جنوبی کوریا میں میری سیاحت کے تین مہینے اختِتام پذیر ہونے کو ہیں۔ جن میں سے بارہ دن میں نے یہاں کے دارالحکومت اور ملک کے سب سے بڑے شہر سیئول میں گزارے۔سرسبز پہاڑیوں میں آباد یہ قدیم شہر اپنی خوبصورتی اور صفائی میں ساوپاولو، لندن، پیرس، برلن اور استنبول کو مات دیتا ہے۔ جدید طرز پر بنی فلک بوس عمارتوں کیساتھ ساتھ کنفیوشس کی تعلیمات کے زیراثر کوریا کے روایتی گھر بھی اس شہر کی ثقافت کو اجاگر کردیتے ہیں۔ مزیدبرآں، یہاں زائرین کیلئے بدھ مت کے مندر، کیتھولک گرجاگھر اور سیئول کی مرکزی جامع مسجد بین المذہبی ہم آہنگی کا ماحول مہیا کردیتے ہیں۔ گہرائی میں بہتے سیئول کے صاف و شفاف پانی والے دریاۓ ہَن پر کئی بڑے بڑے پُل تعمیر کئے گئے ہیں جن میں بَنپو پُل سیاحوں کیلئے لندن بریج جیسی کشش رکھتا ہے۔پرانے وقتوں میں بادشاہ نے اس شہر کا وسیع علاقہ اشرافیہ کیلئے مختص کیا تھا جس کے اردگرد استنبول کی دیوار جیسی لمبی مگر اس سے موٹائی میں بہت چھوٹی دیوار بنائی گئی تھی جس کے چار بڑے اور چار چھوٹے دروازے ہوا کرتے تھے۔اس زمانے کی دیوار کا بڑا حصّہ آج بھی سیاحوں کیلئے محفوظ کیا گیا ہے جس کے دو بڑے بڑے گیٹ قابلِ دید ہیں۔
سیئول شہر کے اندر سیروتفریح کے لیے مشہور دیدہ زیب مقامات میں سے ایک وہاں کا نامسن ٹاور ہے جو کہ برلن کے ٹی وی ٹاور کی یاد دلاتا ہے۔ اس نامسن پہاڑی کے اوپر کھڑے ہوکر دور دور تک شہر کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ پہاڑی سے اُتر کر سیٹی ہال کی طرف بس پکڑیں تو بالکل ہی سامنے جوزون کے شاہی خاندان کا محل آتا ہے۔ وسیع رقبے پر پھیلا ہوا یہ محل کئی عمارتوں اور الگ الگ صحنوں پر مشتمل ہے جس کے ساتھ ہی بادشاہ کے نوادرات کا میوزیم بنایا گیا ہے۔ محل کے پیچھے کوریا کے فولکلور میوزیم میں یہاں کے خاندانی زندگی کا سامان سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ویسے ثقافتی تنوع کے لحاظ سے سیئول کا نیشنل میوزیم بھی دنیا کے عجائب و غرائب کا کلیکشن سنٹر ہے، جس میں کوریا کی تاریخ و تہذیب سے لیکر روم ، یونان، چائنہ، جاپان، ایران اور ہندوستان کے آثاروآبدات پاۓ جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ہی کوریائی زبان کیلئے الگ میوزیم جو کہ ساؤپاولو میں پرتگیزی زبان کے میوزیم کا عکس لگتا ہے، بنایا گیا ہے۔
سیئول کے بارے میں بجا طور پرکہا جاسکتا ہے کہ یہ ہنستے مسکراتے لوگوں کا پُرامن شہر ہے جہاں صبح ہوتے ہی مغربی سٹائل کے ہرکافی ہاؤس پر لوگوں کا تانتا بندھ جاتا ہے اور سڑکوں پر رات دیر تک انسان ہی انسان نظر آتے ہیں۔ کسی زمانے میں کوریا میں کام کا آغاز سبز چائے سے ہوتا تھا بلکہ اب بھی مختلف پھلوں اور پتّوں سے بنی ذائقہ دار چائے کافی شاپس میں دستیاب ہوتی ہے لیکن موجودہ دور میں کافی کو گرم مشروبات میں یہاں اولیت حاصل ہے۔ چوری اور ڈاکے سے پاک اس پُرامن شہر میں دو چیزیں ٹورسٹ کو یہاں کے تلخ ماضی کی طرف لیجاتی ہیں، ان میں سے ایک جنوبی کوریا کا وار میموریل اور دوسرا سیئول کا قومی قبرستان ہے۔ وار میموریل میں یہاں کے قدیم زمانے کے جنگی آلات سے لیکر شمالی و جنوبی کوریا کے درمیان خانہ جنگی تک کے ہتھیار رکھے گئے ہیں جن میں بڑے بڑے جنگی جہاز، ٹینک اور توپ شامل ہیں اور قومی قبرستان میں جاپانی قبضے کے بعد شمالی کوریا کیساتھ لڑائی میں مارے گئے سپاہیوں کی قبریں اور یادگاریں بنائی گئیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں