• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • پولی گراف ٹیسٹ کس لیے کیا جاتا ہے؟ضروری معلومات آپ بھی جانیے

پولی گراف ٹیسٹ کس لیے کیا جاتا ہے؟ضروری معلومات آپ بھی جانیے

پولی گراف ٹیسٹ، جو عام طور پر جھوٹ پکڑنے کے ٹیسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک ایسی مشین کی مدد سے کیا جاتا ہے جو انسان کے جسم میں پیدا ہونے والی مختلف طبعی تبدیلیوں کی مدد سے اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ آیا وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔

پولی گراف ٹیسٹ کا طریقہ کار:

پولی گراف ٹیسٹ میں ملزم کے ہاتھوں کے ساتھ ایک مخصوص مشین کی تاریں لگا دی جاتی ہیں جو اس کے جسم کے افعال چیک کر کے انہیں ریکارڈ کرتی رہتی ہیں۔

اس دوران ایک یا ایک سے زیادہ ماہر تفتیش کار ملزم سے سوال پوچھتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی مشین پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ ملزم کے جوابوں کے دوران مشین کیا دکھا رہی ہے۔

پولی گراف مشین مختلف جسمانی ردعمل جیسے دل کی دھڑکن، خون کا دباؤ، سانس کی رفتار اور جلد میں برقی لہروںکو ناپتی ہے۔ اس ٹیسٹ کے پیچھے نظریہ یہ ہے کہ سچ بولتے وقت انسان کا جسم معمول کے مطابق کام کرتا رہتا ہے، جب کہ جھوٹ بولتے وقت اس کے جسم اور دماغ کے اندر کشمکش چل رہی ہوتی ہے۔

اس کے نتیجے میں اس کے دل کی دھڑکن، خون کا دباؤ، سانس کی رفتار وغیرہ بڑھ جاتے ہیں اور جلد پر ہلکے سے پسینے کی تہہ آ جاتی ہے۔ یہ ساری علامات پولی گراف مشین کی مدد سے ناپی جا سکتی ہیں، اور ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آیا یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے یا سچ۔

دماغی پولی گراف مشین:

حالیہ برسوں میں ایک نئی قسم کی پولی گراف مشین بھی متعارف کروائی گئی ہے جس میں جسم کی بجائے دماغ کی سرگرمی کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ یہ مشین ٹیسٹ کے وقت ایم آر آئی مشین کی طرح دماغ کا سکین کرتی ہے۔

اس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ جب انسان کوئی ایسا واقعہ بیان کر رہا ہوتا ہے جس سے وہ ذاتی طور پر گزرا ہے تو اس کا دماغ ایک خاص طریقے سے رد عمل دکھاتا ہے، لیکن اگر وہ کوئی من گھڑت بات کر رہا ہے، جس کا اسے ذاتی تجربہ نہیں ہوا، تو دماغ مختلف برتاؤ کرتا ہے جسے اس مشین کی مدد سے پرکھا جا سکتا ہے۔

پولی گراف ٹیسٹ کا استعمال :

پولی گراف ٹیسٹ صرف پولیس ملزموں کا بیان ریکارڈ کرتے ہوئے استعمال نہیں کرتی، بلکہ انہیں مختلف اداروں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً امریکا میں بعض حساس اداروں میں ملازمین کو بھرتی کرتے ہوئے ان کی سکریننگ کے لیے پولی گراف ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔

ان ٹیسٹوں کی مدد سے ادارے یہ جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ امیدوار کسی حساس معاملے میں جھوٹ بولنے کی عادت تو نہیں رکھتا۔

پولی گراف ٹیسٹ کی قابل اعتباریت:

جب سے یہ ٹیسٹ وجود میں آیا ہے، اسی وقت سے اس کی ساکھ پر سوال اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں بیشتر سائنسی اداروں کا خیال ہے کہ یہ ٹیسٹ ناقابلِ اعتبار ہے۔ امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کے مطابق، پولی گراف ٹیسٹ پر سچ یا جھوٹ کو پکڑنے کے لیے اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

ماہرین کی آراء:

امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کے ماہر اور برینڈیس یونیورسٹی کے پروفیسر لیونارڈ سیکس کا کہنا ہے کہ ’دھوکا دہی کی نوعیت ایسی ہے کہ کسی شخص کے مجرمانہ برتاؤ کے بارے میں فیصلہ صادر کرنے کا کوئی اچھا طریقہ موجود نہیں ہے۔ دھوکا دہی کے لیے جسم کوئی منفرد رد عمل نہیں ہوتا۔‘

اس کے علاوہ، امریکا کی نیشنل ریسرچ کونسل نے 2003 ءمیں ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ پولی گراف ٹیسٹ کی کوئی افادیت نہیں ہے۔

سائنسی نقطہ نظر:

سائنسی تحقیق کے مطابق، پولی گراف ٹیسٹ صرف نروس نیس یا پریشانی کی علامات کو پکڑتا ہے، لیکن یہ لازمی نہیں کہ یہ علامات جھوٹ کی وجہ سے ہوں۔

یہ علامات نفسیاتی دباؤ، کسی پریشانی یا ذہنی بیماری کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں۔ جیسے تھرمامیٹر بخار کی شدت بتاتا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ بخار کی وجہ کیا ہے، ویسے ہی پولی گراف مشین صرف جسمانی ردعمل کو ناپتی ہے، مگر جھوٹ کی اصل وجہ کا تعین نہیں کر سکتی۔

پاکستان میں پولی گراف ٹیسٹ کی عدالتی اہمیت:

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی قانون کے تحت پولی گراف ٹیسٹ کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے اور اسے عدالت میں بطور ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا۔ صرف پولی گراف ہی نہیں، بلکہ پولیس کی حراست میں موجود کسی ملزم سے کیے جانے والے اعتراف جرم کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور عدالت میں ملزم بڑی آسانی سے اس سے انکار کر سکتا ہے۔

164 کا اعترافی بیان:

پاکستانی قانون میں ایک اور نوعیت کا اعترافی بیان بھی ہے جسے 164 کا اعترافی بیان کہا جاتا ہے۔ یہ بیان مجسٹریٹ کی موجودگی میں دیا جاتا ہے اور اس کی بعض شرائط ہوتی ہیں، مثلاً اس موقع پر صرف مجسٹریٹ اور ملزم موجود ہوتے ہیں، اور مجسٹریٹ ملزم کے اعتراف سے قبل وضاحت کرتا ہے کہ ملزم کے بیان کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ملزم کو یہ موقع بھی فراہم کیا جاتا ہے کہ وہ بیان دینے کے بعد بھی اس پر سوچ بچار کر لے۔

پولی گراف ٹیسٹ ایک متنازع موضوع ہے جس کی ساکھ اور قابل اعتباریت پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔

سائنسی تحقیق اور ماہرین کی آراء کے مطابق، یہ ٹیسٹ جھوٹ پکڑنے کا ایک ناقابل اعتماد ذریعہ ہے۔

یہ ٹیسٹ صرف جسمانی ردعمل کو ناپتا ہے اور جھوٹ کی اصل وجہ کا تعین نہیں کر سکتا۔ پاکستانی قانون میں بھی اس ٹیسٹ کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہے اور اسے عدالت میں بطور ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پولی گراف ٹیسٹ کے استعمال کے باوجود، دھوکا دہی اور جھوٹ پکڑنے کے لیے مزید تحقیقی اور قانونی ذرائع کی ضرورت ہے تاکہ مجرمانہ برتاؤ کا صحیح تعین کیا جا سکے۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply