔میں اکیلا،اتنا بڑا سنہری گنبد اور دور لائن میں کھڑے سیاح جو ُپل پہ چڑھنے کے انتظار میں تھے انہیں اپنی رعایا سمجھ رہا تھا۔وہ تو نیکی اس گوری میم کی جس کی آواز نے مجھے آئینہ دکھایا۔
یہاں سے نکل کے ہم لا دی فانس پہنچے۔ یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں کارپوریٹ دفتر،شاپنگ مال اور ان سب کے بیچ ایک کھلی جگہ موجود ہے۔اس کھلی جگہ پہ لندن کے برعکس بچے کھیلتے نظر آئے،لوگ چبوتروں پہ بیٹھے نظر آئے،کہیں اپنے بستے زمین پہ رکھے گپ میں مصروف تھے۔ یہ سارے منظر لندن سے جانے والے کے لیے اجنبی تھی۔لندن میں نہ بچے نظر آتے ہیں،نہ کہیں کوئی بستہ زمین پہ رکھے کسی چبوترے پہ بیٹھا نظر آتا ہے۔عجیب عجلت ہے اس شہر کی ہوا میں،یہاں تک کہ یہاں آئے ہوئے سیاح بھی شاید اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔مگر پیرس میں دوسرا معاملہ تھا۔
لادی(ے) فانس سے سیدھی سڑک نکلتی ہے جو شانزے لیزے جاتی ہے۔یہاں بنے بہت بڑے چبوترے پہ بیٹھے ہم دور شانزے لیزے کے کنارے موجود دمکتے آرک کو دیکھ رہے تھے۔میزبانوں کا تھوڑا خرچہ کافی پہ کروایا اور پھر نکل پڑے شانزے لیزے کی طرف۔
جاری ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply