اک پھیرا اُس پار کا (2)-محمد کبیر خان

ایسا نہیں کہ عرب دُنیا بالعموم اور یو اے ای بالخصوص ہمارے لئے کوئی ان دیکھا جہان ہے ۔ ہم نے تو تقریباً پینتیس سال اسی ریگ مہاساگر سے دانہ دنکا خود بھی چُگا اور حسب توفیق اپنے پیاروںکو بھی چُگوایا ۔ اور جب پوروں سے دیکھ کر دانے اور کنکر میں فرق کرنے لگے تو شیخوں نے “ونّ پیس میں” ہمیں واپس کر کے ثواب دارین حاصل کر لیا۔ سپردم بتو “شیخ” را۔ اب وہی کام ہمارا بیٹا کر رہا ہے۔

” یہ آپ کے ویلے کی اِستری نہیں کہ پورا ٹبّر مِنتیں ترلے کرتا ،مُنڈیاں وارتا پھرے ، پنکھّیاں اور جھولیاں جھولے تو ڈیڑھ گھنٹے کی باجماعت مشقّت کے بعد بمشکل تمام کہیں تِڑخے بھخے۔ یہ ہے وہ جسے آپ کی بولی میں کہتے ہیں کوئلے والی استری۔لیکن جس کی بات میں کر رہاہوں،ہے تو وہ بھی موئےلوہے کی مگر جماندروُ فُلّی آٹومیٹک ۔ ایک بار اِس کو اِس کے اڈّے پر یوں کھڑا کردیں ، آپ تپتی ہے ، آپ چھُسّ کرتی ہے۔ اسے معلوم ہے کہ ریشمی کپڑا کون سا ہے، سوتی کون سا؟۔ اس قدر سیانی بیانی ہے کہ دوُر سے سونگھ کر میری پتلون اور آپ کے پاجامے میں فرق کر سکتی ہے۔ پھر اسی کے فرق کے مطابق نیم گرم ، گرم اورآپ کی زبان میں آگ بگولہ ہوتی ہے۔گرم ہوئی یا نہیں ؟ یہ جاننے کے لئے اِس پر بلغم تھوکنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔۔۔۔ رنگ برنگی بتّی کے ذریعہ خود بتا دیتی ہے کہ کِس حال میں ہے۔ اگر اپنی بنیان استری کرتے کرتے کان بج اُٹھیں تو آپ ممّا کی کال کے بھلیکے میں کِچن کی طرف لپکے ہوں اور لوٹنا بھول گئے ہوں تو دو منٹ کے اندر اندر آپی آپ آف ہو جائے گی۔ یوں آپ کا انڈرویئر جل کر راکھ ہوتا ہے ، نہ ممّا کے وہ موزے جن میں اُنہوں نےدو دو روپے کے متروک نوٹ سینت سینت کر رکھے ہوئے ہیں ۔ یوں آٹھ سو روپے کا متروک خزانہ بھی محفوظ رہتا ہے، گھر میں نیا ٹنٹا بھی کھڑا نہیں ہوتا ہے۔ ۔۔۔۔۔”وغیرہ وغیرہ۔

(ہمیں تو اس استری کی ایک ہی خوبی بھاتی ہے کہ راولاکوٹ میں ماہ منگھر تا چیت کسی وقت بھی چالو کر چھوڑ دیں ،خود بخود ایک گھنٹے کے بعد اتنی گرم ہو جاتی ہے کہ آپ آرام سے چمٹا کر ذاتی کان بھی سینک سکتے ہیں )۔

بیٹے کی زبانی فیوض و برکات سننے کے بعد ہم اُس کی استری پر عاشق ہونے کی سوچ ہی رہے تھے کہ اُس نے ایک فائل ہمارے سامنے لا دھری ۔۔۔۔”یہ میری والی استری کا مینئول ہے۔۔۔ فارغ وقت میں اسے پڑھ لیجئے گا۔۔۔۔۔ اس میں استری کا فوٹو مع محفوظ طریقہ استعمال آسان انگریزی میں درج ہے ۔ اسے دستی پنکھی یا دیگچی کے تسلہ سے ہوا نہیں دینا پڑتی۔ آپ پڑھ کر خوش ہوں گے کہ اسے بھخانے کے لئے وہ تردّد نہیں کرنا پڑتا جو آپ کے زمانہ کی کوئلے والیوں کے ساتھ کرنا پڑتا تھا۔یہ بجلی والی ہے، آپ کی بولی  میں  بے خصمادھواں اور چنگاریاں اُڑاتی ہے نہ بے سبب پٹاخے چھوڑتی ہے۔ اسے بھخانے کے لئے آگ اورپھُکنی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ چنگاریاں اُڑا کر شفون اور ریشم جیسے نازک کپڑے چیڑے میں موریاں بھی نہیں کرتی ۔ اور ہاں آپ کے نیم ٹیگ کو بھی جلا کر کچھ کا کچھ اور ہی نہیں بنا ڈالتی۔ اس کے بعد بیٹے نے لگے ہاتھوں ہمارا تعارف برقی چولہے، آٹومیٹک واشنگ مشین اور دیگر ڈبہ بند ہاوس ہولڈ سے بھی کروایا۔ اس کے بعد الف ننگے ٹی وی سے محتاظ فاصلے تک دوُر رہنے کے طریقےسلیقے بھی بتلائے۔ اسباب میں جو سب سے زیادہ نازک اور مشکل آئٹم تھا وہ “ٹی میکر” تھا۔۔۔۔۔۔ “یہ فُلّی آٹومیٹک ہے۔ دِن میں زیادہ سے زیادہ دو بار آدھا آدھا کپ پانی ڈالیں ، اِس سوئچ کو دبائیں ، پیالے میں آدھا چمچہ چائے ڈالیں ،اس کے بعد ایک چوتھائی چمچی چینی اور اتنا ہی مِلک پوڈر ڈال کر خوب ہلائیں ۔ جب پانی اُبل جائے تو ٹی میکر کو آف کر دیں ۔ چائے تیار سمجھو۔ اِس کپ میں ڈالیں اور بالکنی میں اپنے پسندیدہ تخت طاوس پر بیٹھ کر مزے سے سسکیاں اور چُسکیاں لیں ۔۔۔۔۔۔ بائی دی وے پپا !آپ کا جب ایکسیڈنٹ ہوا تھا آپ نے کیا نام ہے سے،”بےخصمی” سگریٹ نوشی ترک کر دی تھی ،چائے نوشی کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔۔۔؟”

کہا ، بیٹا ! پہلے بھی کفرانِ نعمت کر چکا ہوں ، اوپر سے چائے جیسی جیون جڑی بھی چھوڑ چھاڑ کے بیٹھ رہوں۔۔۔۔؟ اوپر والے کو کون سا منہ دکھاوں گا۔۔۔۔؟؟

“لگے رہو مُنّا بھائی۔۔۔” کہہ کربیٹا دفتر سدھار گیا۔

بیٹا جس عمارت میں رہائش پذیر ہے ، وہ جدید تر سہولتوں اور قواعد سے لیس ہے۔ بندہ کھُل کر کوریڈور کی دیواروں سے “کھیر”سکتا ہے نہ ہاتھ پونچھ سکتا ہے۔ لفٹوں میں بھی خفیہ کیمرے نصب ہیں ۔ بارہا ہاتھوں میں “چُلّ” سی اُٹھی کہ پکّے مارکر سے کوئی چوندا چوندا جملہ یا کسی کابھڑکتا ہوا شعر رقم کردیں:

عطر کی شیشی پتھّر پر توڑ دوں گا

جواب نہ دیا تو خط لکھناچھوڑدوں گا

لیکن چپّے چپّے پر خفیہ آنکھیں فِٹ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ لفٹوں میں بھی لفٹوں والی کوئی بات نہیں ۔ بس ڈبّے میں بند ہوکر “اُوپر”جاو ، خواہ “نیچے”۔اور بس۔ایک دن اِدھر اُدھر دیکھ کر ہم نے ٹافی کا ریپر توڑ مروڑ کر ہولے سے پیچھے پھینکا۔ دو منٹ کے بعد گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولا تو سامنے یونیفارم میں عملہ کا بندہ کھڑا تھا۔

” آپ کا ریپر گر گیا تھا، یہ لیں اور بدست خود گاربیج (کچرا کُنڈی؟) میں ڈال آئیں ۔۔۔۔ اسکیوریٹی کا عملہ بے جا زحمت کے لئے معذرت خواہ ہے ۔یاد رہے کہ گاربیج روم میں بھی کیمرے نصب ہیں، کوئی اور خدمت ۔۔۔۔؟”

(اس کے بعد ہم باتھ روم میں بھی بتّی بجھا کر جانے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ منہ زبانی شیو کرتے ہوئے ہر روز کوئی نہ کوئی جزیرہ سا رہ ہی جاتا ہے۔)

آج آفس سے واپسی پر بیٹا کاغذ میں لپٹا ایک گیند سا لے آیا ۔۔۔۔ “یہ آپ کا پسندیدہ گولہ گنڈا ہے۔ ” بیٹے نے کہا۔

ہم نے اُلٹ پلٹ کر دیکھا، وہ کسی زاویہ سے گولے جیسا لگتا تھا ، نہ گنڈا سا۔

“آپ چکّ مار کر تو دیکھیں ، سواد نہ آیا تو پیسے واپس”۔ بیٹے نے ہمیں متذبذب دیکھ کر کہا۔۔۔۔”یہ ابوظبی کے صرف ایک پٹرول پمپ پر دستیاب ہے، کھا کر دیکھیں، ٹھنڈ نہ پڑ گئی تو جو شرط ۔۔۔۔”۔

“ایک کے کتنے؟” ہم نے پوچھا

“ایک درہم پچاس فلس، نصف جس کا پون درہم سکّہ رائج الوقت ہوتا ہے۔۔۔”اُس نے بتایا۔ ہم نے ایک چک مارا، دوُر تلک رانی باغ کی کُلفی کا سواد اور ویسی ہی کھانسی لگی۔ پردیس میں دیس کا مزا لگ جائے تو بندہ اس کھاجے پر لگ ہی جاتا ہے۔ ( ہمہیں جب بھی موقع ملا ، بیٹے کی عدم موجودگی میں اُس پٹرول پمپ پر جا ڈنڈی سے لپٹا گنڈا گولا کھاآئے۔ اور ہاتھ منہ اپنے ہی اخباری کالم سے پونچھ پانچھ کر لوٹ کے گھر کوآئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply