اک پھیرا اُس پار کا (1)-محمد کبیر خان

بیٹے کے پیہم اصرار پر ہم بُڈھا بُڈھی منہ سر کالا کر،”دُدّھ”چِٹّے کپڑے ڈاٹ “مار شِمرکُوشمرکُو” کرتے ایک بار پھر ابوظبی پہنچ گئے۔ اب کے آزمائشی طور پرہمیں ابوظبی ائیر پورٹ کے نئے ٹرمِنل پر اتارا جانا طے تھا ۔ چنانچہ کئی اَن دیکھے اندیشہ ہائےدوردراز ہماری ریڑھ کی ہڈی میں رینگ رہے تھے

کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے

ایسا کچھ ہوا نہ ویسا کچھ ، خلافِ معمول جملہ کارروائیوں سے گذر کر ہم بیس منٹ میں ٹرمینل سے باہر تھے۔ بس ایک ہلکا ساقلق اندر خانے کہیں کسمسا رہا تھا کہ قطار میں سب سے آگے لگنے کی دوڑ دھوپ اور دھکم پیل سے بے وجہ محروم ٹھہرے رہے۔ بیٹے اور بہو نے ہمیں مال شکستنی کی طرح ہاتھوں ہاتھ لیا ۔ اور “بتیاں دیکھتے دکھلاتے” ہمیں گھر پہنچا دیا۔ ہم نے بچّوں پر ظاہر تو نہیں ہونے دیا لیکن اندر خانے مروڑ سے اُٹھ رہے تھے ۔۔۔کہ ائیر پورٹ کی حدود میں کسی نے ہمیں کسی سے سامان سمیت چھینا نہ اضافی نگ کی طرح اٹھا کر اپنی گاڑی میں ڈالا۔ بچّوں نے ہمیں مال شکستنی کی طرح احتیاط کے ساتھ سیٹوں پر دھرا اور بدست خود پٹے کَس دیئے۔۔ استھان ہے استھان۔

سفر کی تھکان ہڈیوں میں اُتری ہوئی سی تھی، ہم جلد ازجلد بستر پر دراز ہونا چاہتے تھے۔ چنانچہ بچوں کو شب بخیر اور” سویرے ملیں گے”کہہ کر،بتی  گُل کر دی۔ پھر غوں غاں کرتے چند منٹ میں نیند کی وادی میں اُتر گئے۔ نجانے بے کلی حملہ آور ہو ئی یا غیر ضروری صاف ستھرے ماحول کو ہم راس نہ آئے، اُس نے”ھا” کرکے ہمارا “تراہ” نکا ل دیا ۔ ہم جاگ گئے ،پھرنجانے کب تلک جاگا کیے۔ پاسے پرتتے پرتتے بجلی کے کوندے کی طرح خیال آیا اور ہم نے ہاتھ بڑھا کر اے سی آف کردیا۔ اس فعل سے تھوڑی دیر کے بعد ہمیں ناصرف گہری نیند آگئی بلکہ پورے گھر میں ہمارے خراٹے فراٹے بھرنے لگے۔ جانے اُوپر والا کب تلک بچّہ لوگ کانوں میں ٹشو پیپر ٹھونس کرہماری اس سرگرمی سے مستفیض ہوتے رہے۔ پھر تھک ہار کر بیٹے نے اے سی آن کردیا۔ ہم جاگ گئے،وہ جا سو رہے۔ معلوم ہوا کہ ہم بجلی کی آنیوں جانیوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ جب تلک رج کے پسینہ نہ آئے، نیند نہیں آتی۔ اور جب تلک دور (بلکہ “تہور”) تک ٹھہر نہ جائیں ، جاگ نہیں آتی۔

سویرے سورج نے ہم سے طلوع ہونے کی اجازت طلب کی،ہم نے بھی کمال فراخ دلی سےعطا کر دی۔ سورج کےساتھ بالکنی میں طلوع ہو کر انگڑائیاں شنگڑائیاں توڑیں تو پسلیوں کے کڑاکوں سے چشم بینا کھل کھل گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ نیچے گلی میں “آگ کی ڈبیاں”(ماچسیں) اور لِلّی پٹ کے بونے رینگ رہے ہیں۔ آنکھیں مَلیں تو کھلا کہ جسے ہم اپنے تائیں “ککو کی نکّی” قیاس کر چکے تھے، وہ صرف پینتیس چھتیس(یا اس سے دو چار کم زیادہ)منزلہ عمارت تھی ۔ جو اپنے بیٹے کی بدولت ہمیں”اَدّھے اشمان” دکھلائی دے رہی تھی۔ دونوں ہاتھوں کی دُور بین بنا کر دیکھا تو سامنے پار ایک بالکنی میں ڈبل ڈیکر کھاٹ کے گھر میں ہنگامہ سا بپا تھا۔ دور بینی سے کام لیا تو واضح ہوا کہ کھاٹ مذکوریہ کی دونوں منزلوں میں وہ سرگرمی جاری تھی ، جسے اپنے ہاں بیاہ کہتے ہیں ۔ کم وبیش چھ یا سات سِریاں پھدک رہی تھیں ۔باقی کارروائی واضح نہیں تھی۔ لیکن انہماک سے اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ جو ہورہی ہے، ہونی ہی ہو رہی ہے۔ معاً پیچھے مُڑ کر کیا دیکھتے ہیں کہ سِتّی بے اورمیڈم ہمارے یارِ غار اَدّھوُ سے “دھوڑی” کر رہی تھیں کہ وہ “بندے دا پُتر” بنے اور ڈھنگ میں بھنگ نہ ڈالے۔ ورنہ وہ تایا ابّوُ سے شکایت کر کے اُس کے فُٹ بال کی ساری ہوا نکلوا ڈالیں گی۔ برادری سے اُس کا بھانڈا پیالہ الگ کروائیں گی ، وہ الگ۔۔۔ پھر ساہنے پر اکیلا بیٹھا بانسری بجایا کرنا”۔ یہ سنتے ہی اَدّھو نے فٹ بال اُٹھایا اور ٹیڑھے میڑھے منہ سے دو”چگیں” داغ کر یہ جا وہ جا۔

اَدٗھو کے جانے کے بعد سِتّی بے اور میڈم نے دُلہن کو اُبٹن بٹھا نے کا کام شروع کیا۔ دُلہنیا کے ہاتھوں پیروں پرہی نہیں ،پورے “منہ مہاندرے”پر اُبٹن تھاپا۔ اور اس قدر انہماک سےکہ ہنسلی کی ہڈیوں سے “گنجِ گراں مایہ “کی قدرتی حد فاصل تک گارے کی دبیز تہہ سی چڑھ گئی۔ اور دُلہن کو اس پلستر سمیت سوکھنے کے لئے دھوپ میں ڈال دیا گیا۔ سپردم بتو شیخ را۔کنکنی دھوپ میں اُبٹن ایسا چڑھا کہ دُلہن بیٹھے بیٹھے سو گئی۔ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اُس پار والا بیاہ اُجڑ چکا تھا ۔ لیکن اِس پار والی دُلہن کا اُبٹن ہی نہیں ، بائیں مونچھ کی ایک “ٹَکؔی” بھی اُڑ چکی تھی۔ جس کا ازالہ”ویلوں”(ہمارے ہی اخباری کالموں کے تراشوں کی کترنوں)سے کیا گیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جانے اوپر والا، ہم کیسے اس بیاہ سے جانبر ہوئے لیکن اُس نیند جیسی نیند ہمیں کبھی نہیں آئی۔ چار پتلے پتلے اور نازک ہاتھ ہمارے منہ ماتھے پر آنند ہی آنند ٹائپ کر رہے تھے۔ جی چاہتا تھا وقت یہیں اسی مقام پر تھم جائے ۔۔  کھائے زمانہ خصماں نوں۔ وہیں پڑے پڑے ہم نے آئینے میں دیکھا کہ دُلہن کے ہونٹوں پر سُرخ سیاہی کی دبیز تہہ، ابرووں پر “گولے”( سفید مٹی) کا لیپ، اور کانوں میں کیکر کی کلیوں کی بالیاں لہرا رہی تھیں ۔ ایسا میک اپ ہم نے تنزانیہ کے جنگل میں مسائے عورتوں پر چڑھا دیکھا تھا اور بس۔ تاہم جب جیب بھاری لگی تو دیکھا کہ اس میں ہمارے ہی اخباری کالموں کے تراشے بطور ویل بھرے پڑے تھے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply