واہمہ وجود کا” اور اپنی بات/جاوید رسول

ایسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے کہ شاعر وجودی فلسفہ کو موضوع بنا رہا ہو لیکن شعر میں کسی طرح کی پیچیدگی یا کھردرا پن نہ در آئے۔بعض جدید شعرا نے وجودی فلسفہ کو باضابطہ پڑھ کر اسے شعری موضوع بنانے کی تحریک حاصل کی لیکن ان کا تخلیقی وژن اتنا مضبوط نہیں تھا کہ وہ ان موضوعات کو برتتے وقت شعر کو اہمال کی حد تک پہنچنے سے بچا پاتے۔ان کا شعری ڈکشن اور اسلوب اس قدر پیچیدہ تھے کہ بعد میں ہمارے جدید نقادوں کو یہ کہہ کر ان کی حمایت کرنا پڑی کہ صاحب ایسی شاعری کو سمجھنے کے لیے قاری کا تربیت یافتہ ہونا ضروری ہوتا ہے۔لیکن میں حیران ہوں کہ کم و بیش وہی موضوعات سالم سلیم کے تازہ شعری مجموعہ “واہمہ وجود کا” میں موجود شاعری کے بھی ہیں مگر اس میں وہ اسلوبیاتی پیچیدگی ہے نہ ڈکشن کا بوجھل پن بلکہ یہ شاعری تو اس قدر آسان اور بےتکلف ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے قاری کا ذہن بالکل نہیں الجھتا۔گوکہ وجودی فلسفہ اس شاعری میں بھی موجود ہے تاہم اس میں زبان و بیان کا تخلیقی استعمال اتنا شستہ و رفتہ ہے کہ کسی فکری یا فلسفیانہ الجھاوے کا گمان تک نہیں گزرتا اور شعر ذہن و دل کو چھو لیتا ہے۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ شاعری فلسفیانہ ہو لیکن اتنی بےتکلف ہو کہ اس میں مغز کپھانے کی ضرورت ہی نہ پیش آئے؟ دیکھیے اس کے لیے ہمیں جدید اور مابعد جدید شعری مزاج کے نقطئہ افتراق کو سمجھنا ہوگا۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ دونوں میں فرق موضوعاتی نوعیت کا ہے جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دونوں میں فرق اسلوبیاتی نوعیت کا ہے۔دراصل جدید شاعری میں جان بوجھ کر ابہام پیدا کرنے کا ایک رجحان سا چل پڑا تھا اور اس کے لیے شعرا نے جن شعری وسائل کو بروئے کار لایا ان میں ڈکشن اور ذاتی علامت سازی کو خاصا دخل تھا۔آپ جدید شاعری کو اٹھا کر دیکھیے اس میں ترسیل کے راستے میں جو چیز سب سے زیادہ مشکل پیدا کرتی ہے وہ یا تو لفظیات ہے یا پھر علامت سازی کا عمل۔حق مغفرت کرے فاروقی صاحب کی، انہوں نے شعر کے لیے ابہام اور جدلیاتی الفاظ کا استعمال کیا ضروری ٹھہرایا جدید شعرا کے لیے یہ ایک لازمہ کی حیثیت اختیار کرگیا.ورنہ فاروقی صاحب کی یہ تھیوری تو حالی کی اسی تھیوری کی توسیع تھی جس کے وہ مخالف تھے۔یہ الگ بات ہے کہ حالی کی پیروی نہ کے برابر لوگوں نے کی جبکہ فاروقی صاحب کی پیروی میں جدید شعرا کی ایک فوج تیار ہوئ۔خیر! سالم سلیم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں، تخلیقی آزادی اس کا مابہ الامتیاز ہے۔آج نہ کوئ ازم یا رجحان شاعری کے لیے کسی معیار کا تعین کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئ نقاد شعری تھیوری کے ذریعہ اصولِ اظہار متعین کرسکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سالم سلیم کی شاعری موضوعاتی سطح پر جدید شاعری کے بہت قریب ہوتے ہوئے بھی اپنا الگ انفراد رکھتی ہے۔جدید شعرا فلسفیانہ نوعیت کے موضوعات کو شعری قالب میں ڈھالتے وقت دیے ہوئے فارمولے کے پابند تھے، سالم اس قسم کی پابندیوں سے بالکل آزاد ہوکر شعر کہتے ہیں اور اسی تخلیقی آزادی نے انہیں برجستہ شعر کہنے کی تحریک بخشی ہے۔

یہ تو آزادئ اظہار کے امتیازات کی بات تھی، اب ذرا سالم سلیم کی شاعری کے موضوعات کا رخ کرتے ہیں۔
ایک بات تو واضح ہے کہ ان غزلوں میں شاعر کا تخاطب اپنی ذات سے ہے اور ذات ہی بقول کرکیگارڈ وہ خالص سچ ہے جو انسان کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔موجودگی سے مراد صرف زندہ ہونا ہرگز نہیں ہے بلکہ “بننے” Becoming کے پروسس کی آگہی ہے یعنی ہر لمحہ نئے پن یا یوں کہیے کہ اپنے ارتقاء کا احساس ہونا۔لیکن سوال یہ ہے کہ کہ کیا ہر انسان کو اپنی موجودگی کا احساس ہوتا ہے؟ یعنی کیا ہر انسان “بنتا” ہے؟ ظاہر ہے نہیں۔کیونکہ یہ تو داخلی بصیرتوں یعنی شعوری آگہی کا نتیجہ ہوتا ہے اور وہ انسان جو سرکس کے گھوڑے کی طرح فقط دوسروں کے اشاروں پر دم ہلاتا ہو یا پیڑ پودوں کی طرح محض اپنی معیاد کو پہنچتا ہو، ایک میکانکی وجود ہوتا ہے۔اس کی حیثیت محض ایک شئ Object کی ہوتی ہے۔یہ بظاہر موجود تو ہوتا ہے لیکن اسے اپنی موجودگی کا احساس نہیں ہوتا۔دیکھا جائے تو سالم سلیم کی شاعری اس لحاظ سے ایک مکمل بیانیہ ہے کیونکہ اس میں شئیت سے موضوعیت یعنی ذات کی طرف شاعر کی مراجعت کا پورا واقعہ بیان ہوا ہے۔پھر ذات کی طرف اس مراجعت کے دوران شاعر کو جن وجودی کربناکیوں سے گزرنا پڑا ہے ان کی شعری Images اس قدر توانا اور واضح ہیں کہ ذہن و دل کو جھنجھوڑ کے رکھ دیتی ہیں۔مثلاً یہ شعر دیکھیے؛
بدن کے سارے جزیرے شمار کرتے ہوئے
میں تھک گیا ہوں سمندر کو پار کرتے ہوئے
ظاہر ہے سچ کی تلاش ایک داخلی تجربہ ہوتا ہے اور یہ تجربہ سمندر کے سفر کی مانند ہوتا ہے جس کی وحشت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہاں انسان بالکل تنہا ہوتا ہے.تنہائ کی یہی وحشت انسان کا امتحان لیتی ہے کہ وہ یا تو اس کا ادراک کر کے سچ کو پا لے یا پھر واپس خارجیت کی طرف پلٹ جائے۔بعض لوگ تو اس کے آگے اتنا بےبس ہوجاتے ہیں کہ ان میں واپس پلٹنے کی بھی ہمت نہیں رہتی۔مذکورہ شعر میں دیکھیے شاعر کی تھکن سے پیدا ہونے والی امیج کس قدر کربناک ہے، لگتا ہے کہ اب اس کی ہمت پست پڑ رہی ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ سچ کو پانے کی جستجو اور خُو ایسی ہے کہ شاعر کو سمندر سے اٹھنے والی موج فنا کی کوئ پرواہ نہیں؛

جو لے گئ اسے موج فنا تو حیرت کیا
میں اپنا جسم سمندر پہ رکھ کے آیا ہوں

جسم کو سمندر پہ رکھنا گویا ذات میں داخل ہو جانے یعنی خودسپردگی کا واقعہ ہے۔بقول اقبال،
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن

بنیادی طور پر ہمارے شاعر کا بھی مسئلہ سراغ زندگی یعنی حقیقی وجود Authentic Being کی تلاش ہے۔لیکن اس تلاش و جستجو کے دوران اسے داخلی سطح پر جن اذیتوں کا سامنا رہتا ہے ان کا شعری اظہار نہایت کربناک ہے۔
خود اپنی خواہشیں خاک بدن میں بونے کو
مرا وجود ترستا ہے میرے ہونے کو
یہ کس کی آگ مرے تن بدن میں رقصاں ہے
یہ کس چراغ کی لو سے بندھا ہوا ہوں میں
سویا ہوا ہے مجھ میں کوئ شخص آج رات
لگتا ہے اپنے جسم سے باہر کھڑا ہوں میں
اک ہاتھ میں ہے آئنئہ ذات و کائنات
اک ہاتھ میں لئے ہوئے پتھر کھڑا ہوں میں
نہ جانے کب سے پڑا ہوگا یوں ہی گرد آلود
جو میرے ساتھ مرا آئنہ وجود کا ہے
میں اپنی خاک میں زندہ رہوں، رہوں نہ رہوں
دراصل میرے لیے مسئلہ وجود کا ہے

ان تمام اشعار میں ظاہر ہے حقیقی وجود کو پانے کی آرزو مندی اور جستجو کا جذبہ موجزن ہے۔ہر چند کہ اس جذبہ کی نفسیات فلسفیانہ ہے لیکن اس میں موجود شاعر کی وجودی کربناکی کا فوری احساس قاری کو شاعر کے داخلی تجربہ میں شامل کرتا ہے۔
تنہائ جدید شاعری کا بھی مرکزی موضوع رہا ہے لیکن وہ بنیادی طور پر اس عہد کے میکانکی کلچر کی پیداوار تھی جبکہ سالم سلیم کی شاعری میں تنہائ Solitude حقیقی وجود کو پانے کی تلاش و جستجو کا نتیجہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہمارا شاعر دوسروں کی موجودگی میں بھی خود کو تنہا محسوس کرتا ہے.
جاوں کہاں میں خانئہ تنہائ سے کہ ہیں
گھیرے ہوئے مجھے در و دیوار ہر طرف

یہ بھی سچ ہے کہ تنہائ کے کرب سے بڑھ کر کوئ کرب نہیں ہوتا، اس میں جو اضطراب ہوتا ہے وہ انسان کو عموماً محدودیت Fanitude اور کم مائگی کا احساس دلاتا ہے۔انسان کو شکستگئ خواب ایک ایسی مطلق حقیقت معلوم ہونے لگتی ہے کہ گویا دنیا میں سوائے ناکامی، بےبسی اور لاچارگی کے کچھ نہ ہو۔انسان کے ذہن و دل میں دنیا کی تصویر کسی زبح خانے کے جیسی ابھرنے لگتی ہے جسے دیکھ کر اسے متلی ہوتی ہے اور اس کی روح بے چین ہوکر جسم کی قید سے آزاد ہونے کی بار بار خواہش کرتی ہے۔
زندگی قید ہوں میں اپنے بدن کے اندر
اور بلاتا ہے کوئ جسم سے باہر مجھے
موت سے مل لیں کسی گوشئہ تنہائ میں
زندگی سے جو کسی دن ہمیں فرصت دی جائے
میں سرِآب ہوں رکھی ہوئ اک لاش فقط
کیا کروں غرق سمندر ہی نہیں ہوتا میں
زیب غوری بھی جب تنہائ کے اس مرحلے سے گزر رہے تھے تو ان کے اندر بھی خود کو عدم کے سپرد کرنے کی خواہش جاگ اٹھی تھی؛
گھسیٹتے ہوئے خود کو پھرو گے زیبؔ کہاں
چلو کہ خاک کو دے آئیں یہ بدن اس کا

سالم سلیم کچھ اسی تناظر میں کہتے ہیں؛
تنگ ہے روح کی خاطر ابھی ویرانئہ جسم
تم کہو تو عدم آباد کیا جائے اسے
حتی کہ بودلیئر اپنی روح کو منانے کے لیے اسے لیسبون، ہالینڈ، پیرس اور نہ جانے دنیا کے کن کن حسین ترین مقامات پر لے جانے کی لالچ دیتا ہے لیکن اس کی روح بضد ہوکر چیخ پڑتی ہے کہ وہ اسے کہیں بھی لے جائے مگر اس جہاں سے دور؛
Finally, my soul erupts, and in wisdom cries out, “Anywhere! anywhere!
out of this world!”
آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے سالم سلیم کی شاعری کو بیانیہ کہا تھا اس لیے کہ یہ شاعری حقیقی وجود کی تلاش و جستجو کا پورا واقعہ ہے۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ شاعری بیانیہ ہے تو کیا اس بیانیہ کا کوئ اختتامیہ بھی ہے؟ یعنی کیا “واہمہ وجود کا” شاعر وجود کے مسئلہ کو حل کرپایا ہے؟ کیا اسے وہ حقیقی وجود مل گیا جس کی تلاش و جستجو میں وہ ذات کے سمندر میں تنہا ڈوبتا ابھرتا رہا؟ اس کے جواب میں قطعیت کے ساتھ یہ دعوی تو ہرگز نہیں کروں گا کہ شاعر نے وجود کا مسئلہ حل کرلیا ہے۔لیکن ہاں شاعر آخر میں جس حوصلہ مندی کے ساتھ اپنے ہونے کا اعلان کرنا چاہتا ہے اسے دیکھ کے تو یہی لگتا ہے کہ اسے داخلی تجربات سے کسی ایسی حقیقت کا ادراک ضرور ہوا ہے جس کی بنا پر وہ اپنے ہونے کا اعلان کرنے کی جرات کررہا ہے؛
جسم کی سطح پہ طوفان کیا جائے گا
اپنے ہونے کا پھر اعلان کیا جائے گا
یہاں پر موضوعاتی بحث کو ختم کرتے ہوئے روایت کے ساتھ سالم سلیم کے رشتہ کی نوعیت کو دیکھتے ہیں۔جہاں تک میں نے اس شعری مجموعہ کا مطالعہ کیا ہے مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئ کہ سالم نے صرف جدید ہی نہیں بلکہ کلاسیکی شعری روایت سے بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر استفادہ کیا ہے۔آپ کو غالب کا یہ شعر تو یاد ہی ہوگا؛
درد منت کش دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا برا نہ ہوا
اب سالم سلیم کا یہ شعر بھی دیکھیے اور دونوں کے لہجہ اور نفس مضمون میں مماثلت دیکھیے کتنی عیاں ہے؛
روح کے زخم سے جاں بر ہی نہیں ہوتا میں
یہی بہتر ہے کہ بہتر نہیں ہوتا میں
شعر لیکن غالب کا زیادہ اچھا ہے اس لیے کہ اس نے “درد” کی کوئ صورت بیان نہیں کی جبکہ سالم نے “روح کا زخم” کہہ کر درد کی صورت گری کی ہے جس سے ان کے شعر میں معنویت کا ایک ہی پہلو نکلتا ہے جبکہ غالب کے شعر میں کثرت معنی کی گنجائش ہے۔
قدیم کے بعد جدید شعری روایت سے سالم کے تعلق کو دیکھیے، سالم کا شعر ہے؛
زندگی قید ہوں میں اپنے بدن کے اندر
اور بلاتا ہے کوئ جسم سے باہر جیسے
اب یہ کون ہے؟ جو شاعر کو جسم سے باہر بلاتا ہے۔اس کا جواب کمار پاشی کی نظم “سمندر جاگتا ہے” میں ملتا ہے جہاں سمندر “عدم”/”نیستی” کی علامت ہے؛
سمندر چپ نہیں رہتا/سمندر چیختا ہے اور مجھے آواز دیتا ہے/نہ جانے میں کہاں ہوں،کس کے گھر/کس کے بدن میں قید ہوں اب تک/_____سمندر چیختا ہے،مجھ کو رہ رہ کر بلاتا ہے۔
یہاں چونکہ ہیتی تفاوت ہے اس لیے یہ کہنا کہ کون زیادہ بہتر ہے غزل کا شعر یا پاشی کی نظم، مناسب نہیں ہوگا۔ہاں مگر سالم کے شعر میں لفظ “کوئ” سے جو ابہام پیدا ہوا ہے وہ ان کے شعر کی نحوی اور معنوی دونوں ساختوں کو خوبصورت بنادیتا ہے۔
یہ تو محض چند مثالیں تھیں صرف یہ بتانے کے لیے کہ اسلوب مختلف ہونے کے باوجود سالم سلیم کی شاعری روایت سے وابستہ ہے۔ہاں یہ درست ہے کہ روایت کے ساتھ ان کے تعلق کے کئ اسباب ہوسکتے ہیں جن میں ایک ریختہ کے ساتھ ان کی وابستگی بھی ہے۔ظاہر ہے انہیں ریختہ میں ادبی کتب کی ترتیب و تزئین کے دوران قدیم و جدید شاعری کو پڑھنے کا موقع ملا ہوگا اور کتنے ہی موضوعات اور تلازمات اب تک ان کی یاداشت میں شامل ہوئے ہوں گے وہ سب کہیں نہ کہیں ان کی شاعری کے ذریعہ ہی تو اظہار پاتے ہیں۔
ہم نے اوپر سالم کی شاعری کا موضوعاتی مطالعہ کیا جس میں یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ کیسے ان کی شاعری وجودی مسائل کو بیان کرتی ہے لیکن یہ بتانا بھول ہی گئے کہ ان کی شاعری صرف وجودی مسائل ہی کے گرد نہیں گھومتی بلکہ اس میں کم ہی سہی لیکن ان کے شعری مزاج کے وہ پہلو بھی سامنے آتے ہیں جو ان کے مزاج کی ہمہ گیری کو سمجھنے میں معاون ہوتے ہیں۔مثلاً لذتیت اور ظرافت انگیزی۔ نمونہ کے طور پر یہ اشعار دیکھیے؛

julia rana solicitors london

شب تاریک میں روشن سا اک چہرہ پکڑ لے گا
مرے قدموں کو تیرے جسم کا سایہ پکڑ لے گا
عالم خواب میں ہے تجھ سے ملاقات کی شام
تو نہیں تو تجھے ایجاد بھی کرسکتا ہوں
اگر باقی رہا یہ مشغلہ بننے سنورنے کا
تمہارے حسن کو اک روز آئینہ پکڑ لے گا
ترے خیال میں آدھی تو کاٹ دی ہم نے
ذرا سی عمر بچی ہے تو کوئ کام کریں
پہلے شعر میں لذتیت کا عنصر بالکل عیاں ہے اس پر کوئ بحث نہیں لیکن دوسرے شعر میں “تو نہیں تو تجھے ایجاد بھی کرسکتا ہوں” جنسی خواہش کو پورا کرنے میں تخیل کی کارفرمائ کی طرف اشارہ ہے اور یہ دراصل مابعد جدید کلچر میں سانس لے رہی نئ نسل کا نفسیاتی پیچ ہے جس کا اظہار اس شعر میں ہوا ہے۔ممکن ہے آپ اس شعر سے کوئ اور معنی مراد لیں لیکن میرے لیے اس میں لذتیت کا یہی عنصر نمایاں ہے۔آخری کے دو شعر کسی وضاحت کے محتاج نہیں اور نہ ہی ان میں موجود طنز یا تمسخر پر کوئ بحث ہے۔یہ شاعر کے فطری پن کی دلیل ہے کہ وہ محض فکری مسائل کو ہی شعری اظہار عطا نہیں کرتا بلکہ اپنے فطری رویوں کو بھی شعری سانچہ میں ڈھالتا ہے۔اس مضمون میں استعاروں یا علامتوں کا تذکرہ اس لیے نہیں ہوا کیونکہ میرے خیال میں سالم کے شعری اختصاص کو ان سب چیزوں کے بغیر بھی سامنے لایا جاسکتا ہے اور میں نے بہتر یہی سمجھا کہ ان سب چیزوں کے بغیر ہی ایک الگ نقطئہ نظر سے ان کے شعری اختصاص کو سامنے لایا جائے۔یقیناً برصغیر میں موضوع، آہنگ اسلوب اور ڈکشن کی سطح پر بالخصوص غزلیہ شاعری میں جو نئ آوازیں اپنا جادو بکھیر رہی ہیں ان میں سالم سلیم کی شعری آواز حوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply