حکومت ہویا عدلیہ، سفید و خاکی اسٹبلشمنٹ ہویاسیاستدان، قانون دان ہوں یا اہل علم و دانش ، ہر کوئی آئین و قانون کی حکمرانی کے گیت گاتاسنائی دیتا ہے۔ مگر یہ حقیقت اپنی جگہ کہ آئین و قانون کی حکمرانی تسلیم کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ سب کو آئین کی روح اور الفاظ کے مطابق عمل پیرا ہونا بہت دشوار لگتا ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا آئین اور آئین کی اپنی اپنی تشریح ہے ۔ہر کوئی اپنے ذاتی یا اداراتی مفادات کے تابع آئین و قانون کی من پسند تشریح کرنا چاہتا ہے ۔کوئی قلم کی طاقت سے آئین کو توڑ تا مڑوڑتا رہتا ہے تو کوئی وردی کے گھمنڈ میں آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرتا رہتا ہے۔ سیاستدان اقتدار کے لالچ میں سفید و خاکی افسر شاہی کے کھیل میں کٹھ پتلی بن کر آئین و قانون کا حلیہ بگاڑنے میں بھرپور کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ سب نے مل کر پارلیمنٹ کی بالادستی کو مذاق، آئین و قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے۔
آئین و قانون سے ماوراءاختیارات حاصل کرنے کی اداراتی کشمکش جاری ہے۔ جس نے قومی و عوامی مفادات کو بالائےطاق رکھ کر اداراتی مفادات کو قومی مفادات سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ آئین سے ماوراء اختیارات حاصل کرنے کی اداراتی کشمکش سے سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران، سماجی انتشار اور عوام میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔ ماضی میں خاکی افسر شاہی کے سیاسی کھیل میں مددگار اعلیٰ عدلیہ نے روایت سے منحرف ہو کر اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ ملک و قوم کے مقدر کے فیصلےکرنا صرف خاکی و سفید افسر شاہی کا حق نہیں بلکہ قلم اور ترازو بھی اپنا حق جتا رہا ہے۔ اداراتی اختیارات کی کشمکش میں پارلیمنٹ بے اختیار ، جمہوریت پسپا ، جبکہ عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پستے جا رہے ہیں۔
پارلیمنٹ کی بالاستی اور آئین کی حکمرانی کو خاکی و سفید افسرشاہی نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ مفادات کے تابع اعلیٰ عدلیہ خاکی افسرشاہی کی ہمنوا رہی ہے۔ عوامی راہنما جمہوریت بحالی کی تحریکوں میں ریاستی جبر کا شکار ہوتے رہے ہیں اور اعلیٰ عدلیہ ریاستی نا انصافیوں پر انصاف کی مہر ثبت کرتی رہی ہے۔ ۱۹۷۳ کا متفقہ آئین بنانے والے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید اورمسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو شہید کو آمرجرنیلوں کی ہوس اقتدار کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ ایک اور منتخب وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی آئین و قانون کی حکمرانی کی راہ میں ریاستی اور عدالتی چیرہ دستوں کا شکار بنتے رہے۔ حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ سیاستدانوں کے خلاف ریاستی چیرہ دستیوں کے ہمنوا عمران خان آج انہی اداروں کے جبر کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ بحالی جمہوریت کی جدوجہد اور آئین و قانون کی حکمرانی کی جستجو میں ایک منتخب وزیر اعظم کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا، ایک کو جلسہ گاہ میں قتل کر دیا گیاایک کو ناجائز مقدموں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور جلا وطن ہونا پڑا۔ مگر جمہوریت کا قتل کرنے والے، عوامی حقوق کو سلب کرنے والے اور آئین کی چیر پھاڑ کرنے والے ججوں اور جرنیلوں کے خلاف کاروائی کرنا ناممکن ہے۔
پاکستان میں ۱۹۷۳ کا آئین آمرانہ سوچ رکھنے والوں کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے۔ فوجی جرنیلوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے بار بار آئین کا حلیہ
بگاڑنے کے باوجود جمہوری حکومتیں ۱۹۷۳ کے آئین کو اصل صورت میں بحال کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ جمہوری قوتوں کی تین دہائیوں کی جدوجہد کے بعد ۱۹۷۳
کے آئین کی اصل صورت میں بحالی غیر جمہوری قوتوں کو ایک نظر نہیں بھاتی۔ اس لئے غیر جمہوری قوتیں آئینی حکمرانی کی راہ میں رکادٹیں کھڑی کرنا اپنا اولین فرض
سمجھتی ہیں۔ مگر پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جمہوریت اور جمہوری حقوق کی خواہش کو کچلنا ممکن نہیں ہے۔ تاریخ کا دھارا آمرانہ سوچ اور غیر جمہوری قوتوں کی مخالف
سمت میں بہہ رہا ہے۔
عدلیہ کا آئینی حدودسے تجاوز کرنا اور مقتدرہ کے آئینی حدود سے ماوراء اقدامات آئین و قانون کی حکمرانی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد میں سیاسی و جمہوری قوتوں کا متحد ہو کر آئین و قانون کی حکمرانی کی بحالی اور ہائی برڈ سسٹم سے نجات حاصل کرنے کی آپشنز محدود ہوتی جا
رہی ہیں۔ سیاسی قوتوں کے درمیان کشیدگی اور بات چیت کے دروازے بند ہونے سے غیرجمہوری قوتوں کو تقویت مل رہی ہے۔ ان حالات میں ۹۔ مئی یا کسی اور
واقعہ کا بہانہ بنا کر پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی کرنا جمہوری قوتوں کے لئے شدید دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی چئیرمین اور دیگر قیادت کو جمہوری قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت سے سیاسی ڈائیلاگ کا آغاز کرنے کی پالیسی پر غور کرناچاہئے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں